نئے لہجے نئی فرہنگ والا درویش شاعر۔ (حمید نسیم)

نوید صادق

محفلین
نئے لہجے نئی فرہنگ والا درویش شاعر۔ خالد احمد
(حمید نسیم)

خالد احمد نے اب تک اپنے شعری سفر میں جو منزلیں طے کی ہیں اور جو رفعتیں کرب شعور کی اور وجدانی سرخوشی کے جو ہمہ سوز، ہمہ ضو مقامات ان کے منتظر ہیں ان کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اپنی کچھ کوتاہیوں اور بے سرو سامانیوں کا صراحت سے اعتراف مجھ پر لازم آتا ہے ۔ میں نہیں چاہتا کہ میری کوئی نا اہلی پیشہ ور نکتہ چینوں کو خالد احمد کے خلاف کینہ سازی کا جواز فراہم کر دے ۔
1963ء میں چار مہینے اور برطانیہ کی مطالعاتی سیاحت کے بعد وطن واپس آیا تو میری زندگی کی نہج کاملاً بدل گئی۔ میرے شب و روز ایک اور اہم فریضے کی ادائیگی کے لئے خود کو تیار کرنے میں صرف ہونے لگے اور میں عصری اردو ادب و شعر سے دور سے دور تک ہوتا چلا گیا۔ اس زمانے میں یار جانی ضیاء جالندھری کراچی میں تھا۔ شامیں اس کے ساتھ گزرتی تھیں ۔ وہ کبھی کبھی کسی نئے شاعر کا کوئی اچھا شعر سنا دیتا تو کچھ لمحوں کے لئے میرے اندر جگنو کی سی مدھم جھلمل ہو جاتی۔ عالمی ادب کا مطالعہ تو میرے نئے کام کی تیاری کا ایک حصہ تھا۔ سو وہ جاری رہا۔ اردو ادب سے میرا ربط صرف ضیا کی حد تک تھا۔ اس زمانے میں مجھ سے اپنے محترم اور شفیق دوست حضرت احمد ندیم قاسمی سے ایک نوع کی گستاخی بھی سرزد ہو گئی تھی۔ ’’فنون‘‘ کا غزل نمبر شائع کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔ میرے بزرگ دوست کا تحریری حکم ملا۔ ’’اپنی چھ غزلیں بھیج دو!‘‘ میں تعمیل حکم نہ کر سکا تو انہوں نے دو تین بار یادہانی بھی کروائی۔ میں کیا کرتا۔ میرا نیا کام کل وقتی جبر تھا۔ ’’فنون‘‘ کا غزل نمبر شائع ہوا۔ بڑ ی آب و تاب سے ۔ میرے ہمہ مروت و احسان دوست نے حرفِ آغاز میں میری مسلسل خاموشی کا ذکر فرمایا اوریوں بتا دیا کہ مجھے انہوں نے ’’فنون‘‘ کے اس تاریخی سطح پر اہم شمارے میں نہ شامل کر کے ignore نہیں کیا۔ قصور وار وہ نہیں تھے ۔ میں تھا کہ معذرت کے دو خرف بھی نہ لکھ سکا۔ اس واقعہ کا ذکر میں نے صرف عصری ادب سے اپنی ناواقفیت کا ثبوت فراہم کرنے کے لئے کیا ہے ۔
چند برس پہلے میں نے ایک ادبی جریدے میں احسان اکبر صاحب کی ایک مختصر سی نظم پڑ ھی جس کا ایک مصرع اب تک ذہن میں محفوظ ہے ۔ع
اک دابی پور کماد کی
ضیاء اسلام آباد میں ٹیلی وژن کا مینجنگ ڈائریکٹر ہو چکا تھا۔ میں نے اسے خط میں اس نظم پر اپنے تاثرات اسی رات کو بھیجتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شاعر نیا وجدان نیا جوہر لے کر آیا ہے ۔ ضیاء، احسان اکبر صاحب کے کلام سے پوری طرح باخبر تھے ۔ اس نے مجھے یہ مسرت انگیز خبر دی کہ وہ بھی دین سے محکم وابستگی رکھنے والے شاعر ہیں ۔ پھر مدتیں گزر گئیں میں اس نئے لہجے والے شاعر کے شعری سفر سے ناواقف رہا۔ میں نے تین عشروں کے کامل انہماک کے بعد پانچ جلدوں پر مشتمل قرآن حیکم کی تقابلی تفسیر ’’تعارف الفرقان‘‘ لکھنا شروع کی اور ایک سال سے کم عرصے میں مکمل کر دی۔ پھر 1987ء میں اپنی آپ بیتی ’’نا ممکن کی جستجو‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ وہ بھی ضحیم کتاب ہے ۔ پھر ضیاء کی مسلسل انگیخت اور ہمت افزائی نے حوصلہ دیا اور میں نے ربع صدی سے زیادہ عرصہ سے رکی ہوئی طبع کو یکسوئی سے رواں کیا۔ اور پھر کل وقتی شاعر اور نقاد شعر بن گیا۔ 1990ء میں ، میں نے عصری ادب و شعر کی حتی المقدور پڑ ھنے اور سمجھنے کی کوشش شروع کی۔ حضرت احمد ندیم قاسمی سے رسم و راہ، میں نے ان کے گرامی ناموں کا جواب نہ دے کر بے ادبی کی تھی معافی نامہ ان کی خدمت میں ارسال کر کے ، بحال کی۔ فنون کے لئے کچھ تازہ کلام بھیجا۔ قاسمی صاحب ہمہ لطف و کرم شخص ہیں چنانچہ انہوں نے پھر مجھے اپنے ارادت مندوں کے قبیلے میں شامل فرما لیا اور ’’فنون‘‘ باقاعدگی سے ملنے لگا۔
