میں ہوں بجھا ہوا چراغ، کوئی مجھے بجھائے کیا

نور وجدان

لائبریرین

عشق نصیب ہو جسے ، مر کے بھی چین پائے کیا
درد جسے سکون دے، نازِ دوا اٹھائے کیا


مرگ ہو جسکی زندگی، چوٹ اجل کی کھائے کیا
میں ہوں بجھا ہوا چراغ، کوئی مُجھے بُجھائے کیا

ٹوٹا ہے دل کا آئنہ، عکسِ خیال لائے کیا
شعر کوئی بنائے کیا؟ مایہ ء فن لُٹائے کیا

غم سے مفر کِسے یَہاں، دیکھے جِگر کے زخم کون
کس کو سنائیں حال ہم، اپنے ہی کیا؟ پرائے کیا؟

ساعتِ وصل حشر تھی صدمہ ء زندگی بنی
بیٹھے ہیں روتے رہتے ہم، کوئی ہمیں رلائے کیا

تاب نہیں سنانے کی، بات تمھہیں بتانے کی
وحشتِ دل سنانے کو غیر کے در پہ جائے کیا

سخت ہے منزلِ سفر، رستہ نہ کوئی نقشِ پا
تُو جو ہے میرا رہنما، رستہ مجھے تھکائے کیا​
 
مدیر کی آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
محترمہ السلام علیکم !

سب سے پہلے تو مبارک قبول کریں کہ بہت اچھی کاوش ہے -بحر مشکل منتخب کی اور اس کو خوب نبھایا کہ وزن تمام اشعار کا پورا ہے -یہ بھی ایک کامیابی ہے ما شاء اللہ -

حتمی اصلاح تو اساتذہ ہی کریں گے خصوصًا الف عین صاحب لیکن ہفتہ 'اتوار چھٹی ہے- سوچا میں بھی ذرا آپ کے اشعار پہ ایک اور زاویۂ نگاہ سے روشنی ڈالوں -

ہر ہر شعر پہ فرداً فرداً بات ہو گی -فی الحال مطلع پہ رائے کی صورت رسید حاضر -باقی کل ان شاء اللہ -

عشق نصیب ہو جسے ، درد سے جان جائے کیا
درد جسے سکون دے، نازِ دوا اٹھائے کیا

"درد" کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی -یہ بھی ایک صورت ہے :

عشق نصیب ہو جسے' مر کے بھی چین پائے کیا
درد ہی جس کی ہو شفا '
نازِ دوا اٹھائے کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
محترمہ السلام علیکم !

سب سے پہلے تو مبارک قبول کریں کہ بہت اچھی کاوش ہے -بحر مشکل منتخب کی اور اس کو خوب نبھایا کہ وزن تمام اشعار کا پورا ہے -یہ بھی ایک کامیابی ہے ما شاء اللہ -

حتمی اصلاح تو اساتذہ ہی کریں گے خصوصًا الف عین صاحب لیکن ہفتہ 'اتوار چھٹی ہے- سوچا میں بھی ذرا آپ کے اشعار پہ ایک اور زاویۂ نگاہ سے روشنی ڈالوں -

ہر ہر شعر پہ فرداً فرداً بات ہو گی -فی الحال مطلع پہ رائے کی صورت رسید حاضر -باقی کل ان شاء اللہ -

عشق نصیب ہو جسے ، درد سے جان جائے کیا
درد جسے سکون دے، نازِ دوا اٹھائے کیا

"درد" کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی -یہ بھی ایک صورت ہے :

عشق نصیب ہو جسے' مر کے بھی چین پائے کیا
درد ہی جس کی ہو شفا '
نازِ دوا اٹھائے کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے

ویسے میں نے بہت سے شعراء کے کلام میں اک لفظ کو دہراتے پایا ہے اس لیے اسی لفظ کو استعمال کیا بعض دفعہ اک لفظ کا دوبارہ استعمال شدت کے لیے بھی ہوتا ہے مگر بات آپ کی مناسب ہے تو اسے یوں بھی کیا جاسکتا ہے

جان دکھوں سے جائے کیا
 

یاسر شاہ

محفلین
ویسے میں نے بہت سے شعراء کے کلام میں اک لفظ کو دہراتے پایا ہے اس لیے اسی لفظ کو استعمال کیا بعض دفعہ اک لفظ کا دوبارہ استعمال شدت کے لیے بھی ہوتا ہے مگر بات آپ کی مناسب ہے تو اسے یوں بھی کیا جاسکتا ہے

جان دکھوں سے جائے کیا

تکرار کا ہونا ایک الگ بات ہے اور تکرار کا بھلا لگنا الگ چیز -میں نے مؤخر الذکر کی طرف اشارہ کیا تھا -ویسے اب شعر بہتر ہو گیا ہے -

عشق نصیب ہو جسے ، جان دکھوں سے جائے کیا
درد جسے سکون دے، نازِ دوا اٹھائے کیا

خوب -
__________________

درد ہو جسکی زندگی، چوٹ اَجل کی کھائے کیا
میں ہوں بجھا ہوا چراغ، کوئی مُجھے بُجھائے کیا

شعر کے دونوں مصرعے بےجوڑ سے لگے -

یعنی شعر کا مفہوم کچھ ایسا بنتا ہے کہ جس کی زندگی میں درد ہی درد ہوں موت کی چوٹ اس کا کیا بگاڑے گی اسی طرح مجھ بجھے ہوئے چراغ کو کوئی کیا بجھائے -اب فرمائیے کہ بجھے ہوے چراغ کی پردرد زندگی سے کیا نسبت ؟

مصرعۂ اولا میں "مرے ہوئے کو کیا مارنا " کا مفہوم پیدا کریں تو بات بن جائے گی اور مصرعۂ ثانی سے خود کو الگ رکھیں تو بہتر -کچھ ایسا سوچ سکتی ہیں :

