نئی غزل (کیدو ولن ہے یا ہیرو)

*** اساتذہ کی نذر بہت احترام کے ساتھ ***

ترے پیار کا جو طلب گار ہوں
مرا جرم ہے میں گنہ گار ہوں
جو پہلی ملاقات کا ہے نشہ
میں اب تک اسی میں ہی سرشار ہوں
محبت میں خواہش ہے سکھ چین کی
سزا دو مجھے میں سزاوار ہوں
پڑا ہوں ترے در پہ تیرےلیے
نہ مجبور ہوں میں نہ لاچارہوں
کسی بھی عنایت کے لائق نہیں
بڑا بے ادب ہوں خطاکار ہوں
سنو جی ہے میرا تعارف یہی
عقیدت قلم سے قلم کار ہوں
وہ کیدو ولن ہے یا ہیرو مرا
اسی مخمصے میں گرفتار ہوں
فقط نام کا ہی میں خورشید ہوں
مقدر اندھیرا سیاہ کار ہوں
 
مطلع میں قافیہ موجود نہیں ہے ۔ دونوں مصارع میں گار کی تکرار ہے۔
مکرمی خورشیدؔ صاحب، آداب!
سب سے پہلے تو جواب میں تاخیر کے لیے معذرت ۔۔۔گو کہ ہوئی تاخیر تو باعثِ تاخیر کچھ خاص نہ تھا ۔۔۔ بس ہمارا تخلصِ ثانی کاہل سمجھ لیجیے۔

ریحان میاں نے مطلع کی بابت بالکل درست توجہ دلائی ۔۔۔ آپ کے مطلع میں جو صورت ہے اسے اصطلاحاً ایطائے جلی کہا جاتا ہے۔ ایطا قوافی کے ایک عیب کا نام ہے، ایطائے جلی کو اس کی مطلقاً حرام قسم سمجھے لیجیے! ایطائے جلی دو صورتوں میں واقع ہوتا ہے ۔۔۔ ایک تو وہ ہے جو آپ کے مطلع میں موجود ہے کہ قافیہ مرکب الفاظ مشتمل ہے جن میں مشترک لاحقے کو اگر نکال دیا جائے تو باقی بچ رہے الفاظ ہم صوت نہیں رہتے۔
ترے پیار کا جو طلب گار ہوں
مرا جرم ہے میں گنہ گار ہوں
طلب گار اور گناہ گار میں سے گار نکال دیجیے تو طلب اور گنہ بچتے ہیں ۔۔۔ جو کہ ظاہر ہے ہم صوت نہیں!
ایطائے جلی کی دوسری صورت (میرے ناقص رائے میں) تب واقع ہوتی ہے جب قوافی افعال سے بنائیں جائیں ۔۔۔ افعال سے بنائے گئے قوافی میں اعتبار فعل کے صیغہ امر کا ہوتا ہے ۔
مثلا اگر کسی غزل کے مطلع میں دیکھتا اور سوچتا کو قافیہ بنایا جائے تو یہ غلط ہوگا کہ ان دونوں کا صیغۂ امر بالترتیب دیکھ اور سوچ ہے ۔۔۔ جو ہم صوت نہیں۔
ہاں سوچتا اور نوچتا درست قوافی ہوں گے کہ سوچ اور نوچ ہم صوت ہیں۔ مگر یہاں یہ دھیان رہے کہ قافیہ مطلع میں قائم ہوتا ہے۔ اسی مثال کو لے کر آگے بڑھیں تو اگر مطلع میں سوچتا اور نوچتا کی تحدید کر لی گئی تو پھر بقیہ اشعار میں بھی ایسے قوافی کا التزام کرنا پڑے گا جو ’’اوچ‘‘ کی آواز پر ختم ہو رہے ہوں۔ یعنی دیگر اشعار میں ان کے ساتھ بیٹھتا، دیکھتا، بولتا، زندہ، توانا، یعنی محض الف کی آواز پر ختم ہونے الفاظ کو قافیہ نہیں بنایا جا سکتا!
آپ اپنے مطلع میں گنہگار کو خطا کار سے بدل دیں تو مطلع سے ایطا کا سقم دور ہوجائے گا۔ اور غزل کے قوافی درست ہو جائیں گے۔
قافیہ کی مزید ابحاث میں اگر دلچسپی ہو تو محفل پر تلاش کیجیے، دسیوں علم افزا مراسلے مل جائیں گے۔

جو پہلی ملاقات کا ہے نشہ
میں اب تک اسی میں ہی سرشار ہوں
نشہ کا درست تلفظ ش پر تشدید کے ساتھ ہے یعنی نش+شہ ۔۔۔ تاہم جدید شعرا نے ن+شہ بھی استعمال کیا ہے اور اب یہ تقریبا رائج ہی ہے ۔۔۔ مگر استادِ محترم اس کو پسند نہیں کرتے۔
میرے خیال میں پہلے مصرعے میں ہے کو تھا سے بدل دیں تو مصرع زیادہ بہتر ہو جائے گا۔

محبت میں خواہش ہے سکھ چین کی
سزا دو مجھے میں سزاوار ہوں
یہ شعر دولخت ہے ۔۔۔ مطلب یہ کہ دونوں مصرعے مربوط نہیں ۔۔۔ بلکہ یہاں تو دونوں مصرعوں کے بیان میں تضاد ہے۔ پہلے مصرعے میں سکھ چین کی خواہش کا اظہار ہے، دوسرے میں سزا کا مطالبہ
پہلے مصرعے کو یوں کر لیں تو شاید بہتر ہو جائے
محبت میں خواہش کی سکھ چین کی!

سنو جی ہے میرا تعارف یہی
عقیدت قلم سے قلم کار ہوں
’’سنو جی‘‘ جیسے بھرتی کے الفاظ سے پرہیز کیا کیجیے ۔۔۔ ان سے شعر کا معیار گرتا ہے ۔۔۔ بھرتی کے الفاظ پہچاننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھیں ایسے الفاظ شعر سے نکالنے پر معنی میں کوئی فرق پڑتا ہے، یا گرامر خراب ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ایسے الفاظ محض وزن پورا کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
دوسرے مصرعے میں ہے کی کمی ہے۔

وہ کیدو ولن ہے یا ہیرو مرا
اسی مخمصے میں گرفتار ہوں
ٹھیک ۔۔۔

فقط نام کا ہی میں خورشید ہوں
مقدر اندھیرا سیاہ کار ہوں
یہاں تقابل ردیفین ہو رہا ہے ۔۔۔ یعنی دونوں مصرعے ہوں پر ختم ہو رہے ہیں جو ایک خفی عیب ہے، جس سے بچا جا سکے تو بچنا ہی بہتر ہے۔ مثلاً
میں خورشید ہوں، پر فقط نام کا
 
Top