محمد شکیل خورشید
محفلین
صبحِ نو کی نوید ہوتی ہے
جب ہمیں ان کی دید ہوتی ہے
ایک گونہ سکون ملتا ہے
جب بھی گفت و شنید ہوتی ہے
اجنبیت کہاں رہی اب تو
روز ملتے ہیں عید ہوتی ہے
مے سے مطلب ہمیں ، ہماری تو
اس نظر سے کشید ہوتی ہے
ہم بھی بے اختیار ہیں کہ شکیل
دل کو ان سے امید ہوتی ہے
ہر شعر کے پہلے لفظ کو ملایا جائے تو زوجہ کا نام (صائمہ) بن جاتا ہے
اساتذہ اور احباب کی نذر
جب ہمیں ان کی دید ہوتی ہے
ایک گونہ سکون ملتا ہے
جب بھی گفت و شنید ہوتی ہے
اجنبیت کہاں رہی اب تو
روز ملتے ہیں عید ہوتی ہے
مے سے مطلب ہمیں ، ہماری تو
اس نظر سے کشید ہوتی ہے
ہم بھی بے اختیار ہیں کہ شکیل
دل کو ان سے امید ہوتی ہے
ہر شعر کے پہلے لفظ کو ملایا جائے تو زوجہ کا نام (صائمہ) بن جاتا ہے
اساتذہ اور احباب کی نذر