معاویہ منصور
محفلین
نئے سال کی آمد آمد ہے اور ہر سال کی طرح اس بار بھی کئی طرح کے نجومی بابے اپنے بلوں سے نکل رہے ہیں۔ مختلف چینلز اور اخبارات کونے کھدروں سے ان بابوں کو برآمد کر کے مستقبل کا حال جاننے میں مصروف ہیں۔ عام طور پہ ہر نجومی بابے کے کریڈٹ پر کوئی پھڑکتی ہوئی پیشین گوئی ضرور موجود ہوتی ہے، جو سچ بھی ثابت ہو چکی ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے واقعہ پیش پہلے آتا ہے اور بابے پیشین گوئی بعد میں کر دیا کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ جبکہ کچھ نامہرباں بابے کی سالوں کی عرق ریزی سے تیارکردہ پیشین گوئی کو اتفاقا سچ ثابت ہونے پر محمول کرتے ہیں۔
عام طور پر ہر بابے کا تعارف اس کی ہٹ پیشین گوئی کے حوالے سے دیا جاتا ہے۔ جیسے مشرف کی رخصتی کی خبر دینے والا کامل نجومی یا بے نظیر کی دھماکے میں بچ جانے کی اطلاع کرنے والا بابا۔ یہ اور بات اس بابے کو یہ معلوم نہیں ہو پاتا اگلے دھماکے میں محترمہ بے نظیر اگلے جہان بھی سدھار جائیں گی۔ اسی طرح آج کل پٹرول بڑھنے اور لوڈشیڈنگ کم ہونے کی اطلاع کرنے والے بابے بھی کافی ’اِن‘ ہیں۔ کرکٹ میں ہار جیت کا پتا چلانے والے بابے تو ہمیشہ ہی ہِٹ رہے ہیں۔
ہمارا میڈیا چونکہ بہت ’ترقی یافتہ‘ اور ’روشن خیال‘ ہے اس لیے یہاں صرف ’سائنسی بابوں‘ کی دال گلتی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پہ ’ستاروں کی چال پر نظر‘ رکھی جاتی ہے اور اس کے مطابق دن گزارنے کا لائحہ عمل دیا جاتا ہے۔ ویسے اکثر نجومی ستاروں کی چال پر ہی چلتے ہیں اور ’بچہ ستارے گردش میں ہیں‘ کا ڈراوا دے کر سائل کے ساتھ چال چلنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ اب اس سائل کو کون سمجھائے بھائی ستارے تو سارا سال ہی گردش میں رہتے ہیں اور اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ نیا سال شروع ہوتے ہی ستاروں کی گردش کی بنیاد پر بنائی گئی قسماقسم کی جنتریاں بھی مارکیٹ میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ کئی سادہ لوح اس چکر میں اپنی قسمت پھیرنے کے چکر میں ہوتے ہیں، انجامِ کار ردی والوں کے چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں۔
ستاروں کی حرکتوں کا اتنی گہری نظر سے مشاہدہ کرنے پر ہم بھی خود کو ایک پہنچے ہوئے بابے کے روپ میں دیکھنے پر مجبور ہو گئے۔ سوچا لگے ہاتھوں ہم بھی کچھ پیشین گوئیاں کر دیں۔ ایک آدھ تیر ہی نشانے پر بیٹھ گیا تو وارے نیارے۔ البتہ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے ان پیشین گوئیوں میں ستاروں کے چکر کی بجائے صرف چکر سے کام لیا گیا ہے اور عوام کو چکرانے سے بچانے کی ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی۔ ویسے بھی ہماری قوم کی حالت لطیفے والے اس شخص کی طرح ہو چکی ہے جسے نجومی نے بتایا اگلے پانچ سال بہت پریشانی میں گزریں گے۔ اس شخص نے سوال کیا اس کے بعد حالات سدھر جائیں گے؟ نجومی نے جواب دیا اس کے بعد تم عادی ہو جاو گے۔
