محمد شکیل خورشید
محفلین
آگیا ہے بہار کا موسم
پھر ترے انتظار کا موسم
تیری یادوں سے ہی سنورتا ہے
اس دلِ بےقرار کا موسم
شہرِ منصور میں تو ہے ہر پل
جبر کا اور دار کا موسم
ایسی برسات کی ان آنکھوں نے
چھٹ گیا سب غبار کا موسم
وہ ہوائے ہوس چلی ہے کہ بس
کھو گیا اعتبار کا موسم
آؤ چلتے ہیں شہرِ جاناں کو
دیکھنے کوئے یار کا موسم
کوئی سودا کرو شکیل کہ ہے
عشق کے کاروبار کا موسم
احباب کی نذر خصوصاََ
محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
پھر ترے انتظار کا موسم
تیری یادوں سے ہی سنورتا ہے
اس دلِ بےقرار کا موسم
شہرِ منصور میں تو ہے ہر پل
جبر کا اور دار کا موسم
ایسی برسات کی ان آنکھوں نے
چھٹ گیا سب غبار کا موسم
وہ ہوائے ہوس چلی ہے کہ بس
کھو گیا اعتبار کا موسم
آؤ چلتے ہیں شہرِ جاناں کو
دیکھنے کوئے یار کا موسم
کوئی سودا کرو شکیل کہ ہے
عشق کے کاروبار کا موسم
احباب کی نذر خصوصاََ
محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب