نئی غزل

آگیا ہے بہار کا موسم
پھر ترے انتظار کا موسم
تیری یادوں سے ہی سنورتا ہے
اس دلِ بےقرار کا موسم
شہرِ منصور میں تو ہے ہر پل
جبر کا اور دار کا موسم
ایسی برسات کی ان آنکھوں نے
چھٹ گیا سب غبار کا موسم
وہ ہوائے ہوس چلی ہے کہ بس
کھو گیا اعتبار کا موسم
آؤ چلتے ہیں شہرِ جاناں کو
دیکھنے کوئے یار کا موسم
کوئی سودا کرو شکیل کہ ہے
عشق کے کاروبار کا موسم

احباب کی نذر خصوصاََ
محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
 

الف عین

لائبریرین
درست لگ رہی ہے غزل سوائے ان دو اشعار کے
شہرِ منصور میں تو ہے ہر پل
جبر کا اور دار کا موسم
پہلا مصرع رواں نہیں اور ہ کا تنافر بھی ہے
..... تو ہر پل ہے
سے درست ہو جائے گا

ایسی برسات کی ان آنکھوں نے
چھٹ گیا سب غبار کا موسم
'چھٹ' لفظ سمجھ نہیں سکا، یہ پیش والا چھُٹ ہے تو موسم چھٹنا سے کیا مراد یے۔ ہاں، گھٹائیں یا بادل چھنٹ سکتے ہیں، اگرچہ موسم چھنٹنا بھی درست محاورہ نہیں۔ لیکن چھنٹ گیا... کے ساتھ مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ کیا موسم کے ساتھ چھنٹنا قبول کیا جا سکتا ہے؟
 
آخری تدوین:
1۔موسم ۔۔۔۔۔۔غبار آلود تھا،ایسی برسات ہوئی کہ(غبار چھَٹ جانے سے) مطلع صاف ہوگیا
2-موسم کا چھنٹ جانا غلط مگر انہوں نے غبار کے چھٹ جانے سے مراد لی ہے توکیوں نہ’’غبار کا موسم ‘‘ ۔۔۔گردوغبار کی شِدت، مان لیا جائے
3-برسات کرنا۔۔۔۔۔۔۔برسات ہوتی ہے کی کرائی نہیں جاتی۔چھڑکاؤ کیا جاتا ہے ، چھڑکاؤ ہوتا بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوئی برسات ایسی آنکھوں سے۔۔۔۔۔چھَٹ گیا سب غُبار کا موسم!
 
آخری تدوین:
درست لگ رہی ہے غزل سوائے ان دو اشعار کے
شہرِ منصور میں تو ہے ہر پل
جبر کا اور دار کا موسم
پہلا مصرع رواں نہیں اور ہ کا تنافر بھی ہے
..... تو ہر پل ہے
سے درست ہو جائے گا

ایسی برسات کی ان آنکھوں نے
چھٹ گیا سب غبار کا موسم
'چھٹ' لفظ سمجھ نہیں سکا، یہ پیش والا چھُٹ ہے تو موسم چھٹنا سے کیا مراد یے۔ ہاں، گھٹائیں یا بادل چھنٹ سکتے ہیں، اگرچہ موسم چھانٹنا بھی درست محاورہ نہیں۔ لیکن چھنٹ گیا... کے ساتھ مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ کیا موسم کے ساتھ چھنٹنا قبول کیا جا سکتا ہے؟
استادِ محترم!
ہمیشہ کی طرح رہنمائی کا شکریہ، جیسا اوپر شکیل احمد خان23 صاحب نے تبصرہ کیا میرا مطمع نظر بھی تقریباََ یہی تھا یعنی بارش یا برسات سے گردو غبار کا چھٹ جانا، براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں کیا اس معنیٰ میں درست ہے
مزید شکیل احمد خان23 صاحب کے اعتراض کے پیشِ نظر پہلا مصرع یوں کرنا چاہتا ہوں
ایسی برسات چشمِ نم سے ہوئی
چھٹ گیا سب غبار کا موسم
رہنمائی فرمائیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
غبار تو چھٹ سکتا ہے لیکن کیا موسم ( چاہے وہ غبار کا ہی ہو) چھٹ سکتا ہے، اس پر شک تھا تو محفل کے اکابرین سے پوچھا تھا میں نے! اب با قاعدہ ٹیگ کر دیتا ہوں
سید عاطف علی محمد وارث
چھٹتے تو بادل یا غبار ہی ہیں- موسم اور مطلع البتہ صاف ہو سکتے ہیں- موسم چھٹنا باالواسطہ محاورے کی 'تقدیر' کی بنیاد پر استعمال ہو تو زیادہ مخالفت نہیں ہونی چاہئے- لیکن یہ پڑھنے اور سننے والے کے مزاج پر منحصر ہے-
 