اگلے سال کی پہلی پیشین گوئی یہ ہے پٹرول کی قیمت مائل بہ پرواز رہے گی اور یہ اڑتے اڑتے عوام کی پہنچ سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ اس پریشانی کے خاتمے کے لیے حکومت ’گرین سائیکل‘ اور ’ہتھ ریڑھی سکیم‘ شروع کر سکتی ہے۔ گدھا اور گھوڑا گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ’سستی گھاس سکیم‘ کے تحت انہیں ریلیف فراہم کیا جائے گا جبکہ پیدل چلنے والوں میں ’مفت جوگر‘ بانٹے جائیں گے۔ مہنگائی کے جھٹکے زلزلے کے جھٹکوں کی طرح عوام کا انجر پنجر ہلاتے رہیں گے۔ روزمرہ استعمال کی اکثر اشیا عجائب گھروں کی زینت بن جائیں گی۔ مجموعی طور پر ہر چیز کی قیمت بڑھنے کا امکان ہے البتہ انسانی جان مزید ارزاں ہو سکتی ہے۔ بھتے اور اغوا برائے تاوان کے ریٹ بھی کم ہونے کی توقع ہے۔ ملازمتوں کی تلاش میں لوگ حسبِ سابق دھکے کھاتے رہیں گے تاہم رشوت و سفارش کی سیڑھی ہمیشہ کی طرح ترقی کا زینہ ثابت ہو گی۔
عوام قرضہ سکیم سے مستفید ہونے کے لیے سفارش کراتے اور پھر قرضے کے بوجھ تلے کراہتے دکھائی دیں گے۔ حکومت آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لے کر نہیں کھڑی ہو گی بلکہ جھولیاں بھر بھر کے قرضہ لیا جائے گا۔ تمام سرکاری محکموں میں جوتیوں میں دال بانٹی جائے گی اور اندھے کی مانند اپنوں کو ہی ریوڑیاں دی جائیں گی۔ سیاستدان عوام کا پیٹ وعدوں اور اپنا کمیشن سے بھرنے میں مصروف رہیں گے۔ کچھ سیاستدان ’ھل من مزید‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنی باری کا مطالبہ کریں گے جبکہ دیگر ’مل بانٹ کر کھانے میں برکت ہوتی ہے‘ کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے حکومت کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے سے باز رہیں گے۔
مختصر یہ کہ سال کے ابتدائی چند ماہ ذرا سخت ہوں گے اور اس کے بعد ......... اس کے بعد عوام عادی ہو جائیں گے۔
میری یہ تحریر روزنامہ اسلام میں 30 دسمبر کو شائع ہوئی۔ احباب کی طرف سے اصلاح و بہتری کا منتظر رہوں گا۔
http://www.dailyislam.pk/epaper/daily/2013/december/30-12-2013/page6.html
عام طور پر ہر بابے کا تعارف اس کی ہٹ پیشین گوئی کے حوالے سے دیا جاتا ہے۔ جیسے مشرف کی رخصتی کی خبر دینے والا کامل نجومی یا بے نظیر کی دھماکے میں بچ جانے کی اطلاع کرنے والا بابا۔ یہ اور بات اس بابے کو یہ معلوم نہیں ہو پاتا اگلے دھماکے میں محترمہ بے نظیر اگلے جہان بھی سدھار جائیں گی۔ اسی طرح آج کل پٹرول بڑھنے اور لوڈشیڈنگ کم ہونے کی اطلاع کرنے والے بابے بھی کافی ’اِن‘ ہیں۔ کرکٹ میں ہار جیت کا پتا چلانے والے بابے تو ہمیشہ ہی ہِٹ رہے ہیں۔
ہمارا میڈیا چونکہ بہت ’ترقی یافتہ‘ اور ’روشن خیال‘ ہے اس لیے یہاں صرف ’سائنسی بابوں‘ کی دال گلتی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پہ ’ستاروں کی چال پر نظر‘ رکھی جاتی ہے اور اس کے مطابق دن گزارنے کا لائحہ عمل دیا جاتا ہے۔ ویسے اکثر نجومی ستاروں کی چال پر ہی چلتے ہیں اور ’بچہ ستارے گردش میں ہیں‘ کا ڈراوا دے کر سائل کے ساتھ چال چلنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ اب اس سائل کو کون سمجھائے بھائی ستارے تو سارا سال ہی گردش میں رہتے ہیں اور اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ نیا سال شروع ہوتے ہی ستاروں کی گردش کی بنیاد پر بنائی گئی قسماقسم کی جنتریاں بھی مارکیٹ میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ کئی سادہ لوح اس چکر میں اپنی قسمت پھیرنے کے چکر میں ہوتے ہیں، انجامِ کار ردی والوں کے چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں۔
ستاروں کی حرکتوں کا اتنی گہری نظر سے مشاہدہ کرنے پر ہم بھی خود کو ایک پہنچے ہوئے بابے کے روپ میں دیکھنے پر مجبور ہو گئے۔ سوچا لگے ہاتھوں ہم بھی کچھ پیشین گوئیاں کر دیں۔ ایک آدھ تیر ہی نشانے پر بیٹھ گیا تو وارے نیارے۔ البتہ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے ان پیشین گوئیوں میں ستاروں کے چکر کی بجائے صرف چکر سے کام لیا گیا ہے اور عوام کو چکرانے سے بچانے کی ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی۔ ویسے بھی ہماری قوم کی حالت لطیفے والے اس شخص کی طرح ہو چکی ہے جسے نجومی نے بتایا اگلے پانچ سال بہت پریشانی میں گزریں گے۔ اس شخص نے سوال کیا اس کے بعد حالات سدھر جائیں گے؟ نجومی نے جواب دیا اس کے بعد تم عادی ہو جاو گے۔
اگلے سال کی پہلی پیشین گوئی یہ ہے پٹرول کی قیمت مائل بہ پرواز رہے گی اور یہ اڑتے اڑتے عوام کی پہنچ سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ اس پریشانی کے خاتمے کے لیے حکومت ’گرین سائیکل‘ اور ’ہتھ ریڑھی سکیم‘ شروع کر سکتی ہے۔ گدھا اور گھوڑا گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ’سستی گھاس سکیم‘ کے تحت انہیں ریلیف فراہم کیا جائے گا جبکہ پیدل چلنے والوں میں ’مفت جوگر‘ بانٹے جائیں گے۔ مہنگائی کے جھٹکے زلزلے کے جھٹکوں کی طرح عوام کا انجر پنجر ہلاتے رہیں گے۔ روزمرہ استعمال کی اکثر اشیا عجائب گھروں کی زینت بن جائیں گی۔ مجموعی طور پر ہر چیز کی قیمت بڑھنے کا امکان ہے البتہ انسانی جان مزید ارزاں ہو سکتی ہے۔ بھتے اور اغوا برائے تاوان کے ریٹ بھی کم ہونے کی توقع ہے۔ ملازمتوں کی تلاش میں لوگ حسبِ سابق دھکے کھاتے رہیں گے تاہم رشوت و سفارش کی سیڑھی ہمیشہ کی طرح ترقی کا زینہ ثابت ہو گی۔
عوام قرضہ سکیم سے مستفید ہونے کے لیے سفارش کراتے اور پھر قرضے کے بوجھ تلے کراہتے دکھائی دیں گے۔ حکومت آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لے کر نہیں کھڑی ہو گی بلکہ جھولیاں بھر بھر کے قرضہ لیا جائے گا۔ تمام سرکاری محکموں میں جوتیوں میں دال بانٹی جائے گی اور اندھے کی مانند اپنوں کو ہی ریوڑیاں دی جائیں گی۔ سیاستدان عوام کا پیٹ وعدوں اور اپنا کمیشن سے بھرنے میں مصروف رہیں گے۔ کچھ سیاستدان ’ھل من مزید‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنی باری کا مطالبہ کریں گے جبکہ دیگر ’مل بانٹ کر کھانے میں برکت ہوتی ہے‘ کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے حکومت کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے سے باز رہیں گے۔
مختصر یہ کہ سال کے ابتدائی چند ماہ ذرا سخت ہوں گے اور اس کے بعد ......... اس کے بعد عوام عادی ہو جائیں گے۔
میری یہ تحریر روزنامہ اسلام میں 30 دسمبر کو شائع ہوئی۔ احباب کی طرف سے اصلاح و بہتری کا منتظر رہوں گا۔
http://www.dailyislam.pk/epaper/daily/2013/december/30-12-2013/page6.html