’’فنون‘‘ کے ایک نہایت جامع، بھرپور اور ہمہ جمال شمارے میں مجھے ایک اچنبھے کا تخلیقی شہ کار نظر آیا۔ ایک طویل نظم، چار چار مصرعوں کے فارمیٹ میں ۔ میں خالد احمد صاحب کے نام سے آشنا نہیں تھا۔ لیکن پہلے ہی چار مصرعوں نے میرے وجدان و شعور کے گرد ایک حلقہ بنا دیا۔ اس رات میں نے اس نظم کو تین بار اول تا آخر پڑ ھا۔ رک رک کر، حیرت اور مسرت کو قابو میں رکھ کر، فکر و شعور کو، اپنی شعری حس کو، نظم پر پوری چوکسی سے فوکس focus کر کے ۔ پھر اسی رات میں نے قاسمی صاحب کو خط لکھ کر اس نظم کے بارے میں اپنے اولیں تاثرات سے مطلع کیا۔ اگلی رات اورپھر اس سے اگلی رات بھی آخر شب تک اس نظم میں مستغرق رہا۔ یہ عظیم نظم جو اردو میں ایک عمیق mystic تجربے کا عدیم النظیر بیان ہے میرے قلب و جان میں رچ گئی۔ تو میں نے قاسمی صاحب کو ایک اور خط لکھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا یہ خالد احمد کون ہیں ۔ میں نے ریڈیو پاکستان میں ضمیر علی صاحب سے جو معروف نقاد ادب ہیں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ محترمہ ہاجرہ مسرور اور مرحومہ خدیجہ مستور کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ دو چار دن بعد قاسمی صاحب نے خالد احمد صاحب کے بارے میں کچھ اساسی معلومات فراہم کر دیں تو مجھے پتہ چلا کہ خالد احمد عمر کی اس حد سے آگے گزر چکے ہیں جس کا تعین حکیم مشرق سعدی نے یوں کیا تھا۔ ’’چہل سال عمر عزیز گزشت‘‘ اور اس مقام تک پہنچنے والے ہیں جس کی طرف متوجہ کر کے یہ دانائے راز کہتا ہے ۔ ’’اے کہ پنجاہ رفت و۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘۔ ’’فنون‘‘ کے اس شمارے کے بعد آنے والے شمارے میں خالد احمد کا گوشہ، قاسمی صاحب نے رکھا تو اس میں میرے خط بھی شامل فرما دئیے ۔ محمد حنیف صاحب کا مختصر ناقدانہ جائزہ بھی تھا اور خالد احمد صاحب کی دو غزلیں اور ’’دراز پلکوں کے سائے سائے ‘‘ سے ایک اقتباس بھی تھا۔ میں نے یہ تازہ کلام پڑ ھ کر پھر اپنی رائے قاسمی صاحب کی خدمت میں ارسال کر دی اور کہا کہ اس امکانی طور پر major شاعر کو میرا سلام ادب پہنچا دئجیے اور میری یہ گزارش بھی کہ اگر وہ اس لہجہ اس فرہنگ اور اس باطنی کیفیت کو ریاضت سے اپنا مزاج بنا لیں تو وہ پاکستان کی آئندہ ملک گیر نئی زبان اردو کے ولی دکنی مانے جائیں گے ۔ تاریخ یہ مسند ان کے لئے سجائے منتظر ہے ۔
اس معروضے کے بعد مجھے یہ عرض کرنا ہے ۔ گزشتہ چند مہینوں میں ، میں ’’ہتھیلیوں پہ چراغ‘‘ ’’پہلی صدا پرندے کی‘‘ اور ’’ایک مٹھی ہوا‘‘ ایک نہیں کئی بار پڑ ھ چکا ہوں ۔ پھر ’’فنون‘‘ میں خالد احمد کی طویل نعت پڑ ھنا نصیب ہوئی۔ اردو کی عظیم ترین نعت، عشق اور فکر، ہر دو لحاظ سے علامہ اقبال کی نظم ’’ذوق و شوق‘‘ میں وہ دل افروز و جاں نواز بند ہے ۔
لوح بھی تو قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
یہ بند عشق رسولؐ کے ایسے مقام کا آئینہ دار ہے جو چودہ صدیوں میں اور کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ یہ بات میں پھر بہ صد ادب اور بہ کمال صراحت دہرا رہا ہوں ، کسی شاعر کو نصیب نہیں ہوا،
تیری نگاہ لطف سے دونوں مراد پا گئے
عقل، غیاب و جستجو ، عشق ، حضور و اضطراب
اور محسن کاکوری کی نظم،
’’سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل‘‘
اپنی منفرد سرشاری رکھتی ہے ۔ مسدس حالی میں دو چار نعتیہ بند بھی دلنواز و دلنشیں ہیں لیکن دو ڈھائی سو اشعار پر مشتمل خالد احمد کی نعت وہ کارنامہ ہے جو صرف اردو ہی میں منفرد نہیں عربی، فارسی، ترکی اور دوسری اسلامی زبانوں میں بھی اس طرح ادب اس ذوق و شوق کی طویل نعت کم ہی ملے گی۔ میں نے کئی راتیں اس نعت پر قربان کر دیں اور پھر خالد احمد کو عمر میں میرے فرزند کی طرح ہے ، خط لکھ کر اعتراف کیا کہ میں عفت، ادب اور عشق کی راہ کا ایک سست رو، و اماندہ مسافر ہوں اورخالد احمد فرسنگ در فرسنگ آگے ، عشق رسول سے سینہ تاب، مشعل قبولیت لئے کھڑ ا ہے ۔
