نئی غزل نمبر 6 برائے تبصرہ و اصلاح شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم اساتذہ کرام جناب الف عین،
سید عاطف علی
محمد خلیل الرحمٰن
محمد احسن سمیع: راحل


حسن تیرا گو بے مثالی ہے
عشق میرا بھی تو بلالی ہے

میرا دل بس اسی میں اٹکا ہے
یہ تیرے کان کی جو بالی ہے

میرے دل کا ہی کچھ قصور نہیں
تونے بھی ترچھی نظر ڈالی ہے

عشق میں میں ہی خطا کار نہیں
دونوں ہاتھوں سے بجتی تالی ہے

تم خفا ہو مگر وجہ کیا ہے
میں نے کب تیری بات ٹالی ہے

اک جھلک دید کی خواہش ہے فقط
عرض اتنی جنابِ عالی ہے

آپ کی گالیاں دعاؤں سی
میری باتیں بھی جیسے گالی ہے​
 
حضورکچھ مشورے میری طرف سے اگر پسند آئیں تو استاد محترم کے دیکھنے کے بعد قبول کر لیں

حسن تیرا اگر مثالی ہے
عشق میرا بھی تو بلالی ہے
بے مثال کی طرح اگر بے مثالی بھی درست ہو تو
حسن گر تیرا بے مثالی ہے

اگلے شعر میں
یہ ترے
تیرے کی جگہ شاید ترے

تو نے بھی ترچھی نظر ڈالی ہے
مجھے
تو نے ترچھی نظر بھی ڈالی ہے
بحر میں لگ رہا ہے

تم خفا ہو ۔۔۔۔
تیری بات ٹالی۔۔۔
پہلے مصرعے میں تم ہے تو دوسرے میں تیری کیوں
اک جھلک دید کی خواہش ہے فقط
کی جگہ
اک جھلک دید کی ہے خواہش بس
کر دیں

میری باتیں بھی جیسے گالی ہے
میرے خیال سے باتیں کی ساتھ ہیں آئے گا
 

الف عین

لائبریرین
شارق میاں اتفاق سے ایسی ہی بحور میں شاعری کرتے ہیں جس اچھے اچھے بھی کنفیوز ہو جاتے ہین۔ یہ بحر بھی ایسی ہی ہے فاعلاتن مفاعلن فعلن اور فاعلاتن فَعِلاتن فعلن ۔ کچھ مصرعے مختلف طریقے سے تلفظ کرنے پر، یا کسی حرف کے اسقاط کے ساتھ دونوں بحروں میں درست

حسن تیرا گو بے مثالی ہے
عشق میرا بھی تو بلالی ہے
.. 'اگر مثالی' ہی بہتر تھا، بے مثالی تو کوئی لفظ نہیں

میرا دل بس اسی میں اٹکا ہے
یہ تیرے کان کی جو بالی ہے
... تقابل ردیفین کا سقم ہے، کہ پہلا مصرع بھی 'ہے' پر ختم ہے
دوسرا مصرع 'یہ ترے' سے وزن میں آتا ہے، مکمل 'تیرے' سے نہیں

میرے دل کا ہی کچھ قصور نہیں
تونے بھی ترچھی نظر ڈالی ہے
.. دوسرا مصرع دوسری بحر میں ہو گیا!
تو نے ترچھی نطر جو ڈالی ہے
درست بحر میں ہو گا

عشق میں میں ہی خطا کار نہیں
دونوں ہاتھوں سے بجتی تالی ہے
.. بچت تالی میں تنافر بھی ہے اور ی کا اسقاط بھی اچھا نہیں

تم خفا ہو مگر وجہ کیا ہے
میں نے کب تیری بات ٹالی ہے
.. وجہ میں ج پر زبر نہیں، جزم ہوتا ہے، ہاں، 'سبب' درست آ سکتا ہے

اک جھلک دید کی خواہش ہے فقط
عرض اتنی جنابِ عالی ہے
.. پہلا مصرع دوسری بحر میں ہو گیا
'ہے خواہش بس' درست بحر میں ہو گا

آپ کی گالیاں دعاؤں سی
میری باتیں بھی جیسے گالی ہے
باتیں کے ساتھ 'ہیں' کا محل ہے، واحد ہے جا نہیں
پہلے مصرع میں بھی
آپ کی گالیاں دعائیں ہیں
بہتر اظہار بیان ہے
 

امین شارق

محفلین
حضورکچھ مشورے میری طرف سے اگر پسند آئیں تو استاد محترم کے دیکھنے کے بعد قبول کر لیں

حسن تیرا اگر مثالی ہے
عشق میرا بھی تو بلالی ہے
بے مثال کی طرح اگر بے مثالی بھی درست ہو تو
حسن گر تیرا بے مثالی ہے

