فرخ منظور
لائبریرین
نئے سُر کی تمثیل
کامنی، خواب کی لَو میں ہنستی ہوئی کامنی
سولہ برسوں کی تقویم میں فصلِ گل کا کوئی تذکرہ تک نہ تھا
میں نے بتیس پت جھڑ رتیں کاٹ دیں
اب جو تمثیل کے ایک وقفے میں تم سے ملا ہوں
تو سانسوں میں نم، چال میں ان زمانوں کا رم جی اٹھا ہے جو عہدِ زمستاں میں یخ تھے
سقر سا سقر
کامنی خندہء گل کی کُل زندگی
ایک گُل چیں کی وحشت بھری آنکھ ہے
یہ چٹکنا، یہ کھلنا
بہت سحر آورسہی، جاگنے اور سونے میں اک خوابِ موہوم سے کچھ زیادہ نہیں
خواب و خواہش عجب سلسلہ ہے
بہت دور بہتی ہوئی آبشاروں کا اک سلسلہ
جس میں کوہِ تذبذب کی خوشبو بھی ہے، عہدو پیماں کا جادو بھی
خوں سے سُروں تک
سُروں سے اس اک لفظ تک
جس میں راگوں کا جوہر بندھا ہے
کہیں ایمنی رس، کہیں ماروا ٹھاٹھ ، بھاگیشری، بھیرویں اور پہاڑی
وہ سب کچھ، جو اپنے لہو میں دہکتا، چہکتا ہے
جس کے تناظر میں ہم بیست و شش سال پہلے بندھے تھے
انہی آبشاروں سے مجھ کو صدا آ رہی ہے
سو میں جا رہا ہوں
نئے سُر اٹھانے
کہ سرگم کی فرسودگی چشم و دل کو بجھانے لگی ہے
نیا سُر، جسے لفظ ترتیب دیتے ہیں
پہنچے، تو جانو کہ صانع کے لفظوں سے اٹھتی نمی تم تک آئی
پسِ عمر کا حاصلِ فن جسے صرفہء جاں کہیں، کچھ نہیں
بیست وشش سال در خدمتِ فن بسر کردہ ام
با نمِ چشم اوراق تر کردہ ام
در فقیری گذر کردہ ام
حرف سر کردہ ام
اے، مبادا بیالیسیویں موم بتی جلاو ں، دعائیں نہ دو
یہ جو لفظوں کی پیغمبری ہے، نہ ہوتی تو عبرت سرا میں بھلا کوں جیتا
میں لفظوں میں سسکارتا ہوں
سنا تم نے سُر؟
نغمہء تازہ کا یہ نمو کتنے قرنوں سےدل میں کسی سل کی صورت جما تھا
یہ جُوئے رواں تم تک آئی مگر کتنے خورشید و مہتاب آہنگ بنتے ہوئے بجھ گئے
کتنے دن گل ہوئے
کتنی راتیں ڈھلیں
خیر، کیسا حساب
ایسے نغموں میں خوں اور چراغوں کے روغن کا پُرسہ کسے دوں،
بھلا کون عزا دار ہے؟
پرسہ داروں کی تمثیل میں کوئی وقفہ نہیں
(اختر عثمان)
کامنی، خواب کی لَو میں ہنستی ہوئی کامنی
سولہ برسوں کی تقویم میں فصلِ گل کا کوئی تذکرہ تک نہ تھا
میں نے بتیس پت جھڑ رتیں کاٹ دیں
اب جو تمثیل کے ایک وقفے میں تم سے ملا ہوں
تو سانسوں میں نم، چال میں ان زمانوں کا رم جی اٹھا ہے جو عہدِ زمستاں میں یخ تھے
سقر سا سقر
کامنی خندہء گل کی کُل زندگی
ایک گُل چیں کی وحشت بھری آنکھ ہے
یہ چٹکنا، یہ کھلنا
بہت سحر آورسہی، جاگنے اور سونے میں اک خوابِ موہوم سے کچھ زیادہ نہیں
خواب و خواہش عجب سلسلہ ہے
بہت دور بہتی ہوئی آبشاروں کا اک سلسلہ
جس میں کوہِ تذبذب کی خوشبو بھی ہے، عہدو پیماں کا جادو بھی
خوں سے سُروں تک
سُروں سے اس اک لفظ تک
جس میں راگوں کا جوہر بندھا ہے
کہیں ایمنی رس، کہیں ماروا ٹھاٹھ ، بھاگیشری، بھیرویں اور پہاڑی
وہ سب کچھ، جو اپنے لہو میں دہکتا، چہکتا ہے
جس کے تناظر میں ہم بیست و شش سال پہلے بندھے تھے
انہی آبشاروں سے مجھ کو صدا آ رہی ہے
سو میں جا رہا ہوں
نئے سُر اٹھانے
کہ سرگم کی فرسودگی چشم و دل کو بجھانے لگی ہے
نیا سُر، جسے لفظ ترتیب دیتے ہیں
پہنچے، تو جانو کہ صانع کے لفظوں سے اٹھتی نمی تم تک آئی
پسِ عمر کا حاصلِ فن جسے صرفہء جاں کہیں، کچھ نہیں
بیست وشش سال در خدمتِ فن بسر کردہ ام
با نمِ چشم اوراق تر کردہ ام
در فقیری گذر کردہ ام
حرف سر کردہ ام
اے، مبادا بیالیسیویں موم بتی جلاو ں، دعائیں نہ دو
یہ جو لفظوں کی پیغمبری ہے، نہ ہوتی تو عبرت سرا میں بھلا کوں جیتا
میں لفظوں میں سسکارتا ہوں
سنا تم نے سُر؟
نغمہء تازہ کا یہ نمو کتنے قرنوں سےدل میں کسی سل کی صورت جما تھا
یہ جُوئے رواں تم تک آئی مگر کتنے خورشید و مہتاب آہنگ بنتے ہوئے بجھ گئے
کتنے دن گل ہوئے
کتنی راتیں ڈھلیں
خیر، کیسا حساب
ایسے نغموں میں خوں اور چراغوں کے روغن کا پُرسہ کسے دوں،
بھلا کون عزا دار ہے؟
پرسہ داروں کی تمثیل میں کوئی وقفہ نہیں
(اختر عثمان)