کاشفی
محفلین
غزل
(اقبال اشہر)
نئے موسموں کی کوئی خوشی، نہ گئی رُتوں کا ملال ہے
تیرے بعد میری تلاش میں کوئی خواب ہے نہ خیال ہے
وہ چراغ ہوں کہ جسے ہوا نہ جلا سکی نہ بجھا سکی
میری روشنی کے نصیب میں نہ عروج ہے نہ زوال ہے
یہ ہے شہرِ جسم وہ شہرِ جاں، نہ یہاں سکوں نہ وہاں سکوں
یہاں خوشبوؤں کی تلاش ہے وہاں روشنی کا سوال ہے
وہ جو فاصلوں میں تھیں قربتیں، یہ جو قربتوں میں ہیں فاصلے
وہ محبتوں کا عروج تھا، یہ محبتوں کا زوال ہے
(اقبال اشہر)
نئے موسموں کی کوئی خوشی، نہ گئی رُتوں کا ملال ہے
تیرے بعد میری تلاش میں کوئی خواب ہے نہ خیال ہے
وہ چراغ ہوں کہ جسے ہوا نہ جلا سکی نہ بجھا سکی
میری روشنی کے نصیب میں نہ عروج ہے نہ زوال ہے
یہ ہے شہرِ جسم وہ شہرِ جاں، نہ یہاں سکوں نہ وہاں سکوں
یہاں خوشبوؤں کی تلاش ہے وہاں روشنی کا سوال ہے
وہ جو فاصلوں میں تھیں قربتیں، یہ جو قربتوں میں ہیں فاصلے
وہ محبتوں کا عروج تھا، یہ محبتوں کا زوال ہے