امین شارق
محفلین
ایسے وہ میرے پاس سے آیا گزر گیا
جیسے کہ سر سے ابر کا سایا گزر گیا
تائی گزر گئی میری شادی بھی رک گئی
سونے پہ سہاگہ کہ پھر تایا گزر گیا
کرتے ہیں دور سے سلام سب جانتے ہیں لوگ
جس نے بھی ان سے ہاتھ ملایا گزر گیا
کرنا نہیں کسی کا بھروسہ کہا تھا نا
کر کے وہ سارے گھر کا صفایا گزر گیا
نا جانے کیا کیا رنگ دکھائے گی زندگی
ماضی نے ہم کو خوب رلایا گزر گیا
عرصہ ہوا اس شوخ کی باتیں نہیں سنتے
شارؔق ہے زمانے میں خدا یا گزر گیا