زرقا مفتی
محفلین
نئے سال کی پہلی دُُعا
۱۳ دسمبر کی رات کا آخری پہر ہے ۔ ایک پُرآسائش نیم تاریک کمرے میںآرام دہ صوفے پر ایک ہیولا سا بیٹھا ہے۔وہ بار بار پہلو بدلتا ہے کبھی دونوں ہاتھوں میں سر کو تھام لیتا ہے اور کبھی بے چینی سے پیر پٹخنے لگتا ہے۔
اُسکا عالیشان گھر ،گاڑ یاں ، خوبصورت بیوی صحت مند ذہین بچے سب اُس کی کامیابی کے گواہ ہیں۔خاندان میں بڑے چھوٹے سب اُس کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ معاشرے میں اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر ایک خالی پن ہے جو اُس کی روح میں بھرتا جا رہا ہے۔نہ جانے ایسا کیا ہے جو اُسے حاصل نہیں ہے۔
وہ سوچتا ہے کہ اگر اگلے ہی لمحے وہ یہاں نہ رہے تو کیا فرق پڑے گا ۔
اُس کے بیوی بچے کچھ دن غمگین رہیں گے پھر اپنی اپنی مصروفیات میں گم ہو جائیں گے۔
کسی کو کیا فرق پڑے گا۔
آج اُسے اپنا وجود بہت کم مایہ محسوس ہو رہا تھا۔
اتنی بڑی دُنیا میں کتنے ہی لوگ ہیںجو اُس سے زیادہ کامیاب ہیں زیادہ اونچے مقام اور رُتبے کے حامل ہیں۔
پھر اس دُنیامیں اگر وہ نہ رہے تو کیا فرق پڑے گا۔
شاید کل کے اخبار میں چار سطروں کی خبر چھپ جائے کہ معروف بزنس مین ۔۔۔۔۔۔انتقال کر گئے مرحوم ۔۔۔۔۔۔۔کمپنیوں کے مالک تھے اُن کے پسماندگان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شامل ہیں۔ اُن کا جنازہ۔۔۔۔۔۔۔۔اُٹھایا جائے گا۔
پھر وہی شب و روز ہوں گے شہر کی گہما گہمی میں کیا کمی آئے گی۔
سورج ،چاند، ستارے سب اپنے اپنے مدار میں اپنے نظام الاوقات کے مطابق گردش کرتے رہیں گے۔
اب اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
وہ باآوازِ بلند سوچنے لگا
اے میرے رب تو نے مجھے کس لئے پیدا کیا؟
میرے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟
اے میرے رب مجھے ہر دُنیاوی آسائش حاصل ہے۔
اگر میں سچ بولوں تو مجھے جنت کی بھی خواہش نہیں ۔
دُنیا میرے لئے جنت سے کیا کم ہے؟
تو پھر یہ میرے اندر کا خلاکیوں بڑھتا جا رہا ہے؟
جیسے میری روح کو گھن لگ گیا ہے
آہستہ آہستہ میرے اطمینان میرے سکونِ قلب کو ختم کر رہا ہے
میرا اعتماد کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے
نہ جانے میں یہاں موجود ہوں یا یہ سب کوئی طلسم ہے
میری آنکھ کھلے گی تونہ یہ عالیشان مکان ہوگا نہ یہ چاہنے والے نہ یہ مقام نہ رُتبہ
تو پھر مجھے اور کیا چاہیئے
مجھے جینے کی اک وجہ چاہیئے
جو میرے خالی وجود کو بھر دے
جو اپنی ذات پر میرے اعتماد کو بحال کر دے
اے میرے رب میری زندگی کو کوئی مقصد دے دے
﴾زرقامفتی﴿
۱۳ دسمبر کی رات کا آخری پہر ہے ۔ ایک پُرآسائش نیم تاریک کمرے میںآرام دہ صوفے پر ایک ہیولا سا بیٹھا ہے۔وہ بار بار پہلو بدلتا ہے کبھی دونوں ہاتھوں میں سر کو تھام لیتا ہے اور کبھی بے چینی سے پیر پٹخنے لگتا ہے۔
اُسکا عالیشان گھر ،گاڑ یاں ، خوبصورت بیوی صحت مند ذہین بچے سب اُس کی کامیابی کے گواہ ہیں۔خاندان میں بڑے چھوٹے سب اُس کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ معاشرے میں اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر ایک خالی پن ہے جو اُس کی روح میں بھرتا جا رہا ہے۔نہ جانے ایسا کیا ہے جو اُسے حاصل نہیں ہے۔
وہ سوچتا ہے کہ اگر اگلے ہی لمحے وہ یہاں نہ رہے تو کیا فرق پڑے گا ۔
اُس کے بیوی بچے کچھ دن غمگین رہیں گے پھر اپنی اپنی مصروفیات میں گم ہو جائیں گے۔
کسی کو کیا فرق پڑے گا۔
آج اُسے اپنا وجود بہت کم مایہ محسوس ہو رہا تھا۔
اتنی بڑی دُنیا میں کتنے ہی لوگ ہیںجو اُس سے زیادہ کامیاب ہیں زیادہ اونچے مقام اور رُتبے کے حامل ہیں۔
پھر اس دُنیامیں اگر وہ نہ رہے تو کیا فرق پڑے گا۔
شاید کل کے اخبار میں چار سطروں کی خبر چھپ جائے کہ معروف بزنس مین ۔۔۔۔۔۔انتقال کر گئے مرحوم ۔۔۔۔۔۔۔کمپنیوں کے مالک تھے اُن کے پسماندگان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شامل ہیں۔ اُن کا جنازہ۔۔۔۔۔۔۔۔اُٹھایا جائے گا۔
پھر وہی شب و روز ہوں گے شہر کی گہما گہمی میں کیا کمی آئے گی۔
سورج ،چاند، ستارے سب اپنے اپنے مدار میں اپنے نظام الاوقات کے مطابق گردش کرتے رہیں گے۔
اب اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
وہ باآوازِ بلند سوچنے لگا
اے میرے رب تو نے مجھے کس لئے پیدا کیا؟
میرے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟
اے میرے رب مجھے ہر دُنیاوی آسائش حاصل ہے۔
اگر میں سچ بولوں تو مجھے جنت کی بھی خواہش نہیں ۔
دُنیا میرے لئے جنت سے کیا کم ہے؟
تو پھر یہ میرے اندر کا خلاکیوں بڑھتا جا رہا ہے؟
جیسے میری روح کو گھن لگ گیا ہے
آہستہ آہستہ میرے اطمینان میرے سکونِ قلب کو ختم کر رہا ہے
میرا اعتماد کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے
نہ جانے میں یہاں موجود ہوں یا یہ سب کوئی طلسم ہے
میری آنکھ کھلے گی تونہ یہ عالیشان مکان ہوگا نہ یہ چاہنے والے نہ یہ مقام نہ رُتبہ
تو پھر مجھے اور کیا چاہیئے
مجھے جینے کی اک وجہ چاہیئے
جو میرے خالی وجود کو بھر دے
جو اپنی ذات پر میرے اعتماد کو بحال کر دے
اے میرے رب میری زندگی کو کوئی مقصد دے دے
﴾زرقامفتی﴿