میں ہوں مجنوں‌ مرا انداز زمانے والا (عمران شناور)

احباب کی دیکھا دیکھی میں بھی اپنی پہلی غزل پوسٹ کر رہا ہوں ملاحظہ ہو:

میں ہوں مجنوں مرا انداز زمانے والا
تیری نگری میں تو پتھر نہیں کھانے والا

تو نے دیکھا ہی نہیں ساتھ مرے چل کے کبھی
میں ہوں تنہائی کا بھی ساتھ نبھانے والا

مجھ کو تم دشتِ تحیر میں نہ چھوڑو تنہا
خوف طاری ہے عجب دل کو ڈرانے والا

خوف آتا ہے مجھے اپنی ہی تنہائی سے
روٹھ جاتا ہے کوئی مجھ کو منانے والا

دل وہ شیشہ کہ ترا عکس لیے پھرتا ہے
روز آتا ہے کوئی اس کو مٹانے والا

اس کی ہر بات سر آنکھوں پہ لیے پھرتا ہوں
مجھ کو اچھا بھی تو لگتا ہے رلانے والا

اس قدر اجنبی انداز سے کیوں دیکھتا ہے
میں وہی ہوں ترا کردار فسانے والا

ہر قدم سوچ سمجھ کر ہی اٹھانا اے دل
تیرا رہبر تو نہیں راہ بتانے والا

چاہے جتنی بھی سفارش کرو اس کی عمران
میں تری باتوں میں ہرگز نہیں آنے والا

عمران شناور
 

الف عین

لائبریرین
واہ. اگر یہ پہلی غزل تھی تو حیرت انگیز ہے. اس وقت بھی کیا تیور تھے.. اس سے قطع نظر غزل اچھی ہے. کئی اشعار پسند آئے
 

ش زاد

محفلین
میں ہوں مجنوں مرا انداز زمانے والا
تیری نگری میں تو پتھر نہیں کھانے والا

تو نے دیکھا ہی نہیں ساتھ مرے چل کے کبھی
میں ہوں تنہائی کا بھی ساتھ نبھانے والا

دل وہ شیشہ کہ ترا عکس لیے پھرتا ہے
روز آتا ہے کوئی اس کو مٹانے والا
کیا اچھا کہا ہے عمران صاحب واہ واہ:applause:
 
Top