میں ‌اور عمران سیریز

محمد وارث

لائبریرین
اوئے الو کے پٹھے۔۔۔ والد صاحب نے دھاڑتے پوئے مجھے پکارا۔

جی، جی۔۔۔۔۔ ابو جی۔۔۔۔۔۔میں نے کہنے کی کوشش کی، مگر جیسے میری آواز میرے اندر ہی کہیں مر چکی تھی۔

اوئے تو پھر یہ گھٹیا ناول پڑھ رہا ہے، خبیث۔۔۔۔

ہوا کچھ یوں تھا، کہ اللہ جنت نصیب کرے، والد صاحب مرحوم نے محلے کی ساتھ والی گلی میں ایک گھر کے باہر بیٹھے ہوئے مجھے عمران سیریز کا ناول پڑھتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔

اس سے پہلے والد صاحب، گھر میں مجھے کئی بار منع کرچکے تھے بلکہ پٹائی ہوتے ہوتے بچی تھی، اسکا حل میں نے یہ ڈھونڈا ہوا تھا کہ محلے کی ایک ایسی گلی میں کسی کے گھر کے باہر بیٹھ کر میں ناول پڑھا کرتا تھا جسکے بارے میں مجھے پورا یقین تھا کہ والد صاحب ادھر نہیں آئیں گے، لیکن اس دن میری قسمت خراب تھی کہ چھاپہ پڑگیا۔

والد صاحب کے صبر کی یہ شاید آخری حد تھی، انہوں نے آؤ، دیکھا نہ تاؤ، زناٹے کا ایک تھپڑ میرے گال پر جڑ دیا، مجھے بازؤ سے پکڑا اور سیدھے اس دکاندار کے پاس لے گئے جس سے میں عمران سیریز کے ناول کرائے پر لیکر پڑھا کرتا تھا۔ وہ دکاندار والد صاحب کا شناسا تھا اس نے فوری حامی بھر لی کے آئندہ سے مجھے ناول نہیں دے گا۔

یوں تو جنوں، پریوں، عمرو عیار اور کسی حد تک اشفاق کی انسپکڑ سیریز میں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا لیکن جب سے عمران سیریز میرے ہاتھ لگی تھی، میرا اوڑھنا، بچھونا یہی ناول تھے، اور تو اور میں کرکٹ کھیلنا بھی بھول چکا تھا۔

ہمارے محلے میں ایک دودھ، دہی اور چائے والے کی دکان تھی، وہ کئی بھائی تھے اور سبھی ناولوں اور جاسوسی ڈائجسٹوں کے رسیا تھے، اول اول تو ڈائجسٹوں کی طرف میں نے دھیان نہیں کیا لیکن ایک دن میں نے ایک سائیڈ پر پڑا ناول اٹھالیا۔ ایسے ہی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے وہ بہت اچھا لگا، پہلے تھوڑا سا پڑا، اور اگلے دن اس سے مانگ کر پورا پڑھ ڈالا۔ وہ مظہر کلیم کا کوئی ناول تھا۔ اب میری روٹین بن گئی تھی کہ میں اس دکان پر جاتا اور انکے نئے ناول لانے کا انتظار کرتا، وہ سارے بھائی باری باری اسے پڑھتے اسلئے مجھے کافی انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن جس کہانی کے دو حصے ہوتے تھے اس میں میری "موجیں" ہوجاتی تھیں جتنی دیر میں وہ پہلا حصہ پڑھتے میں دوسرا حصہ ختم کرچکا ہوتا اور پہلا حصہ بعد میں پڑھتا۔

شوق بڑھا اور میں نے کتابیں کرایے پر دینے والی دکان تک رسائی حاصل کرلی، والد صاحب نے گھر میں جب میرے ہاتھ میں ناول دیکھا تو آگ بگولہ ہوگئے، دراصل سرورق پر بنی ہوئی خوبصورت اور سٹائلش لڑکیوں کی تصویریں انہیں کھل گئی تھیں، انہوں نے مری والدہ سے کہا کہ یہ بیہودہ اور فخش ناول پڑھنے لگ گیا ہے اس پر نظر رکھو۔ کھلے بندھوں ناول پڑھنے بند ہوئے تو میں نے، چھپ چھپ کر ناول پڑھنے شروع کردیے، کبھی چھت پھر، کبھی اس وقت جب دوپہر کو سب سوئے ہوتے تھے، رات کی تنہائی میں اسکول کے کام کا بہانہ کرکے اور دیر تک جاگ کر۔