اگلے شعر میں
یہ ترے
تیرے کی جگہ شاید ترے

تو نے بھی ترچھی نظر ڈالی ہے
مجھے
تو نے ترچھی نظر بھی ڈالی ہے
بحر میں لگ رہا ہے

تم خفا ہو ۔۔۔۔
تیری بات ٹالی۔۔۔
پہلے مصرعے میں تم ہے تو دوسرے میں تیری کیوں
اک جھلک دید کی خواہش ہے فقط
کی جگہ
اک جھلک دید کی ہے خواہش بس
کر دیں

میری باتیں بھی جیسے گالی ہے
میرے خیال سے باتیں کی ساتھ ہیں آئے گا
بہت شکریہ ڈاکٹر عظیم سہارنپوری صاحب میں ٹھیک کرلیتا ہوں
 

امین شارق

محفلین
شارق میاں اتفاق سے ایسی ہی بحور میں شاعری کرتے ہیں جس اچھے اچھے بھی کنفیوز ہو جاتے ہین۔ یہ بحر بھی ایسی ہی ہے فاعلاتن مفاعلن فعلن اور فاعلاتن فَعِلاتن فعلن ۔ کچھ مصرعے مختلف طریقے سے تلفظ کرنے پر، یا کسی حرف کے اسقاط کے ساتھ دونوں بحروں میں درست

حسن تیرا گو بے مثالی ہے
عشق میرا بھی تو بلالی ہے
.. 'اگر مثالی' ہی بہتر تھا، بے مثالی تو کوئی لفظ نہیں

میرا دل بس اسی میں اٹکا ہے
یہ تیرے کان کی جو بالی ہے
... تقابل ردیفین کا سقم ہے، کہ پہلا مصرع بھی 'ہے' پر ختم ہے
دوسرا مصرع 'یہ ترے' سے وزن میں آتا ہے، مکمل 'تیرے' سے نہیں

میرے دل کا ہی کچھ قصور نہیں
تونے بھی ترچھی نظر ڈالی ہے
.. دوسرا مصرع دوسری بحر میں ہو گیا!
تو نے ترچھی نطر جو ڈالی ہے
درست بحر میں ہو گا

عشق میں میں ہی خطا کار نہیں
دونوں ہاتھوں سے بجتی تالی ہے
.. بچت تالی میں تنافر بھی ہے اور ی کا اسقاط بھی اچھا نہیں

تم خفا ہو مگر وجہ کیا ہے
میں نے کب تیری بات ٹالی ہے
.. وجہ میں ج پر زبر نہیں، جزم ہوتا ہے، ہاں، 'سبب' درست آ سکتا ہے

اک جھلک دید کی خواہش ہے فقط
عرض اتنی جنابِ عالی ہے
.. پہلا مصرع دوسری بحر میں ہو گیا
'ہے خواہش بس' درست بحر میں ہو گا

آپ کی گالیاں دعاؤں سی
میری باتیں بھی جیسے گالی ہے
باتیں کے ساتھ 'ہیں' کا محل ہے، واحد ہے جا نہیں
پہلے مصرع میں بھی
آپ کی گالیاں دعائیں ہیں
بہتر اظہار بیان ہے
بہت شکریہ الف عین صاحب میں ٹھیک کرلیتا ہوں
 

امین شارق

محفلین
غزل تدوین اور 4 نئے اشعار کے ساتھ
حسن تیرا اگر مثالی ہے
عشق میرا بھی تو بلالی ہے


میرا دل بس اسی میں اٹکا ہے
یہ ترے کان کی جو بالی ہے

پیار میں ایک پل سکون نہیں
کیسی آفت یہ میں نے پالی ہے


میرے دل کا ہی کچھ قصور نہیں
تونے بھی ترچھی نظر ڈالی ہے

عشق میں میں ہی خطا کار نہیں
دونوں ہاتھوں سے بجتی تالی ہے

تم خفا ہو مگر سبب کیا ہے
میں نے کب تیری بات ٹالی ہے


تیرے بن دل کی گلی ویراں ہے
سونی سونی ہے خالی خالی ہے


اک جھلک دید کی خواہش ہے بس
عرض اتنی جنابِ عالی ہے


آپ کی گالیاں دعائیں ہیں
میری باتیں بھی جیسے گالی ہے


ان کی غزلوں پہ حقیقت کا گماں
اور میری شاعری خیالی ہے


رابطہ کررہے ہیں اہلِ نظر
میری قسمت بدلنے والی ہے

چین شارؔق مجھے ملتا ہی نہیں
ہر اک ترکیب آزمالی ہے
 
Top