یہ آپ سے کس نے کہہ دیا ؟میرا ایمان ہے کہ صرف عربی زبان ہی ’’اُمّ الالسنۃ‘‘ یعنی زبانوں کی ماں ہے، کچھ لوگ عبرانی کو کہتے ہیں ۔ عربی ہی دنیا کی پہلی زبان تھی، دنیا کی دوسری زبانوں کی پیدائش عربی کے بعد ہوئی ہے اسی لئے عربی کے الفاظ دنیا کی ہر زبان میں ملتے ہیں
پھر عربی ہمیں پرانی لکھی کیوں نہیں ملتی؟میرا ایمان ہے کہ صرف عربی زبان ہی ’’اُمّ الالسنۃ‘‘ یعنی زبانوں کی ماں ہے، کچھ لوگ عبرانی کو کہتے ہیں ۔ عربی ہی دنیا کی پہلی زبان تھی، دنیا کی دوسری زبانوں کی پیدائش عربی کے بعد ہوئی ہے اسی لئے عربی کے الفاظ دنیا کی ہر زبان میں ملتے ہیں
بولنے والی زبان کا پتا لگانا ناممکن ہے۔ ہاں لکھی زبانوں کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہیںنئی زبانیں کیسے وجود میں آتی ہیں؟
جب آدم علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو کونسی زبان بولتے تھے؟ اور بعد میں نئی زبانیں کیسے وجود میں آئیں؟
ہماری لاپروائی سے۔پھر عربی ہمیں پرانی لکھی کیوں نہیں ملتی؟
میرے ایمان نےیہ آپ سے کس نے کہہ دیا ؟
مذہبی جذباتیت اپنی جگہ لیکن کچھ لسانیات کی تاریخ پر ہی نظر ڈال لیتے۔
اسی لیے تو یہ مشورہ دیا تھا۔میرے ایمان نے
ویسے اس دھاگے کو مذہبی زمرہ میں منتقل ہونا چاہیے کہ صاحب دھاگہ کی دلچسپی تاریخ لسانیات کی بجائے مذہبی تاریخ میں ہے۔
کیسے؟ہماری لاپروائی سے۔
ہم نے عربی زبان کے قدیم آثار کو جمع کرنے کی کوشش جس طرح کرنا چاہیے تھا نہیں کی۔
عربی لکھائی کا چھٹی صدی عیسوی سے پہلے ابھی تک کچھ نہیں ملاہم نے عربی زبان کے قدیم آثار کو جمع کرنے کی کوشش جس طرح کرنا چاہیے تھا نہیں کی۔
کیسے ملے گا جب حفاظت کا اہتمام ہی نہیں ہوا۔عربی لکھائی کا چھٹی صدی عیسوی سے پہلے ابھی تک کچھ نہیں ملا
نیندرتال انسانوں کا جد امجد نہیں البتہ نان افریقی انسانوں میں کچھ معمولی اینسسٹری نیندرتال سے ہےمحققین نے دعویٰ کیا ہے کہ "نین ڈرتھلز" سمیت انسانوں کی صفحہ ہستی سے معدوم ہوجانے والی دیگر ابتدائی نسلوں کے افراد سیدھے ہاتھ سے کام کرنے کا عادی تھے اور ان کے ہاں زبان کا استعمال رائج تھا۔
"نین ڈرتھلز" کو موجودہ انسانی نسل کا جدِ امجد تصور کیا جاتا ہے۔ یورپ اور مغربی و وسطی ایشیاء میں بسنے والے انسانوں کی یہ ابتدائی نسل ہزاروں برس قبل معدوم ہوگئی تھی۔
سائنسدانوں کے درمیان یہ بحث طویل عرصے سے چلی آرہی ہے کہ آیا انسانوں کی ابتدائی نسلیں زبان کے استعمال کی ذہنی وجسمانی صلاحیت کی حامل تھی یا نہیں۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف کینساس سے منسلک انسانی تاریخ کے ماہر ڈیوڈ فریئر کی سربراہی میں کام کرنے والی ماہرین کی ایک ٹیم "نین ڈرتھلز" اور ان سے بھی پہلے کی انسانی نسل کے افراد کے دانتوں کے فوسلز پر تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانی نسل میں زبان و بیان کا استعمال پانچ لاکھ برس سے رائج ہے۔
محققین کی اس ٹیم نے "نین ڈرتھلز" کے دانتوں پر موجود ان نشانات کا مطالعہ کیا ہے جو سائنسدانوں کے بقول پتھروں کے بنے ہوئے تیز دھار اوزاروں کی وجہ سے نقش ہوئے جو یہ لوگ شکار کیے گئے جانوروں کی کھال اتارنے اور گوشت کے ٹکڑے کرنے کیلیے استعمال کیا کرتے تھے۔
سائنسدانوں کے بقول ابتدائی دور کے یہ لوگ شکار کردہ جانوروں کا گوشت دانتوں سے نوچ کر کھایا کرتے تھے جس کیلیے بعض اوقات انہیں تیز دھار اوزاروں کی مدد بھی لینا پڑتی تھی۔