لیکن بھلا عشق و مشک بھی چھپتی ہے، والدہ ہر بار کبھی بستر کی چادر کے نیچے سے، کبھی اسکول کی کتابوں کے ڈھیر سے ناول برآمد کرہی لیتی تھیں۔ کچھ عرصہ، تو میری منت سماجت پر انہوں نے والد صاحب کو کچھ نہ بتایا۔ لیکن کب تلک بھلا، وہ خود متفکر تھیں جب انہوں نے دیکھا کہ یہ باز نہیں آرہا تو بتادیا۔

اب گھر میں میرے لیے ناول پڑھنے ناممکن ہوچکے تھے، اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ محلے کی گلیوں میں بیٹھ کر پڑھنا شروع کردیا، وہاں سے تھپڑ کھا کر اٹھا تو ذہن نے ایک اور حل سوچا۔

میں گھر میں امی سے کہہ کر جاتا کہ کرکٹ کھیلنے جا رہا ہوں، اور سیدھا پہنچ جاتا ساتھ والے محلے کی ایک دکان پر۔ اسے میں نے کہا کہ مجھے یہاں بیٹھ کر پڑھنے دو تمھارا کیا جائے گا، الٹا چوبیس گھنٹے کی بجائے ناول فورا مل جایا کرے گا، وہ مان گیا اور مجھے یوں لگا کہ مجھے جنت مل گئی ہو، میں وہاں گھنٹوں بیٹھ کر ناول پر ناول پڑھتا ہی چلا جاتا، اسکی دکان میں مظہر کلیم کے جتنے ناول تھے شاید میں نے سارے پڑھ ڈالے تھے۔ مسلسل پڑھنے سے میری آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں اور ان میں سے پانی بہنا شروع ہوجاتا تھا لیکن میں تھا کہ بس مخمور تھا۔ اسکا ایک ضمنی فائدہ یہ ہوا، کہ میری پڑھنے کی رفتار کافی بڑھ گئی تھی، کیونکہ ایک فکر یہ بھی ہوتی تھی کہ گھر واپس جانا ہے اور ناول بھی ختم کرنا ہے۔

ایک وقت آیا کہ میں کالج پہنچ گیا، اب والد صاحب کی سختی بھی کچھ کم ہوچکی تھی اور میری آزادی بھی بڑھ چکی تھی سو کھلے بندھوں بھی پڑھتا اور کالج میں بھی عین ریاضی کی کلاس میں پچھلے بنچوں پر بیٹھ کر۔ وہ ہماری بور ترین کلاس ہوتی تھی، ٹیچر کو سب "پیار" سے "چُوچا" کہتے تھے کہ اسکی ہیتِ کذائی ہی کچھ ایسی تھی۔ اوپر سے ریاضی اور وہ بھی "چُوچے" کے ہاتھوں، نیند اور انگڑائیوں کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا تھا، بس عمران سیریز نے پورے دو سال ساتھ نبھایا۔

شاید والدِ مرحوم اپنے نقظہ نظر سے صحیح کہتے تھے، لیکن عمران سیریز کا ایک بھوت تھا جو سر پر سوار تھا، وہ عمران کی مزے مزے کی باتیں، وہ جولیانا کو چھیڑنا، وہ جوزف اور جوانا کی طاقتیں، وہ ایکس ٹو کا کردار، وہ جذباتی مناظر، وہ عمران کا اسرائیل کے منصوبوں کو تباہ کرنا، وہ نئی نئی ایجادیں، وہ مخالف تنظیموں کے باسز کی بوکھلاہٹیں، کتنے مصالحے تھے ان ناولوں میں جنہوں نے ایک عمر تک مجھے مسحور کئے رکھا۔