خالد احمد ادب کے سلیقے میں طاق ہے ۔ اس نے میرے اس عرض حال پر بڑ ی محبت اور دل سوزی سے احتجاج کیا۔ لیکن میری ایک کمزوری ہے میں جس بات کو دل سے سچ مانتا ہوں اس کا اعلان کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
میں نے خالد احمد کے تین مجموعوں میں شائع شدہ غزلیں اور نظمیں بڑ ے شوق اور بڑ ی وابستگی سے پڑ ھی ہیں ۔ خالد احمد جو جدید تر غزل اور جدید تر نظم میں بھی اپنی نسل کے شاعروں سے الگ، بہت دور، بہت اونچے مقام پر کھڑ ا ہے ۔ میں نے گزشتہ دو برسوں میں جدید تر شعرائے اردو کے کوئی ڈیڑ ھ دو سو مجموعے بڑ ی کاوش اور محنت سے دیکھے ہیں ۔ ایسا ایک شعر بھی کہیں نظر نہیں آیا۔
پلکوں کی ہتھیلیوں پہ خالد
یادوں کے چراغ جل رہے ہیں
آنسوؤں کو چراغ تو کلاسیک فارسی اور اردو شاعری میں بار بار کہا گیا ہے ۔ ستارہ بھی کہا گیا کہ آنکھوں میں آنسو اتریں تو ان میں ایک تاب سی، للک سی، صبح سے تا شام اور پھر شمعوں کی روشنی میں ساری رات دکھائی دیتی ہے ۔ لیکن اس شعر کے مصرع اول میں بالکل تازہ و نو بات آئی اور بہت سلیقے اور جمال کے ساتھ آئی۔ ایسا شعر کہنے والا اردو کی غزل کی main stream میں بھی بڑ ی قامت کا شاعر ہونے کا حق رکھتا ہے ۔ خالد احمد کی غزلوں میں ایسے اچھے بلکہ بہت اچھے ابیات فراواں تعداد میں ملتے ہیں ۔ خالد احمد کے ہاں تصوف کی وہ لہر ہے جو اردو کی بڑ ی روایت کی mystic شاعری سے مختلف ہے کہ اردو کے صوفی شعراء نے فارسی روایت کی اتباع کی۔ خواجہ میر درد اور میر تقی کے سوا سچے صوفی شعراء تو ہمارے ہاں بہت ہی کم ہیں کہ غزل کی بیشتر شاعری، حالی کے بعد، سچے باطنی کرب اور نشاط کے لمحوں سے بے بہرہ رہی ہے ۔ یاس یگانہ جیسا طرار شاعر بھی رفتگاں کی بات سے بات نکالتا ہے ۔ میر تقی میر نے کہا:
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
یاس یگانہ کے دو برتر اشعار اس شعر کا paraphrase ہیں ۔
علم کیا علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
یہ کنارا چلا کہ ناؤ چلی
کہئے کیا بات دھیان میں آئی
لیکن خالد احمد کا اپنا باطنی کرب اپنا mystic تجربہ ہے ۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسان کی راہ جبر و اختیار کے بین بین ہے ۔ خالد احمد اپنے اندر ڈوبا تو اسے یہی حقیقت اس کے چاروں طرف نظر آئی۔
میں کہ تھا شہر بندگی کا مکیں
قید میں بھی نہ تھا ، رہا بھی نہ تھا
کون سمجھے گا ایسا ربطِ لطیف
وہ مرا تھا ، مگر مرا بھی نہ تھا
اسی غزل میں ایک شعر ہے جس میں جذب اور احساس کی صداقت بھی ہے اور بیان کی تازہ کاری بھی۔
جل اٹھی میری پور پور مگر
ابھی میں نے اسے چھوا بھی نہ تھا
دوسرا بڑ ا شعر خالد احمد کے خیال کے قریب تر ہے ۔ لیکن اس میں بھی لمسیاتی کیفیت نہیں ہے ۔
ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں
پوروں کے جل اٹھنے کی کیفیت محبوب سے راست قربت کی بات ہے اور یہ سچا باطی تجربہ ایک پوری محسوس کیفیت بن کر سامنے آتا ہے ۔ یہ دو چار باتیں میں نے خالد احمد کی اس شاعری کی تہ داری کی نشاندہی کرنے کے لئے عرض کی ہیں جو ہماری ناصر کاظمی اور شکیب جلالی کی نسل کے بعد آنے والی جنریشن کا نقطۂ کمال ہے ۔ خالد احمد اسی روش پر خود کو قائم کر لیں تو بھی وہ اپنی نسل کے سب سے ممیّز، منفرد اور پائندہ تر شاعر تسلیم کئے جائیں گے ۔ وقت کا کڑ ا، بے لاگ، عادل نقاد، دستار فضیلت انہی کے سر پر رکھے گا۔ مگر خالد احمد کی شاعری کا خاص پیرایہ، اس کا خاص لہجہ، اس کی وہ فرہنگ ہے جو اسے بیسویں صدی کے ربع چہارم اور اکیسویں صدی کے ربع اول کا رودکی یا ولی دکنی بنا سکتی ہے ۔ اس کی ان نظموں میں ایک نیا جمال بیکراں امکانات کی تابانی لئے ہوئے جاذب دل و نگاہ ہے ، جو ’’مادھو لال حسین کے لئے ‘‘ کی قبیل کی ہیں ۔