الف عین

لائبریرین
چھٹتے تو بادل یا غبار ہی ہیں- موسم اور مطلع البتہ صاف ہو سکتے ہیں- موسم چھٹنا باالواسطہ محاورے کی 'تقدیر' کی بنیاد پر استعمال ہو تو زیادہ مخالفت نہیں ہونی چاہئے- لیکن یہ پڑھنے اور سننے والے کے مزاج پر منحصر ہے-
تو اسے ویسے یہ بھی ایک دوسرا سوال ہے کہ ہم لوگ غنہ کے ساتھ بولتے آئے ہیں اس لئے 'چھنٹ' لکھا تھا میں نے!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھے شعر ہیں شکیل صاحب!
موسم چھٹنا کے بارے میں اعجاز بھائی کا اعتراض درست ہے ۔
چھٹنا اور چھنٹنا دو الگ الگ اور مختلف المعنی الفاظ ہیں ۔ انہیں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے ۔ چھٹنا (بفتح اول) فعل لازم ہے اور اس کا کوئی فعل متعدی موجود نہیں ۔ اس کے معنی ہیں الگ ہونا ، علیحدہ ہونا ، جدا ہونا ۔ جیسے بھیڑ چھٹ گئی ، مجمع چھٹ گیا ، بادل چھٹ گئے ، ستارے چھٹ گئے ،کہر چھٹ گیا وغیرہ۔ موسم چَھٹ نہیں سکتا ۔
چھانٹنا ایک بالکل ہی علیحدہ لفظ ہے ۔ یہ فعل متعدی ہے اور اس کے معنی منتخب کرنا یا چننا ہیں ۔ مثلاً اچھے اچھے پھل چھانٹنا ، کتابیں چھانٹنا وغیرہ ۔ اس کا فعل لازم چھنٹنا ہے ۔ جیسے چھنٹے ہوئے پھل ، چھنٹے ہوئے دانے ۔ و غیرہ وغیرہ ۔
الف عین
سید عاطف علی
شکیل احمد خان23
 
اساتذہ کی سیر حاصل بحث پر شکریہ ادا کرتا ہوں،
مجھے اعتراف ہے کہ میں نے چھٹ گیا کا استعمال غبار کی رعائت سے کیا تھا اور اس پہلو پر دھیان نہیں گیا تھا کہ مکمل فقرے میں فاعل غبار نہیں بلکہ موسم بن رہا ہے۔
اب غبار آلود موسم کے لئے کیا فعل استعمال ہو سکتا ہے اس معاملے میں رہنمائی درکار ہے، عام روزمرہ میں تو کُھل جانا، دُھل جانا کہہ لیا جاتا ہے، کیا ادبی اعتبار سے یہ تراکیب مستعمل ہیں؟
محترم الف عین محترم سید عاطف علی محترم ظہیراحمدظہیر و دیگر
 

الف عین

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اساتذہ کی سیر حاصل بحث پر شکریہ ادا کرتا ہوں،
مجھے اعتراف ہے کہ میں نے چھٹ گیا کا استعمال غبار کی رعائت سے کیا تھا اور اس پہلو پر دھیان نہیں گیا تھا کہ مکمل فقرے میں فاعل غبار نہیں بلکہ موسم بن رہا ہے۔
اب غبار آلود موسم کے لئے کیا فعل استعمال ہو سکتا ہے اس معاملے میں رہنمائی درکار ہے، عام روزمرہ میں تو کُھل جانا، دُھل جانا کہہ لیا جاتا ہے، کیا ادبی اعتبار سے یہ تراکیب مستعمل ہیں؟
محترم الف عین محترم سید عاطف علی محترم ظہیراحمدظہیر و دیگر
غبار آلود موسم کا دُھلنا یا فضا کا دُھلنا عام مستعمل ہے اس لئے بلا تکلف استعمال کیجئے۔ بلکہ مذکورہ شعر میں یہ ایک اچھا شاعرانہ اندازِ بیان لگے گا۔ مثلاً:

ایسی بارش ہوئی ان آنکھوں سے
دُھل گیا سب غبار کا موسم

پہلے مصرع کی جگہ شکیل احمد کا تجویز کردہ مصرع بھی رکھ سکتے ہیں: ہوئی برسات ایسی آنکھوں سے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہاں میں بار بار Chhantna لکھتا آیا ہوں مگر اردو ویب اسے آٹو کریکٹ کر کے چھانٹنا؛ Chhaantna کر دے رہا ہے
اعجاز بھائی ، ایساآپ بالکل درست کرتے آئے ہیں ۔ "چھنٹنا" کا متبادل املا "چھٹنا" بھی مستعمل ہے اور لغات میں موجود ہے ۔ "تمام اچھی اچھی سبزیاں چھنٹ چکی ہیں" کو یوں بھی کہا اور لکھا جاتا ہے کہ " تمام اچھی اچھی سبزیاں چھٹ چکی ہیں" ۔ چھنٹے ہوئے پھل اور چھٹے ہوئے پھل دونوں املا درست ہیں ۔ میرا کہنا تو صرف یہ تھا کہ جب بادل اور ابر وغیرہ کی بات ہوگی تو یہاں صرف چھٹنا ہی استعمال ہوگا ۔ یہاں چھنٹنا نہیں کہہ سکتے ۔ اور ان کے معنوں میں فرق کی تفصیل میں نے اوپر والے مراسلے میں لکھی تھی ۔ ویسے یہ آٹو کریکٹ بھی عجیب ہی ہے ۔ بعض اوقات سہولت سے زیادہ مصیبت کا باعث بن جاتا ہے ۔
 
غبار آلود موسم کا دُھلنا یا فضا کا دُھلنا عام مستعمل ہے اس لئے بلا تکلف استعمال کیجئے۔ بلکہ مذکورہ شعر میں یہ ایک اچھا شاعرانہ اندازِ بیان لگے گا۔ مثلاً:

ایسی بارش ہوئی ان آنکھوں سے
دُھل گیا سب غبار کا موسم

پہلے مصرع کی جگہ شکیل احمد کا تجویز کردہ مصرع بھی رکھ سکتے ہیں: ہوئی برسات ایسی آنکھوں سے
رہنمائی کا شکریہ،
کیا یوں مناسب ہو گا
ایسی برسات چشمِ نم سے ہوئی
دُھل گیا سب غبار کا موسم
 
Top