خیر وہ زمانہ بہت پیچھے رہ گیا اب، لیکن یہ حقیقت کہ اب بھی دیر رات گئے جب میرا ذہن کوئی ادق کتاب پڑھتے پڑھتے ماؤف ہوجاتا ہے تو میں مٹی سے اٹے ہوئے عمران سیریز کے وہ چند ناول نکال لیتا ہوں جو ایک مدت سے میرے پاس پڑے ہوئے ہیں۔

۔
 

فاتح

لائبریرین
وارث صاحب! مجھے آپ کی داستان پڑھتے ہوئے کئی بار ایسا لگا جیسے آپ میری کہانی لکھ رہے ہیں۔
مجھے بھی لڑکپن میں مظہر کلیم کی لکھی ہوئی عمران سیریز کا جنون ہوتا تھا اور ہم تین دوستوں نے شاید نویں یا دسویں جماعت میں گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران لائبریری میں موجود تمام عمران سیریز پڑھ ڈالی تھیں۔
روزانہ صبح ہم ایک ایک کتاب نکلواتے تھے اور شام ہونے تک تینوں دوست ایک دوسرے سے لے کر تینوں ناول پڑھ لیتے تھے۔ اس طرح ایک کتاب کے کرایہ میں تین کتابیں مل جاتی تھیں۔
یہ جنون اس قدر تھا کہ راہ چلتے بھی آنکھوں کے آگے عمران سیریز جمی ہوتی تھی اور لائبریری سے گھر پہنچنے تک تقریبا نصف پڑھی جا چکی ہوتی تھی۔ کئی بار راہگیر روک کر سمجھاتے تھے کہ بیٹا کوئی حادثہ نہ ہو جائے اس طرح پڑھنے سے، راستہ دیکھ کر چلو اور گھر جا کر پڑھو۔ لیکن ناصحان کی کس نے مانی ہے آج تک جو ہم مان جاتے۔
اور رات کو وہ مچھر دانی میں لیٹ کر دھیمی روشنی میں پڑھنے کا مزا بھی اب تک یاد ہے۔:grin:
خیر! پتہ نہیں کیوں اس عمران سیریز کے ذکر پر آبدیدہ ہو گیا ہوں شاید:
آتا ہے یاد مجھ کو گُذرا ہوا زمانہ
 

دوست

محفلین
کئی بار مار کھا چکا ہوں اس کی وجہ سے میں بھی۔
لیکن چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔
 

فہیم

لائبریرین
آہ! دوستوں کیا ذکر چھیڑ دیا ہے

مظہر کلیم کی عمران سیریز کا

ایک زمانہ تھا کہ میں بھی بس نہ صرف عمران سیریز کی کتابیں پڑھا کرتا تھا بلکہ ہر وقت چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر وقت دماغ میں عمران ہی چھایا رہتا تھا۔

اب کتابیں پڑھنے کا شوق تو وہ نہیں رہا لیکن عمران کا کردار(صرف مظہر کلیم والا) کافی عرصے تک میرے لیے ایک آئیڈیل رہا
 

قسیم حیدر

محفلین
وارث بھائی سچ کہا آپ نے۔ آپ سے ملتی جلتی کہانی ہے اپنی بھی سوائے اس کے کہ والد صاحب ''سرکاری'' طور پر ناول خرید دیتے تھے۔ چھپ کر پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میری کہانی بین بین ہے۔ ناول اور ہر طرح کی ہر کتاب جو گھر لائی جا سکتی ہو، پڑھنے کی اجازت تھی۔ کرایہ اپنی جیب سے ادا کرنا اور سکول یا کالج کے وقت کے بعد کہانی پڑھنے کی اجازت تھی۔ طلسم ہوش ربا کی ایک جلد ایک دن میں‌ پڑھنا معمول تھا :( عمران سیریز عموماً موٹی جلد والی دو حصوں کی کہانی لاتا تھا۔ یا دبلی پتلی پانچ چھ تاکہ اگلے دن تک کا گذارا ہو سکے:grin:
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب
عمران سیریزکے خالق ابنِ صفی ہیں یا مظہر کلیم

"علی عمران" اور "کرنل فریدی" کے خالق تو ابنِ صفی مرحوم ہیں اور بہت سارے لوگ انکے ناول پسند بھی کرتے ہیں۔