زیست ہی جس کی مرگ ہو موت سے اس کا جائے کیا
جو ہے بجھا ہوا چراغ کوئی اسے بجھائے کیا
 

یاسر شاہ

محفلین
ٹوٹا ہے دل کا آئنہ، عکسِ خیال لائے کیا
شعر کوئی بنائے کیا؟ مایہ ء فن لُٹائے کیا


شعر تو خوب ہے مگر مشاہدے اور تجربے کے بر عکس -کیونکہ دل ٹوٹنے پر تو خوب آمد ہوتی ہے اور اشعار کا تانتا سا بندھ جاتا ہے -ہو سکتا ہے آپ کا معاملہ مختلف ہو -
 

یاسر شاہ

محفلین
غم سے مفر کِسے یَہاں، دیکھے جِگر کے زخم کون
کوئی سنائے حال کیا؟ اپنے بھی کیا؟ پرائے کیا؟


دوسرے مصرع میں تین بار "کیا " کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی -آخری دو بار اچھی لگ رہی ہے اور "اپنے " اور "پرائے" میں دو معنی پیدا کر رہی ہے -ایک مراد اپنے ' پرائے حال -دوسری مراد اپنے ' پرائے لوگ -دوسرے مصرعہ کو اس طرح بدل دیں -

کس کو سنائیں حال ہم؟ 'اپنے ہی کیا؟' پرائے کیا؟
 

یاسر شاہ

محفلین
ساعتِ وصل حشر تھی صدمہ ء زیست جو بنی
شور اسی گھڑی کا پھر خامُشی میں بھی جائے کیا

حشر کے لمحے تو ٹھہر! جو ہو قصور وارِ عشق
وحشتِ دل سنانے کو غیر کے در پہ جائے کیا


ان دو اشعار کے یہ دو مصرعے سنبھال کے رکھیے اور انھیں کے جوڑ اور ٹکّر کے مصرعے بطور گرہ لگائیے -کیونکہ فی الحال یہ دو شعر اپنا مطلب واضح نہیں ادا کر پا رہے -

" ساعتِ وصل حشر تھی صدمہ ء زیست بن گئی "
--------

"وحشتِ دل سنانے کو غیر کے در پہ جائے کیا"
 

یاسر شاہ

محفلین
سخت ہے منزلِ سفر، رستہ نہ کوئی نقشِ پا
گر تُو ہو میرا رہنما، رستہ مجھے تھکائے کیا


خوب ہے -"تو" کی "واؤ" کو گرانے سے بچا بھی جا سکتا ہے :


"تو جو ہے میرا رہنما ....."

یاسر
 

فاخر رضا

محفلین
نور سعدیہ بہت اچھا لکھا ہے
سخت ہے منزلِ سفر، رستہ نہ کوئی نقشِ پا
گر تُو ہو میرا رہنما، رستہ مجھے تھکائے کیا
بہت خوب
میں ہوں بجھا ہوا چراغ، کوئی مُجھے بُجھائے کیا
آپ نے چراغ کی وجہ سے مذکر کا صیغہ استعمال کیا ہے؟
آپ کا تخلص کیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ساعت وصل حشر اتنا مزا نہیں دے رہا.
'وہ جو تھی وصل کی گھڑی' بھی تو کیا جا سکتا ہے
باقی یاسر کی باتوں پر بھی غور کریں
 

نور وجدان

لائبریرین
تکرار کا ہونا ایک الگ بات ہے اور تکرار کا بھلا لگنا الگ چیز -میں نے مؤخر الذکر کی طرف اشارہ کیا تھا -ویسے اب شعر بہتر ہو گیا ہے -

عشق نصیب ہو جسے ، جان دکھوں سے جائے کیا
درد جسے سکون دے، نازِ دوا اٹھائے کیا

خوب -
__________________

درد ہو جسکی زندگی، چوٹ اَجل کی کھائے کیا
میں ہوں بجھا ہوا چراغ، کوئی مُجھے بُجھائے کیا

شعر کے دونوں مصرعے بےجوڑ سے لگے -

یعنی شعر کا مفہوم کچھ ایسا بنتا ہے کہ جس کی زندگی میں درد ہی درد ہوں موت کی چوٹ اس کا کیا بگاڑے گی اسی طرح مجھ بجھے ہوئے چراغ کو کوئی کیا بجھائے -اب فرمائیے کہ بجھے ہوے چراغ کی پردرد زندگی سے کیا نسبت ؟

مصرعۂ اولا میں "مرے ہوئے کو کیا مارنا " کا مفہوم پیدا کریں تو بات بن جائے گی اور مصرعۂ ثانی سے خود کو الگ رکھیں تو بہتر -کچھ ایسا سوچ سکتی ہیں :

زیست ہی جس کی مرگ ہو موت سے اس کا جائے کیا
جو ہے بجھا ہوا چراغ کوئی اسے بجھائے کیا

چوٹ اجل کی کھائے کیا

چوٹ کھانا! درد کا ،تکلیف کا ملنا اور درد ہو زندگی سے مراد تکلیف سے عبارت ہونا یعنی موت و زندگی کا یکساں ہونا مراد ہے

یہاں بجھے ہوئے سے زیادہ مناسب بجھا بجھا چراغ ہے جس کی زندگی اور موت کا ہونا یکساں ہوگی. ...

درد ہو زیست جس کی، چوٹ اجل کی کھائے کیا
میں ہوں بجھا بجھا چراغ، کوئی مجھے بجھائے کیا؟

مجھے مرگ اور موت کا استعمال اچھا نہیں لگا، اگر اس سے بہتر تجویز ہو تو بخوشی قبول ہمیں
 
Top