خالد احمد اپنی دھرتی کے تصوف کو اپنے اندر رچا بسا لیں جو اب بھی ان کے اندر موجزن ہے ۔ وہ سلطان با ہوؒ، شاہ لطیفؒ، بلھے شاہؒ، میاں محمد صاحبؒ کی روایت سے اپنے فکر و وجدان کو ہم آہنگ کر لیں تو میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ ایک نئی اردو زبان کے خالق بھی مان لئے جائیں گے اور وہ ایسی سچی روحانی تجربات و مکاشفات والی شاعری کریں گے کہ مستقبل انہیں ، جدید تر اردو ادب کا عارف شاعر قرار دے گا۔
میں جس نئی اردو کی اختراع و ایجاد اور تشکیل و تکمیل کی تابناکی خالد احمد کے وجدان میں دیکھتا ہوں اس کو قاری کے ذہن نشین کرانے کے لئے خالد احمد کی نظم ’’مادھو لال حسین کے لئے ‘‘ سے کچھ چار مصرعوں پر مشتمل بند یہاں پیش کر رہا ہوں ۔ پانچواں بند ہے :
اہلِ غم کے محرم ، اہل درد کے سائیاں
ربّا کس در دیتے ، اہلِ ہجر دہائیاں
حسن کی دین محبت ، وصل کی دین جدائیاں
شیشوں سے تن کو دیں ، کتنی گھنی پرچھائیاں
اور یہ دیکھیں
نیم تلے سستایا ، چھاؤں کی چادر تان کے
خواب بھی دیکھ نہ پایا ، اک دلبر ، دل جان کے
دل کا خون سجایا ، نوک پہ ہر مژگان کے
جوگ طواف کر آیا ، جان کعبہ جان کے
اس کلام میں کوئی لفظ ایسا نہیں جو پنجاب کے لوگ، سرائیکی زبان بولنے والے ، ڈیرہ اسماعیل خان، میانوالی، ڈیرہ غازی خاں کے سرائیکی بولنے والے ، اہل سندھ، صوبہ سرحد کے ہندکو بولنے والے اور کوئٹہ، قلات کے بلوچ نہ سمجھتے ہوں اور دیکھیں کیسے شیریں لفظ ہیں ۔ آہنگ میں ، موسیقی کیسے جگمگا رہی ہے اور اب لہجہ ذرا زیادہ عمیق ہو رہا ہے ۔ دھرتی کی مہک تیز تر ہو رہی ہے اس لئے شیرینی لب دوز ہے ۔
پگ پگ رنگ اگائے ، چھب اک چنچل چال کی
بل کھا کر رہ جائے ، رنگلی کھیڑ ی کھال کی
پھول سیاہ کڑ ھے تھے ، گہری سرخ قمیص پر
اور سفید کڑ ے تھے ، گہری سرخ قمیص پر
چھوڑ کے لڑ باندھا تھا ، چو خاہ تہہ بند بھی
پھول سے تن پہ لگا تھا ، خوشبو کا پیوند بھی
اس خوشبو کے بہانے ، ذکر چلا عطارؒ کا
ذکر میں رنگ گھلا تھا ، بسطامیؒ افکار کا
آتش دان میں شاید ، گیلی تھیں کچھ گیلیاں
رقص کنا تھیں دھوئیں میں ، رانجھن کی اٹھکیلیاں
رانجھن ، سانول ، ڈھولا ، نام ہیں اہل مراد کے
رنگلے نور منارے ، شہر فراق نژاد کے
وصل میں بے مایہ تھے ، کیا ململ؟ کیا ڈوریا؟
نیند کا پیرایہ تھے ، کیا مخمل؟ کیا بوریا؟
اندر جمال یار کی خود آرائی فضا کو سجاتی ہے تو باہر نور کی یہ موج رواں ہو جاتی ہے ۔
رنگ کے انگ مہک تھی ، وصل کے انگ جدائیاں
ساتھ جوان ہوئے تھے ، لڑ لڑ بھائی لڑ ائیاں
روح جدا ہوئی تن سے ، تن سے الگ پرچھائیاں
سینہ کوب کناری ، نوحہ زن شہنائیاں
سکھیوں سنگ پٹولے ، بابل سنگ حویلیاں
راتیں ایک ترنجن ، باتیں گڑ کی بھلیاں
گیت فراق کے گائیں ، وصل کی رات سہیلیاں
کچھ بند بعد
ڈولا جھول رہی ہیں ، ڈولوں سنگ سہیلیاں
مائیں وداع کہیں گی ، بھر بھر نیں گھڑ ولیاں

ہر روحانی روایت ، عظیم انگریز شاعر نقاد میتھو آرنلڈ کے مطابق کسی بڑ ے المیے کے بغیر نا مکمل رہتی ہے ۔ ہماری روایت میں ابوالانبیا ابراہیمؑ کو آگ کے کنوئیں میں پھینکا گیا۔ اسماعیلؑ کی گردن پر ’’حکم رب کی تعمیل میں ‘‘ چھری چلا دی گئی۔ پھر اس روایت کا اتمام کربلا میں اہل بیتؑ کی اجتماعی شہادت سے ہوا۔ اس کا ذکر اس شاہکار نظم کا پس منظر ہے ۔ جو کہیں کہیں ، پیش منظر بن کر پھر اپنے اصل مقام پر آ جاتا ہے ۔ شاعر فقر کی کٹھن راہ پر لوٹ آتا ہے اور مراحل سفر بیان یوں کرتا ہے ۔
روح جدا کر تن سے ، تن سے الگ پرچھائیں
چورا چورا کر دے ، توڑ مروڑ کلائیاں
پلکیں نوچ لے سجناں ، آنکھ میں پھیر سلائیاں
کھال ادھیڑ دے لیکن ، طعنے مار نہ سائیاں
اب دیکھیں باطن اور ظاہر بہم ہوتے ہیں کہ عشق کی راہ ترک ترک ہے سو دنیا بھی قبول ہے ۔ کار دنیا بھی کرنا ہے اور باطن کی تہذیب و تربیت کا ، اسے اپنی باطنی آگ میں جلا کر، اہتمام بھی کرنا ہے ۔ نفس، عشق کی آگ میں جل کر کندن بن جاتا ہے تو نمرود کی آگ اندر کے نور میں جذب ہو کر پھول بن جاتی ہے ۔
جگ کیا؟ اور کلجگ کیا؟ دیر بھی ایک سویر تھی
عقبیٰ تھی ، سو ، قیامت ، دنیا تھی سو اندھیر تھی
