محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
نئی محبت
محمد خلیل الرحمٰن
(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)
اک روز یہ کہنے لگے ابّا جو ہمارے
ہر روز یہ کِس ڈھنگ سے کالج کو چلا رے
کیا جانیے میں کتنے جہاں دیکھ چکا ہوں
جو بن کے مٹے ان کے نشاں دیکھ چکا ہوں
ہر روز نئے ڈھنگ سے ڈریسنگ ہے تو کرتا
اور ناشتہ کرتے ہوئے آہیں بھی ہے بھرتا
’’کہہ ہم سے بھی اُس کشورِ دلکش کا فسانہ‘‘
گاتا ہے سدا جس کی محبت کا ترانہ
رو رو کے تری ماں نے بُرا حال کیا ہے
گرچہ یہ ڈرامہ تو نے ہر سال کیا ہے
کہتی ہے محبت تجھے شیلا سے ہوئی ہے
کھٹ پٹ تری کوئی کیا نبیلا سے ہوئی ہے؟
ابّا مرے پوچھو نہ کہا نی یہ وہاں کی
کالج نہیں اِک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی
’’آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر‘‘
’’بے چاری کلی کھلتی ہے مرجھانے کی خاطر‘‘
ہر روز کی کھِٹ کھِٹ سے میں تنگ آیا ہوا ہوں
حالات ہیں ایسے کہ میں گھبرایا ہوا ہوں
’’دل سوختہٗ گرمیٗ فریاد ہے شمشاد‘‘
زندانی ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد‘‘
ٌٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌٌٌ
محمد خلیل الرحمٰن
(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)
اک روز یہ کہنے لگے ابّا جو ہمارے
ہر روز یہ کِس ڈھنگ سے کالج کو چلا رے
کیا جانیے میں کتنے جہاں دیکھ چکا ہوں
جو بن کے مٹے ان کے نشاں دیکھ چکا ہوں
ہر روز نئے ڈھنگ سے ڈریسنگ ہے تو کرتا
اور ناشتہ کرتے ہوئے آہیں بھی ہے بھرتا
’’کہہ ہم سے بھی اُس کشورِ دلکش کا فسانہ‘‘
گاتا ہے سدا جس کی محبت کا ترانہ
رو رو کے تری ماں نے بُرا حال کیا ہے
گرچہ یہ ڈرامہ تو نے ہر سال کیا ہے
کہتی ہے محبت تجھے شیلا سے ہوئی ہے
کھٹ پٹ تری کوئی کیا نبیلا سے ہوئی ہے؟
ابّا مرے پوچھو نہ کہا نی یہ وہاں کی
کالج نہیں اِک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی
’’آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر‘‘
’’بے چاری کلی کھلتی ہے مرجھانے کی خاطر‘‘
ہر روز کی کھِٹ کھِٹ سے میں تنگ آیا ہوا ہوں
حالات ہیں ایسے کہ میں گھبرایا ہوا ہوں
’’دل سوختہٗ گرمیٗ فریاد ہے شمشاد‘‘
زندانی ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد‘‘
ٌٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌٌٌ