نئی غزل اصلاح کے لئے پیش خدمت ہے

یوں نہیں ہے کہ ہم بے زباں ہیں
ہم جو بولیں وہ سنتے کہاں ہیں
میں جو محفل میں پاس ان کے جاؤں
کہتے ہیں دوست تیرے وہاں ہیں
ہم اکیلے نہیں اس کے مارے
عشق میں تو کئی نوحہ خواں ہیں
شیخ صاحب انھیں جا کے دیکھو
ان کی آنکھیں ہی دونوں جہاں ہیں
ہے جہاں ان کی زلفوں سے پاؤں تلک
یہ زمیں اور وہ آسماں ہیں
آج پینے میں ایسا بھی کیا ہے
شیخ صاحب بھی بیٹھے یہاں ہیں
پھر سے کیسے یقیں تم پہ کر لیں
اب تو خود سے بھی ہم بدگماں ہیں
کل تلک ہم پہ وہ مہرباں تھے
آج غیروں پہ وہ مہرباں ہیں
ناتواں دل یہ ایسا ہوا ہے
اب تو سانسیں بھی اس پر گراں ہیں
آج بھی شانؔ ہیں یاد ہم کو
اس کمر پہ جو تل کے نشاں ہیں
 

الف عین

لائبریرین
میں جو محفل میں پاس ان کے جاؤں
کہتے ہیں دوست تیرے وہاں ہیں
دوست تیرے میں ت کی تکرار آچھی نہیں

ہے جہاں ان کی زلفوں سے پاؤں تلک
مصرع بحر سے خارج
باقی درست لگ رہی ہے
 
Top