دست حنا بستہ میں ، اک گل رنگ چنگیز تھی
چرچا سا چرچا تھا ، کاگ تھے اور منڈیر تھی
فقر آفاق کنارہ ، تن پاتال فقیر کا
ہر چٹکی آٹے کی ، پوچھے حال فقیر کا
گوری نمک ملا کر ، گوندھ سوال فقیر کا
آج کی رات نہ ہو گا ، حال بحال فقیر کا
جاہ و جلال نہ دیکھے ، حسن و جمال فقیر کا
تار دلوں کے چھیڑ ے ، دست کمال فقیر کا
پل ، درویش کے گھنگھرو ، دل ، کھڑ تال فقیر کا
باب قبول تک آیا ، دست سوال فقیر کا
باسی روٹی کھا لی ، تازہ پانی پی لیا
اجر عظیم کمایا ، خرقۂ بے طلبی لیا
کار عشق سے پل پل ، کار درویشی لیا
ہونٹ رفو کروائے ، چاک گربیاں سی لیا
دل دے کر دل مانگا ، روح وصال طلب رکھی
بیع ، حلال تھی ، کھا لی ، سود ، حرام تھا ، پی لیا
نام کرائے کا دے کر ، بات بٹائی کے ڈھب رکھی
سود ، کرائے کے تن میں ، سود ، بٹائی میں جی لیا
اب دیکھیں بکاؤ ادبیوں شاعروں نغمہ گروں کو اس نئی روایت تصوف میں کیسے ملایا ہے ۔
پل پل فکر تن کی ، کلک کدال بنا لیا
توڑ فصیل سخن کی ، بابِ زوال بنا لیا
پھونک دی بستی فن کی ، شہر کمال بنا دیا
شہرت زیبِ بدن کی ، چہرہ سوال بنا لیا
گٹھڑ ی خاک پہ دھر دی ، سر پہ سوال اٹھا لیا
غم اندوز دلوں کو ، زر اندوز بنا لیا
چھوڑ ی پاؤں کی مٹی ، شہر خیال بسا لیا
خرقہ سوز لبوں کو ، خرقہ دوز بنا لیا
خالد احمد دشت دروں کا مسافر بھی ہے اور ایک کامل ضابطہ اقدار کا، حیات اجتماعی میں امین اور محافظ بھی۔ سو اب نوع انسانی کی خیر کامل کا خیال، ساری نظم کا climax بن کر آتا ہے ۔ کہ اندر باہر سب کے سب ہمہ خوشبو، ہمہ رنگ، ہمہ خون مقامات ایک کل میں ضم ہو جانا چاہئیں ۔
خون سے جلتے چہرے ، تن میں سلگتی ہڈیاں
سانول ویہڑ ے آیا ، دیکھوں چک چک اڈیاں
اچھی ہوں مندی ہوں ، ڈھولن یار کی مانگ ہوں
بندے کی بندی ہوں ، اک دلدار کی مانگ ہوں
دیکھ چمک آنکھوں کی ، منہ سے کہیں رنجور کیا؟
رو بہ عمل بھی ہو گا ، آئین جمہور کیا؟
اصل اصول کہے کچھ ، اور کہے دستور کچھ
چند سفر آمادہ ، اور تھکن سے چور کچھ
گھر گھر اچھل رہی ہے ، موج تنور خون کی
قمری چونچ میں لائے ، اب ٹہنی زیتون کی
یہ لچکیلی ٹہنی ، پتھر ہو بنیاد کا
ایک نئی ہستی کا ، شہر نو آباد کا
ایک نئی دنیا کا ، ایک نئے انسان کا
ایک نئی دانش کا ، ایک نئے امکان کا
رانجھن ، سانول ، ڈھولا ، نام ہوں اک انسان کے
ساتھ دلوں کے دل ہوں ، اور زبان زبان کے
خالد احمد آج کا ، اسلامی تصوف کا داعی شاعر ، اللہ سے اپنے آقاؐ کے تصدق، ایک نئی دنیا کی تشکیل کی بھیک مانگتا ہے ۔ جہاں نوع انسانی ایک وحدت ہو گی۔ عدل و احسان کے اصول پر مبنی عالمی معاشرہ ہی نوع انسانی کے سفر کی تکمیل ہے ۔ ہمارے مستقر الیٰ حین کا ideal! یہاں دلوں اور زبانوں میں ہم آہنگی ہو گی۔ رانجھا، سانول، اللہ، رب، رحیم، رحمان سب ایک ہی محبوب کے نام اور اس کی شانیں ہیں اور اس اللہ کے ماننے والے فقیر قافلہ وحدت انسانی کے ساربان ہیں ،
دل بہ یار ، دست بہ کار
یہ میرے نزدیک خالد احمد کے فکر و خیال، جذبہ و وجدان کی اصل دنیا ہے ۔ وہ کیسا با کمال، کیسا نادر اسلوب رکھنے والا، لفظوں کا صورت گر ہے ؟ یہ آپ نے ان مثالوں سے دیکھ لیا۔
میں سمجھتا ہوں خالد احمد کا اصل پیرایہ اظہار یہی ہے جو ’’مادھو لال حسین کے لئے ‘‘ میں اس حسن، اس مہکتے تجمل سے ، دل کو اپنی نرم حریری گرفت میں لے لیتا ہے ۔ اب تک خالد احمد نے جو لکھا ہے اس کی بنا پر وہ ہر اعتبار سے جدید تر نظم و غزل کا منفرد نمائندہ ہے ۔ خدا اسے طبیعی عمر تک صحت و سلامتی کے ساتھ پہنچائے تو ابھی اس کے پاس کم از کم دو ڈھائی عشرے اور ہیں ۔ وہ امکانی طور پر ہماری نئی قومی زبان کا پہلا بڑ ا شاعر ہے ۔ وہ نئی قومی زبان جو اردوئے معلی اور سرائیکی بولی کا آمیزہ ہو گی یعنی میر تقی میر، نظیر اکبر آبادی، مرزا غالب اور مرزا داغ کی رواں اردو اور سلطان با ہوؒ اور بلھے شاہؒ کی شعری فرہنگ کا آمیزہ۔ اس آمیزے نے خالد احمد کے وجدان میں پوری جگہ بنا لی ہے ، ایک مکمل زبان کی حیثیت سے !