مجھے ذاتی طور پر مظہر کلیم کے ناول پسند رہے ہیں، شاید اسلیے کے میں نے پڑھنا ہی انہی سے شروع کیا تھا، بعد میں، میں نے ابنِ صفی کو پڑھا لیکن وہ بات نہیں بنی۔ دوسرے وہ ضخیم تھے، اور پھر مظہر کلیم نے کافی نئے مزے کے کردار بھی متعارف کروائے جیسے، جوانا، ٹائیگر، وغیرہم۔ پھر انہوں روایتی جاسوسی ناولوں کا "کینوس" بہت وسیع کردیا۔

یہ محض میری ذاتی رائے ہے، ابنِ صفی کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے۔ اور انکے مداحین بھی بہت ہیں۔

۔
 
وارث،
آپ کی یہ تحریر تو کہیں پیچھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسکول کے ایام میں لے گئی ہے- کہ جب سخت گرمیوں کی طویل دوپہروں میں پنکھے سے بےنیاز چھت پر جاتی ہوئی سیڑھیوں پر گھنٹوں عمران سیرز،انسپکٹر سیریز پڑھنا معمول ہوا کرتا تھا ۔ ۔ ۔۔ ۔

(آج بھی وہ جگہ پُڑھنے کے لئے اتنی ہی اچھی لگتی ہے ۔ ۔ ۔ )۔

عمران سیریز کی طلسماتی دنیا تو ارد گرد سے بالکل بے خبر کر دیا کرتی تھی-اور خاص نمبر تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک نشست میں ختم نہ ہوا ہو-

مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے میں شاید 7 کلاس میں ہوا کرتی تھی میرے چچا کی شادی تھی ۔گھر میں ڈھیر سارے مہمانوں کی موجودگی میں میری نظر نئے خاص نمبر پر پڑی اب پورے گھر میں کوئی پر سکون جگہ نہ تھی--- -پھر وہ خاص نمبر جون کے مہینے میں اسٹور میں بند ہوکر پڑھا تھا

گزرتے وقت نے عمران سیرز کی جگہ ڈائجسٹوں کو ضرور دے دی ہے پر دوپہر میں پڑھنے کی عادت آج بھی اتنی ہی پختہ ہے بلکہ عمران سیرز تو آج بھی ویسے ہی ظلسم کدے میں لے جاتا ہے



 
وارث،
آپ کی یہ تحریر تو کہیں پیچھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسکول کے ایام میں لے گئی ہے- کہ جب سخت گرمیوں کی طویل دوپہروں میں پنکھے سے بےنیاز چھت پر جاتی ہوئی سیڑھیوں پر گھنٹوں عمران سیرز،انسپکٹر سیریز پڑھنا معمول ہوا کرتا تھا ۔ ۔ ۔۔ ۔

(آج بھی وہ جگہ پُڑھنے کے لئے اتنی ہی اچھی لگتی ہے ۔ ۔ ۔ )۔

عمران سیریز کی طلسماتی دنیا تو ارد گرد سے بالکل بے خبر کر دیا کرتی تھی-اور خاص نمبر تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک نشست میں ختم نہ ہوا ہو-

مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے میں شاید 7 کلاس میں ہوا کرتی تھی میرے چچا کی شادی تھی ۔گھر میں ڈھیر سارے مہمانوں کی موجودگی میں میری نظر نئے خاص نمبر پر پڑی اب پورے گھر میں کوئی پر سکون جگہ نہ تھی--- -پھر وہ خاص نمبر جون کے مہینے میں اسٹور میں بند ہوکر پڑھا تھا

گزرتے وقت نے عمران سیرز کی جگہ ڈائجسٹوں کو ضرور دے دی ہے پر دوپہر میں پڑھنے کی عادت آج بھی اتنی ہی پختہ ہے بلکہ عمران سیرز تو آج بھی ویسے ہی ظلسم کدے میں لے جاتا ہے




آپ شاید اشتیاق احمد کے خاص نمبروں کی بات کر رہی ہیں عمران سیریز کی بجائے۔

وارث بھئی تم تو سب کو ماضی میں لے گئے ہو۔ :)
 