سائنسدانوں کا کہناہے کہ ان کے پاس موجود انسانی دانتوں کے تمام فوسلز پر ان اوزاروں کے جو نشانات پائے گئے ہیں ان کے زاویوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ اوزار تھامنے کیلیے اپنے دائیں ہاتھ کا استعمال کیا کرتے تھے۔
سائنسدانوں کے مطابق اس انکشاف سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ "نین ڈرتھلز" کا دماغ بھی موجودہ دور کے انسانوں کی طرح دو حصوں میں منقسم تھا جس کا بایاں حصہ ان کے ہاتھوں کے استعمال اور حرکات کو کنٹرول کرتا تھا۔
محققین کی ٹیم کے بقول چونکہ موجودہ انسانی دماغ کا بایاں حصہ ہی زبان کو سمجھنے اور اس کا جواب دینے کی صلاحیت کو کنٹرول کرتا ہے، لہذا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ "نین ڈرتھلز" بھی گفتگو کی صلاحیت رکھتے تھے۔
موجودہ تحقیق کے سامنے آنے سے قبل کئی سائنسدان یہ اصرار کرتے آئے تھے کہ "نین ڈرتھلز" کے منہ کی اندرونی ساخت کچھ ایسی تھی کہ وہ الفاظ کی ادائیگی کے قابل نہیں تھے۔
تحقیق کے سربراہ ڈیوڈ فریئر کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی نسل میں گفتگو اور زبان کے فہم کی صلاحیت خاصی قدیم ہے۔
فریئر کی ٹیم نے جن انسانی دانتوں کے فوسلز پر تحقیق کی انہیں اسپین کے علاقے برگس کے ایک قدیمی غار سے برآمد کیا گیا تھا۔ سائنسدانوں کے مطابق مذکورہ فوسلز پانچ لاکھ سال قدیم ہیں اور ان کا تعلق "یورپی نین ڈرتھلز" کی ابتدائی نسلوں سے ہے۔
تحقیق کیلیے فریئر کی ٹیم نے کروشیا اور فرانس سے ملنے والے انسانی دانتوں کے قدیم فوسلز کا مطالعہ بھی کیا۔ مذکورہ تحقیق برطانوی جریدے "لیٹریلیٹی" میں شائع ہوئی ہے۔
ویسے اس دھاگے کو مذہبی زمرہ میں منتقل ہونا چاہیے کہ صاحب دھاگہ کی دلچسپی تاریخ لسانیات کی بجائے مذہبی تاریخ میں ہے۔
پہلے سوال کا جواب: نئی بولی بولنے سےنئی زبانیں کیسے وجود میں آتی ہیں؟
جب آدم علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو کونسی زبان بولتے تھے؟ اور بعد میں نئی زبانیں کیسے وجود میں آئیں؟
یہ دھاگہ نئی زبانوں کی تاریخ اور حقائق سے متعلق ہے۔ آپکے جذبہ ایمانی سے نہیں۔میرا ایمان ہے کہ صرف عربی زبان ہی ’’اُمّ الالسنۃ‘‘ یعنی زبانوں کی ماں ہے، کچھ لوگ عبرانی کو کہتے ہیں ۔ عربی ہی دنیا کی پہلی زبان تھی، دنیا کی دوسری زبانوں کی پیدائش عربی کے بعد ہوئی ہے اسی لئے عربی کے الفاظ دنیا کی ہر زبان میں ملتے ہیں
مولوی نے، اور کس نے؟یہ آپ سے کس نے کہہ دیا ؟
مذہبی جذباتیت اپنی جگہ لیکن کچھ لسانیات کی تاریخ پر ہی نظر ڈال لیتے۔
غلط! حضرت آدم علیہلسلم کا وجود اگر انسانی ہے تو انکا ایک خاص علاقائی زبان بولنا فطری عمل ہے۔ اگر ہمیں جدید سائنس سے یہ معلوم ہو جائے کہ حضرت آدم علیہلسلم کس علاقہ اور زمانہ تاریخ سے تعلق رکھتےتھے تو ہم اس وقت کی تہذیب کے مطابق انکی بولی کا تعین کر سکتے ہیں۔ویسے اس دھاگے کو مذہبی زمرہ میں منتقل ہونا چاہیے کہ صاحب دھاگہ کی دلچسپی تاریخ لسانیات کی بجائے مذہبی تاریخ میں ہے۔
بولنے والی زبان کا پتا لگانا ناممکن ہے۔ ہاں لکھی زبانوں کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں
یہ لاپرواہی صرف عربی کیساتھ ہی کیوں؟ہماری لاپروائی سے۔
ہم نے عربی زبان کے قدیم آثار کو جمع کرنے کی کوشش جس طرح کرنا چاہیے تھا نہیں کی۔
یعنی آپکی منطق کے مطابق اگر کسی زبان کی حفاظت کا خاص اہتمام نہ کیا جائے تو وہ تاریخ کیساتھ معدوم ہو جاتی ہے۔ تو پھر عربی آج تک معدوم کیوں نہیں ہوئی؟کیسے ملے گا جب حفاظت کا اہتمام ہی نہیں ہوا۔
ویسے فارسٹر کا جغرافیہ دیکھیں، اس میں چھٹی صدی سے قبل کے بھی کتبات کی نشاندہی کی گئی ہے۔