’’دراز پلکوں کے سائے سائے ‘‘ میں خالد احمد کے خاص لہجے ، لفظیات اور نئی فرہنگ کا جمال اس کی نظر تاب رعنائی با ذوق قاری کے دل و جان پر محیط ہو جاتی ہے ۔
خالد احمد نے اپنی سر زمین کی علاقائی زبانوں کے صوفی شعراء کے کلام کو ڈوب کر پڑ ھا۔ اسے اپنی جان میں رچا لیا۔ سو وہ پنجابی لغت سے منزہ نظموں اور غزلوں میں بھی اکثر اردوئے معلے کے بجائے ایسی زبان استعمال کرتا ہے جس میں سلطان با ہوؒ اور میاں محمدؒ کا لہجہ نمایاں ہے ۔ اس لہجے میں شیراز و اصفہان کی، لکھنؤ اور دلی کی نہیں وسطی پنجاب کے دیہات کی پھول رت کی تازہ مہک ہے ۔
دکھ انگور کی بیلیں ہیں ، یہ پھلنے دو
سکھ کے پل بھی کھنچ آئیں گے ، سورج ڈھلنے دو
اپنی شعری روایت سے آگاہ قاری کا دل گواہی دے گا کہ یہ خالص اردو ہے مگر نہ مرزا سودا، خواجہ آتش، مومن اور غالب کی زبان ہے نہ نظیر اکبر آبادی کی کہ اس عظیم شاعر کی زبان میں گنگا جمنی دو آبے کی دھرتی کی، اس کی رتوں کی باس ہے جبکہ خالد احمد کی خالص اردو راوی چناب دو آبے کی فضا میں پلی بڑ ھی ہے ۔
میں نے خالد احمد کی طویل نعتیہ نظم کا ذکر اس مختصر سے تعارف کے آغاز میں کیا۔ وہ نظم بھی خالص اردو میں ہے ۔ خالد احمد کے اندر نمو پانے والی اردو میں یہ منفرد نعتیہ قصیدہ مرزا سودا اور شیخ براہیم ذوق کے قصائد کی format میں نہیں ۔ روی کی غزل کے مانند ہے ۔ بہار، رخسار، بیوپار، گلنار، اس زمین میں ہندی بحر فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل میں آتے ہیں ۔ اب اس قصیدے کی تشبیب کا پہلا بند دیکھیں ۔
سرخ ہوئے ، پھر نورِ نمو سے ، پھولوں کے رخسار
عکسِ جمال یار سے ٹھہرا ، ہر چہرہ گلنار
محمل گل سے پاؤں نکالا ، رات کی رانی نے
رخنہ رخنہ رچ رچ اتری ، دیواروں کے پار
قدم قدم خوشبو کے الاؤ ، پھر سے ہوئے روشن
گل گھوروں پر ، پھر سے لگے ہیں ، رنگوں کے انبار
اک خوشبو سے مہک رہے ہیں ، آئینہ خانے
زینہ زینہ ، نس نس ، اتری ، چاہت کی مہکار
قصد مدح کئے بیٹھا ہے ، پھر خالد احمد
شان خدا! خوشبو کے کنگن ، ڈھالے گا لوہار
خالد احمد کی جس خاص خو نے اسے میرے دل سے بہت قریب کر دیا وہ خدا کے رسولؐ کے حضور اس کی بے پایاں عاجزی ہے ۔ وہ تصور میں تجلی ذات کو جھلمل دیکھتا ہے خود کو سرور کونینؐ کے قدموں میں پاتا ہے تو ہمہ ادب ہو جاتا ہے ۔ انا سے خالی! اپنے نفس کو اپنی محبت میں گم کر دیتا ہے ۔ یہ ترک ذات بہ حضور رسالت مآبؐ، خالد احمد سے پہلے بہ حد کمال صرف ہمارے عظیم عارف شاعر علامہ اقبالؐ کے ہاں نظر آتا ہے ۔ اوپر منقولہ پانچ ابیات کے آخری بیت کا مصرع ثانی میرے اس معروضے کی روشنی میں دیکھیں ۔ وہ خود کو پورے خلوص پوری سچائی سے مدحت رسول کے معاملے میں یکایک کم زبان محسوس کرنے لگتا ہے ۔ مدحت رسولؐ کامل جوہری کا فن چاہتی ہے اور وہ تو لوہار ہے ۔ مجھے یہاں لفظ لوہار بہت خوبصورت نظر آیا اور اس لوہار سے مجھے ایک روحانی لگاؤ اپنے اندر لو دیتا محسوس ہونے لگا۔
یہ لفظیات، یہ اسلوب ہر اعتبار سے معیاری ہے ۔ خالص اردو ہے ! مگر یہ اردو صرف پاکستان کی دھرتی سے ایک بیدار دل، تازہ فکر تخلیق کار سے دل تک پہنچ کر ایک نئی زبان بن سکتی تھی۔ ایسی زبان جو بہت تہ دار بہت وقیع، بہت نرم و نازک جذبوں اور خیالوں کو جگمگاتے لفظوں کا لبادہ عطا کرنے کی پوری توفیق رکھتی ہے ۔
مالکِ یوم الدین سے مانگ تو دین بھی دنیا بھی
اس کے دم سے تھل کو جل تھل کر دے ، رود بہار
اب منظر نگاری کایہ بالکل نیا نکور انداز دیکھیں ۔
وہی الاؤ پھولوں کے ، دہکائے چار طرف
وہی تپش کو رنگ بنائے ، لپٹوں کو مہکار
وہی ہوا کے تار میں گوندھے ، پانی کے موتی
پل پل لرزاں رکھیں اسی کے ہاتھ ہوا کے تار
خالد احمد، فرواں دولت سے پھوٹنے والے دھوئیں اور گرد میں لپٹے شہر، لا ہور میں رہتا ہے ، مگر اس کی رو ح، اس کا وجدان لکھنؤ کی ساری جمالیاتی اور لسانی روایت کو لئے چناب کے آس پاس لہلہاتے کھیتوں کی فضامیں مست رو، ہمارے اللہ والے فقیر، پنجابی شاعروں کی کندن جیسی نکھری ہوئی درویشی کی ریت سے سرخوش، اردو شاعری کو ایک نئے آہنگ، ایک نئے مزاج، ایک نئی صداق اظہار سے enrich کر رہا ہے ۔ جیسا کہ میں نے اپنے محترم اور بزرگ دوست قاسمی صاحب کے نام اپنے خط میں عرض کیا تھا جو انہوں نے خالد احمد کی پچاسویں سالگرہ پر منعقدہ اجلاس میں اپنے خطاب میں نقل کیا۔ یہی نئی فرہنگ، یہی ’’دراز پلکوں کے سائے سائے ‘‘ ’’نعتیہ قصیدے ‘‘ اور ’’مادھو لال حسین کے لئے ‘‘ والا اسلوب، کہیں پنجابی اور اردو کا آمیزہ، کہیں چناب کے پانی سے نمو پانے والی خالص اردو اور عشق خدا اور حب رسولؐ کے مقامات شوق۔ خالد احمد کے منفرد وجدان کی دنیا ہیں ۔ یہی نکھرتے نکھرتے تہذیب شوق، تربیت نفس اور ضبط نوا کی سان پر مسلسل چڑ ھتے ، تیز سے تیز تر ہوتے ، ایک دن خالد احمد کو صاحب عہد شاعر کے منصب رفیع پر فائز کر دیں گے ۔
اس مختصر مجموعے میں ایک طویل نظم ’’ہوا مغرب کی بیٹی ہے ‘‘ اور چند غزلیں شامل ہیں ۔ میں نے انہیں وقفہ وقفہ سے رک رک کر پانچ چھ دفعہ پڑ ھا ہے ۔ ہر بار ایک نئے کیف کی، ایک تازہ دھیمے میٹھے دکھ کی لہرنے ، مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایک متنوع جوہر، ایک فطری ہنر مندی نے ایک ان دیکھا جمال میرے حیطۂ جاں پر بچھا دیا۔ سرور کی بیکراں جھیل ہے ، جس میں لطیف نازک موجوں کے نرم نرم ہلکورے ہیں اور میں ان ہلکوروں میں غلطاں اپنے اندر ایک ایسی سرخوشی محسوس کر رہا ہوں جو میں نے برسوں سے محسوس نہیں کی تھی۔ خالد احمد کی طویل نظم اور سب کی سب غزلوں پر اس کے خالصتہً اپنے دائمی دکھ سکھ بہم آمیز ہیں ۔ زبان خالص اردو ہے ۔ ہمارے دو آبے کی خالص اردو۔ جس کی نوک پلک خالد احمد نے سنور دی ہے ۔ ایک بڑ ے تخلیق کار کی طرح اور جو بات وہ کہہ رہا ہے وہ بھی میاں صاحبؒ اور شاہ ہاشم صاحبؒ اور سلطان با ہو صاحبؒ ہی کے مزاج کی نہیں ۔ حضرت شاہ عبدالطیفؒ بھٹائی کی ’’سرماروی‘‘ سرسورہ اور سرکدارا کی دلنواز موسیقی سے بھی ضوتاب ہے ۔ میں کوئی شعر کوئی بند نظم کا یہاں بطور مثال پیش نہیں کروں گا۔ کہ سارا کلام انتخاب ہے ۔ میں نے اوپر جو کچھ لکھا وہ پہلی کتابوں کے مطالعہ کا حاصل تھا۔ یہ مجموعہ مجھ سے میرے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہہ رہا ہے کہ دیکھ لو خالد احمد اس رفعت پر پہنچ گیا ہے جو تمہارے تصور نے اس کے زیر قدم دیکھی تھی۔
خالد احمد اس باطنی دنیا کو اپنے قاری کے سامنے لا رہا ہے جو میرا دشتِ نجد بھی ہے ۔ یہ کیسا عجیب کرشمہ ہے کہ وہ مجھ سے اتنی دور بیٹھا روز روشن میں مجھے وہ تماشا سر عام دکھا رہا ہے جو میں راتوں کی تنہائی میں اپنے اندر دیکھتا ہوں ۔ اللہ اسے سلامت رکھے ۔ کہ جو نیم سوز آگ میرے دل میں سلگ رہی ہے میں نہیں ہوں گا تو وہ اس سے گل و لالہ و نسترن کی بہار سجائے گا۔ اللہم زد فزد!
ہاں ابھی ایک بات کہنا باقی ہے ۔ خالد احمد کے مجموعے ’’ایک مٹھی ہوا‘‘ میں ایک مثنوی ہے مجموعے کی penul timate آخری سے پہلی نظم۔ چھوٹی بحر فاعلاتن، مفاعلن، فعلن میں 159 ابیات پر مشتمل یہ مثنوی اس امر کا روشن ثبوت ہے کہ خالد احمد پر فن شاعری آسان ہو گیا ہے ۔ وہ قادرالکلامی کی نہایت تک پہنچ گیا ہے ۔ تین چار ابیات کے سوا باقی تمام ابیات میں اتنی مختصر بحر میں بھی قافیہ اور ردیف کا نہایت چابکدستی سے التزام کیا گیا ہے ۔ کہیں کہیں ردیف قافیہ در قافیہ کے بعد آئی ہے ؂
بند پیراہن تماشا کھل ، اے در گلشن تماشا کھل
یہاں ردیف طویل ہے اور ردیف سے پہلے ’’فاع‘‘یا ’’فاعلا‘‘ کی گنجائش تھی، جس میں شاعر موتیوں جیسے لفظ لایا ہے ۔ لمبی ردیفیں سو (100) سے کم نہیں ہوں گی۔
تم تھے شہر ہنر میں آسودہ ، ہم تھے کسل سفر میں آسودہ
پا پیادہ برہنہ پا ہم تھے ، زینتِ جادۂ ہوا ہم تھے
اور
نور صبح امید کے مالک ، اے سیاہ و سپید کے مالک
تیرے مانند کون ہے میرا ، اے خداوند کون ہے میرا
لیکن ایک بیت میں دو قافیہ ردیف کے ساتھ بھی جا بجا آئے ہیں ۔
دودۂ یار کی دمک دیکھی
غرفۂ یار کی چمک دیکھی
اور
چار سو تھا ہجوم رعنائی
کون چنتا نجوم دانائی

یہاں تین تین قوافی مصرعوں میں ہیں ۔
اور یہ دیکھئے قوافی ردیف سے پہلے یوں بھی آئے ہیں ۔

تار غم بارِ جاں تھا کاٹ دیا
پیار اندھا کنواں تھا پاٹ دیا
میں نے ہفتاد چہار برس کی عمر طویل میں فارسی اور اردو میں کوئی مثنوی نہیں دیکھی نہ بحر طویل میں نہ چھوٹی بحر میں جس میں کسی بڑ ے سے بڑ ے شاعر نے اپنے اوپر یہ پابندی عائد کی ہو کہ ہر بیت قافیہ ردیف کے ساتھ آئے گا۔
تو میرا کہنا یہ ہے کہ خالد احمد نے یہ پابند نظم یعنی مثنوی اس چھوٹی بحر میں قافیہ اور ردیف کے التزام سے لکھ کر ثابت کر دیا کہ وہ شاعری کے فن کا بہت بڑ ا استاد ہو گیا ہے اور یگانہ دوراں قادرالکلام ہے ۔
اور اب میں ایک بات کہنے لگا ہوں جو حرف تنبیہہ بھی ہے ۔ میں اس مثنوی کی فنی قدرت اور یکتائی میں ایسا کھو گیا کہ مناجات کے خلوص، اس کی روح اور شاعر کی عاجزانہ دعا کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئی۔ میں اس شاعر سے کہنا چاہتا ہوں کہ خالد احمد صاحب آپ نے اپنی بے مثل مہارت فن ثابت کر دکھائی ہے ۔ آپ پر اردو شاعری کی ہر صنف اب آسان ہو گئی ہے ۔ آپ کے لئے میں وہ بات کہہ رہا ہوں جو ایک معتبر انگریز نقاد نے رواں صدی کے چوتھے اور پانچویں عشرے کے اہم ترین انگریزی زبان کے شاعر dylan thomas کے بارے میں کہی تھی۔ he has got the better of language at the poetic idiom میں یہ بھی کہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ خالد احمد صاحب،
(you have made your point!)
فن شاعری میں آپ کے ہم عصروں میں آپ کا کوئی حریف نہیں ۔ آئندہ بہت دنوں تک بھی کوئی نہیں ہو گا۔ اب اپنی قدرتِ کلام پر پابندیاں عائد کرنے کا وقت ہے ۔ اس صبا رفتار اشب کو بریک لگا دیجئے ۔ اس مثنوی کے بعد ایک بہت چھوٹی سی نظم ہے ۔ ’’عصر‘‘ صرف سات شعر کی نظم ہے ۔ بہت زیر لب ہے سادہ ہے اور خالد احمد صاحب وہ نظم تیر نیم کش کی طرح میری روح میں پیوست ہو گئی۔ میں آپ کے قاری کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس بہت بڑ ی نظم کو میری نظر میری وح کی سچائی کے ساتھ پڑ ھے اور دیکھے کیسے ایک ایک مصرع پورا جہان معنی لئے آنے والے مصرعے میں مل جاتا ہے ۔ اور پھر بات ایک نیم رس حزن کے ساتھ یہاں تک پہنچتی ہے ۔
یہ رات آنکھوں میں کٹ نہ جائے
یہ ذات ٹکڑ وں میں بٹ نہ جائے
آپ نے سات اشعار میں اپنے عصر کی ایسی تصویر کھینچ دی ہے جو حساس دل و جاں پر دھیمے درد کی دیرپا میٹھی کسک بن کر محیط ہو جاتی ہے ۔
آپ نے اس عصر کی ظلمت آفرنیوں اور کرب انگیزوں کو اس طرح سمیٹا ہے کہ یہ نظم ایک ایسی ہوک بن گئی ہے جو تاریخ ادب کے گنبد میں ہمیشہ گونجتی رہے گی۔ اور دیکھئے کوئی طمطراق نہیں ، کوئی قادرالکلامی کا مظاہرہ نہیں ۔
آخری شعر یوں ہے جیسے کسی عظیم المیہ تمثیل کی آخری خود کلامی ہو۔ آپ میرے دل سے بہت قریب ہیں ۔ اگر لہجے میں وعظ ابھرتا دکھائی دیا ہو تو معاف کر دیجئے ۔ اب آپ اپنے شعری سفر کے دورا ہے پر پہنچ گئے ہیں ۔ اب اصل چوکسی کا وقت آیا ہے ۔ اب آپ کے ظرف کا امتحان درپیش ہے ۔ اب منزل کمال تک پہنچنا ہے ۔ تو ہر قدم ضبط نوا سے کام لینا ہو گا۔ یہاں ایک بہت بڑ ے موسیقار کی بات یاد آ گئی۔ پٹیالے والے استاد عاشق علی خان مرحوم اپنے زمانے کے سب سے بڑ ے استاد تھے ۔ لے اور سر پر اتنی قدرت تھی کہ جہاں بڑ ے بڑ ے استاد اپنا گانا ختم کرتے تھے وہ اس درت لے سے شروع کرتے تھے ۔ کم ہی کوئی طبلہ نواز اور سارنگی نواز ان کے ساتھ سنگت کر پاتا تھا، مگر وہ طبعاً فقیر تھے ۔ ایک رات گانجا پی کر لا ہور کے تکیہ سادھواں میں سو گئے ۔ صبح سویرے ایک فقیر ادھر سے گاتا گزرا۔
’’اٹھ فریدا ستیا جھاڑ و دے مسیت ، توں ستا رب جاگدا تری ڈاھڈے نال پریت‘‘
استاد کی آنکھ اس دل گیر سچے سر سے کھل گئی۔ ایک بیت سنا اور سامنے پڑ ی راکھ اٹھا کر سر پر ڈال لی اور ہاتھ اٹھا کر کہا۔ مولیٰ ایسا سچا سر مجھے کیوں نہ دیا۔ جو تونے اس فقیر کو دے دیا۔
تو خالد احمد صاحب اب آپ کا جوہر آپ کے اندر پنہاں major شاعر وہ سچا، وہ سادہ، ہمہ جمال، ہمہ اختصار بیاں چاہتا ہے جس کی نشان دہی ’’دراز پلکوں کے سائے سائے ‘‘ اور ’’مادھو لال حسین کے لئے ‘‘ اور طویل ’’نعتیہ قصیدے ‘‘ اور اس مختصر نظم ’’عصر‘‘ میں اتنی صراحت سے ہو چکی ہے ۔ یہی آپ کا جادۂ عظمت ہے ۔ ہر قدم اسی پر اٹھے ۔ مشکل بات سادگی سے ، عاجزی سے ، کم سے کم لفظوں میں کہی جائے ۔ مولوی کی طرح، میر تقی میر اور مرزا غالب کی طرح، میاں محمد صاحبؒ اور شاہ عبدالطیفؒ کی طرح، اب میں اپنی زبان میں نہیں اپنے مرشد کی زبان میں آپ سے ایک نکتے کی بات کہہ کر اپنی یہ گزارش ختم کرتا ہوں ۔

آنکہ در افلاک رفتارش بود
بر زمیں رفتن چہ دشوارش بود
 
Top