حیدرآبادی

محفلین
کچھ ہمارے باتاں

ہم نے بھی ابن صفی کے بارے میں یہاں کچھ لکھ رکھا ہے۔

ایکس ٹو علی عمران کے مقابلے میں ہم نے کرنل ہارڈ اسٹون احمد کمال فریدی کو زیادہ پسند کیا ہے۔ رومانیت کے حوالے سے عمران کی فطرت خلاف واقع نظر آتی ہے۔ جبکہ فریدی ، پتھر کی طرح سخت ہونے کے باوجود اپنے سینے میں “غزالہ“ کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا۔
اور پھر ، یاد ہے کسی کو “زمین کے بادل“ ؟ کہ جس میں عمران اور فریدی کا ٹکراؤ ہوا تھا؟
عمران کو اپنے سنگ آرٹ پر بڑا ناز ہوا کرتا تھا مگر اس ناول میں صفی صاحب نے فریدی کو ایکس ٹو پر اس طرح حاوی بتایا کہ دو دو آدمی وقتِ واحد میں فریدی پر فائر کر رہے ہوتے ہیں مگر فریدی سنگ آرٹ کی اعلٰی معراج پر ہونے کے باعث ایک ایک گولی سے بچ جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں عمران صرف اُس سنگ آرٹ کا ماہر تھا جب مقابلے میں صرف ایک آدمی گولیاں برسائے۔

ہم نے اپنے والد صاحب سے سنا تھا کہ جب اس طرح فریدی کو عمران پر سوا سیر بتایا گیا تو اُس وقت (ساٹھ ستر کی دہائی) ، حیدرآباد (دکن) کے ابن صفی ناولوں کے شیدائیوں میں شدید نوعیت کے جھگڑے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ دو گروپس (عمران فینز اور فریدی فینز گروپ) آپس میں دست و گریباں ہو گئے تھے۔

ہم نے مظہر کلیم کو زیادہ نہیں پڑھا۔ ہو سکتا ہے دوسروں کے نزدیک ان کی بھی اہمیت ہو۔ مگر ہم تو یہی کہیں گے کہ اصل ، اصل ہی ہوتا ہے۔ مظہر کلیم یا ان سے برتر قلمکار بھی اگر دس ایکس ٹو پیدا کر لیں تو وہ دس کےدس مل کر ، صفی صاحب کے ایک ایکس ٹو کا ہم پلہ بھی نہیں بن سکتے ۔ گستاخی معاف ! مگر ہم سمجھتے ہیں اظہارِ خیال کی آزادی اوروں کی طرح ہمیں بھی حاصل ہے۔ :) ;)
 

loneliness4ever

محفلین
جی، جی۔۔۔۔۔ ابو جی۔۔۔۔۔۔میں نے کہنے کی کوشش کی، مگر جیسے میری آواز میرے اندر ہی کہیں مر چکی تھی۔

اوئے تو پھر یہ گھٹیا ناول پڑھ رہا ہے، خبیث۔۔۔۔

۔

آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا دور تھا، کیا سکون تھا

اس دور کے اکثر بچے ایسے ہی تھے، افسوس آج کے دور میں وہ بات نہیں، ہم آٹھ آنے کی کہانیاں پڑھکر بھی
بہت خوش ہوتے تھے اب آٹھ سے اسی ہزار والے موبائل ہاتھوں میں لیکر بھی لوگ وہ خوشی نہیں پاتے جو
ہم لوگ دو، چار ،آٹھ آنوں میں پا لیا کرتے تھے اور وہ خوشی آج تک ہمارے دل میں تروتازہ ہے ۔۔۔۔

