نئی زندگی۔۔۔۔۔!

جب صبح کی پہلی کرن سمند ر کا بوسہ لیتی ہے
اور صحرا کے ذروں کی آنکھیں روشنی سے بھر جاتی ہیں
جب تارے رینگتے ہوئے آسمان کی سیڑھی چڑھنے لگتے ہیں
اور جب ہواپھول کا بوسہ لے کر صبا بنتی ہے
اور جب ندی کا پانی پتھروں سے گدی گدی کرتاان کی کاٹ سے اٹھکھیلیاں کرتا ،بل کھاتا ہے
اور جب ننھے بچے
لڑکھڑاتے قدموں سےبکریوں اور مرغیوں کے پیچھے دوڑتے ہیں
تو زندگی مسکرا تی ہے
مگر ہماری زندگیوں کا رونا دھونا
سارے منظر تاریک کرتا ہے
کہ شہروں کی مشینی زندگی میں
وقت نامی ایک شے کی بہت کمی ہے
اور وسائل کے حصو ل نے ہر جانب گھٹن کو بڑھا دیا ہے
سانسیں تازہ ہوا کوترستی ہیں
جب کہ ارد گرد پھیلی ساری سڑاند نے
خوشبوکا تصور پر فیوم تک محدود کر دیا ہے
کیا ہم نئی زندگی جینا سیکھ رہے ہیں ؟
٭٭٭
خرم​
 

نور وجدان

لائبریرین
جب شام کی ننھی کرنیں سمندر کو سمولیتی ہیں
جب رات کی گہری آنکھیں چاند کو تکتی ہیں
جب پنچھیوں کی امیدیں راستوں میں پھنس جاتی ہیں
جب زمین فلک کے انتظار میں اندھیاروں میں ڈوب جاتی ہے
تم کو تب دو قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے
یہ آبلہ پا برہنگی کے باوجود جستجو کی جانب چلتے جاتے ہیں
ان کے نشان ساحل کی مٹی پر وجود چھوڑ جاتے ہیں
ان قدموں سے رستا خون مٹی کو گلاب بنائے جاتا ہے
تب ایک گہری آواز سنائی دیتی ہے
رات کے بعد سویرا ہوتا ہے
چاند کے بعد سورج نے روشنی دینی ہے
ابھی مت گھبرا
ابھی مت سہم
کہ ترا قدم تری روشنی ہے
تیرگی بھی روشنی ہے
یہ جو تھکن کا احساس ہے یہ پل بھر کا ہے کہ کیا یہاں دائم ہے
شام کے بعد سویرا ہے
اٹھ ! چل منزل کی جانب !


آپ کے نظم سے متاثر ہوتے لکھ دیا ہے ، بہت اچھے سے پرویا ہے الفاظ کو کہ آپ کی طرح میں کر نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔آمین





:)
 
جب شام کی ننھی کرنیں سمندر کو سمولیتی ہیں
جب رات کی گہری آنکھیں چاند کو تکتی ہیں
جب پنچھیوں کی امیدیں راستوں میں پھنس جاتی ہیں
جب زمین فلک کے انتظار میں اندھیاروں میں ڈوب جاتی ہے
تم کو تب دو قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے
یہ آبلہ پا برہنگی کے باوجود جستجو کی جانب چلتے جاتے ہیں
ان کے نشان ساحل کی مٹی پر وجود چھوڑ جاتے ہیں
ان قدموں سے رستا خون مٹی کو گلاب بنائے جاتا ہے
تب ایک گہری آواز سنائی دیتی ہے
رات کے بعد سویرا ہوتا ہے
چاند کے بعد سورج نے روشنی دینی ہے
ابھی مت گھبرا
ابھی مت سہم
کہ ترا قدم تری روشنی ہے
تیرگی بھی روشنی ہے
یہ جو تھکن کا احساس ہے یہ پل بھر کا ہے کہ کیا یہاں دائم ہے
شام کے بعد سویرا ہے
اٹھ ! چل منزل کی جانب !


آپ کے نظم سے متاثر ہوتے لکھ دیا ہے ، بہت اچھے سے پرویا ہے الفاظ کو کہ آپ کی طرح میں کر نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔آمین





:)
زبردست جناب کیا کہنے۔ ایک بار تو میں بالکل حیران رہ گیا ہوں۔ شکریہ اگر اس بلینک ورس سے آپ کو کچھ تحریک ملی۔ اگر برا نا لگے تو کچھ معروضات ہیں:
جب شام کی ننھی کرنیں سمندر کو سمولیتی ہیں۔۔۔۔اگر اسے الٹا دیں تو یہ قابلِ قبول ہوگا مثلا سمندر کی یہ اہلیت ہے کہ وہ کرنوں کو سمو سکتا ہے ننھی کرنیں سمندر کو کس طرح سمو سکتی ہیں؟
جب رات کی گہری آنکھیں چاند کو تکتی ہیں۔۔۔۔۔یہ ٹھیک ہے لیکن رات اور چاند کا مآخد ایک ہی ہے تو اس میں کچھ ابہام پیدا ہو رہا ہے مثلا ہم کہتے ہیں کہ سورج زمین کو تک رہا ہے یا زمین سورج کو تک رہی ہے دونوں طرح سے ٹھیک ہے اب اگر اس طرح کرلیں کہ گہری رات کا چاند زمیں کو تکتا ہے ۔۔۔۔ تو کیسا ہوگا ؟
جب زمین فلک کے انتظار میں اندھیاروں میں ڈوب جاتی ہے۔۔۔ میرا خیال ہے فلک تو ہر وقت موجود ہوتا ہے نا ؟ اور اندھیروں میں ڈوبنا زیادہ مناسب رہے گا۔بہرحال یہ محض معروضات ہی ہیں۔ آپ کا کلام ہے اور آپ کو اس کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ کچھ برا لگے تو معذرت۔
 
Top