میں جب بیمار ہوتا تھا تو سمجھیں عید ہو جاتی تھی میری ۔۔۔۔ والد صاحب سے ایک ہی فرمائش ہوتی تھی
کہانیوں کی ۔۔۔۔۔ امی جان منگل بازار سے دو دو روپے والی کہانیاں لا کر دیتی تھیں ۔۔۔۔ لطف ہی الگ تھا
مگر میں نے کبھی مظہر کلیم کو نہیں پڑھا ۔۔۔۔
محمود خاور، غیاث اقبال، صفدر شاہین اور نونہال یہ سب میرے لئے بہت اہم تھے
پھر رسائی عنبر ناگ ماریا تک ہوئی اور جناب موت کے تعاقب سے موت کی واپسی تک سب پڑھ ڈالا
بس افسوس آج بھی یہ ہی رہا کہ وہ سیریز مکمل نہیں لکھ سکے محترم اے حمید ۔۔۔۔
میں آج بھی جب کچھ پڑھنا چاہتا ہوں تو میری پسند میری پرانی کہانیوں کے صندوق ہی تک محدود رہتی ہے
اشتیاق صاحب کو خوب پڑھا مگر عموما ان کے قاری کی عید خاص نمبر میں ہوتی تھی اور میرے لئے
ان کے وہ عام جسامت کے ناول اہم ہوتے تھے جن میں کسی چوری ، قتل وغیرہ کا کیس حل کیا جاتا تھا۔۔۔۔
خاص نمبر کا ایک تہائی حصہ تو ان بچوں کی پک پک میں نکل جاتا تھا اور میرے خیال سے تو وہ بچے
بڑوں کا ادب کرنے والے نہیں دکھائے گئے ۔۔۔۔ کیونکہ ہم تو اپنے گھر میں ان بچوں کے برعکس عمل کرتے
تھے یعنی بڑوں کے آگے اپنی زبان کو قابو میں رکھتے تھے یوں فر فر نہیں بولتے تھے جیسے اشیاق صاحب
کے ناولز میں ان کے کرداروں کے بچے کرتے تھے ۔۔۔۔ خیر یہ تو میری سوچ ہے جو ضروری نہیں صحیح سمجھی جائے ۔۔۔۔ مگر سچ وارث بھائی آپ مجھے کافی پیچھے لے گئے ۔۔۔۔ کھو سا گیا میں اور پرانے وقتوں کی
کئی باتیں تازہ ہو گئیں ۔۔۔۔۔

اللہ آباد و بے مثال رکھے آپکو ۔۔۔۔ آمین
 

ابن رضا

لائبریرین
وارث صاحب آپ نے تو بہت پہلے جان چھڑا لی ہے مگر ہم نے ابھی ایک سال ہوا کہ چھوڑی جان عمران سیریز کی۔(بمع مذکور احوال کم و بیش۔۔خاص طور پر ایک ہی نشست میں مکمل کرنے کا جنون دن رات میں تمیز کیے بغیر ) اور تو اور انٹرنیٹ پر جتنے بھی پرانے نئے اپ لوڈڈ ہیں وہ بھی بارِ دگر پڑھ ڈالے ہیں ۔۔۔۔:)
 
آخری تدوین:

loneliness4ever

محفلین
کیا مظہر کلیم آج بھی لکھ رہے ہیں؟

ان کے مستقل قاری کہتے ہیں کہ اب جو ناولز مظہر کلیم صاحب کے نام سے آ رہے ہیں
وہ ان کے نہیں ، کیونکہ لکھنے کے انداز میں تبدیلی محسوس کرتے ہیں اب ان کے قاری ۔۔۔۔
یہ بات دیگر فورمز پر لوگوں کے مراسلوں سے معلوم ہوئی ۔۔۔
ویسے اصل تصدیق ان کے قاری کریں گے کہ کیا واقعی ان کے انداز میں ایسی تبدیلی آگئی
ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ لکھنے والا کوئی اور ہے؟؟؟؟؟
 

دوست

محفلین
مظہر کلیم کے ناول اب بھی ہر ماہ آتے ہیں لیکن اب یکسانیت سی آ گئی ہے کہانیوں میں، یا شاید ہماری سوچ بدل گئی ہے.
مظہر کلیم کی عمران سیریز کے پبلشرز قریشی برادران (؟) ظہیر احمد اور دو ایک اور نئے لوگوں سے بھی کچھ برسوں سے لکھوا کر چھاپ رہے ہیں. جس پر مظہر کلیم نے اپنا الگ اشاعتی ادارہ بھی قائم کر لیا تھا لیکن ان کی کتابوں کے تقسیم کار یہی لوگ ہیں.
 
Top