جاسمن
لائبریرین
محمد عبدالرؤوف نے غزل بھی کہہ لی۔ مشاعرے میں بھی شریک ہو گئے۔ اور تو اور غزل اردو محفل میں شائع بھی کر دی۔ یعنی غضب پہ غضب کر دیا۔ ہماری "حاسدی" (ظہیراحمدظہیر بھائی! لغت میں اضافہ تو ہم جیسے عالم فاضل لوگ کر ہی سکتے ہیں ناں!) طبیعت بے قرار ہو گئی۔ یعنی کہ ہم نہ غزل کہہ سکے۔ نہ مشاعرے میں شریک ہو کے داد و تحسین کے ڈونگرے وصول کر سکے اور ظاہر ہے کہ جب غزل نہیں تو پھر شائع کیا کرانا تھا۔
حق ہا!
بس اب اپنے حسد کے سبب محمد عبدالرؤوف کے اشعار کا تیاپانچہ کرتے ہیں۔
ناآشنا سا دیکھتا ہوں بام و در کو میں
پاتا ہوں اجنبی سا ترے بعد گھر کو میں
بھابھی میکے چلی گئی ہیں۔ شنید ہے کہ انھیں شوہر کی غزل کہنے، مشاعرے میں شرکت، غزل کی اشاعت جیسی "مشکوک" سرگرمیوں پہ اعتراض ہو گا۔ اب ان کے چلے جانے کے بعد بام اور در ناآشنا لگ رہے ہیں رؤف بھائی کو۔ گھر اجنبی محسوس ہو رہا ہے۔ اصل میں غصے میں بھابھی بغیر کھانا بنائے چلی گئی ہیں اور اسی لیے گھر اجنبی لگ رہا ہے۔ بام و در تو چلو ناآشنا لگتے ہیں رؤف بھائی کو لیکن انھوں نے باورچی خانے کی بات کہیں نہیں کی۔ نہ نعمت خانے کا تذکرہ ہے۔ سو اس اجنبی اجنبی لگنے کی کیفیت میں بیچارے کھانا خود بنانے کا سوچ رہے ہیں۔
یوں چل رہا ہے ایک زمانے سے سلسلہ
وہ مجھ کو آزماتا ہے، اپنے جگر کو میں
حق ہا!
اوہ ہو!
Alas!
چہ چہ!
وغیرہ۔۔۔۔
یعنی یہ بار بار روٹھ کے میکے جانے کا سلسلہ کوئی تازہ تازہ نہیں ہے۔ اردو محفل پہ مصروفیت نے پہلے بھی کئی بار بھابھی کو میکے چلے جانے پہ مجبور کیا ہے۔ بھابھی رؤف بھائی کو بار بار آزماتی ہیں اور رؤف بھائی اپنے جگر کو آزماتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آئی کہ جگر کو کیوں آزماتے ہیں؟ ظہیر بھائی نے بھی اصلاح کرتے ہوئے یہ نکتہ فراموش کر دیا۔ اور استاد محترم جناب الف عین نے ہو نہ ہو مروت سے کام لیا ہے۔ کیونکہ جب بھابھی میکے جاتی ہیں اور ایک زمانے سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ جبکہ سونے پہ سہاگہ رؤف بھائی کو کھانا بنانا نہیں آتا تو جگر نہیں، معدے کی آزمائش ہوتی ہے۔ کمال ہے بھئی۔ یعنی اب رؤف بھائی معدے کا کام جگر سے لیا کریں گے؟
غضب ہے بھئی غضب۔
اچھا یہاں شاعر نے ایک اور سوال کی جانب توجہ مبذول کرا دی ہے کہ شاعر آخر دل اور جگر ہی کی بات کیوں کرتے ہیں۔ دیکھیں دل کے ساتھ اگر کوئی ساتھی ملا کر مرکب لفظ ہی بنانا ہے۔ مطلب ترکیب بنانی ہے۔ مطلب ساتھی ساتھی الفاظ بنانے ہیں تو دل و معدہ ہی ٹھیک لگتے ہیں۔ دیکھیں بھئی میرے پاس اس کے حق میں دلائل ہیں۔
دل کا روگ (جو شاعروں کو اکثر لگ جایا کرتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ طبی روگ نہیں ہے، طبعی ہے البتہ)۔ تو دل کے روگ میں اکثر محبوب لفٹ نہیں کراتا اور شاعر/عاشق (دونوں کو ایک ہی سمجھنا چاہیے) محبوب کی بے التفاتی کے سبب کھانا چھوڑ دیتا ہے۔ یہاں آپ کھانا پینا نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ وہ صرف کھانا چھوڑتا ہے(لیکن مشاعروں میں اگر کھانے کو کچھ مل جائے تو نہیں چھوڑتا) لیکن پینا کسی صورت بھی ترک نہیں ہوتا۔ اس پینے میں خون جگر(عدو کا) پینے سے لے کے سگریٹ، بوتل(ہر "قسم" کی)، چائے وغیرہ وغیرہ شامل ہے۔ شاعر آخر ذہین انسان ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا چھوڑنے سے بندہ جلدی نہیں مرتا۔ کچھ دنوں تک لوگ ترلے منت کر کے کھلا دیا کرتے ہیں۔ لیکن پینا چھوڑنے سے موت کے علاؤہ بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
جی تو بات ہو رہی تھی۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ کھانے پینے کا تعلق مکمل طور پہ معدہ سے ہے۔ سو دل کے ساتھ معدہ کا تعلق بنتا ہے، جگر کا نہیں۔
ایک تو اردو محفل پہ مردوں کا قبضہ ہے۔ اس لڑی میں ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے ورنہ اگر ہمیں اصلاح سخن کے زمرے میں بطور استانی جگہ دی جاتی تو ہم کشتے پہ پشتے لگا دیتے۔ ہر غزل کو پاس کرتے۔ پاس نہ ہو رہی ہوتی تو رعایتی پاس تو کر ہی دیتے۔ لیکن کیا ہے کہ ہر طرف مردوں کا طوطی بول رہا ہے۔ منتظمہ بھی بنتے تو بھی استانی کا کردار نہ چھوڑتے۔ ہر زمرے کو اسلحہ خانہ بنا دیتے۔ (اوہ ہو معذرت۔ ٹائپو ہو گیا۔ اسے اصلاح خانہ سمجھیں)۔ اب یہی دیکھیں کہ اگر ظہیر بھائی اصلاح کرتے ہیں تو ان کے ساتھ صلح بندہ کیسے کرے؟ میرے جیسی بندی آئے تو نئے نئے الفاظ و تراکیب پہ مشتمل نئی لغت وجود میں آئے ۔ ظہیر بھائی ہر نئی تبدیلی کے خلاف ہیں۔ اسی لیے عمران خان کو انھوں نے اتار کے دم لیا۔ خیر یہ تو جملہ نادہندہ تھا۔
تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
پھر کیا کروں اٹھا کے بھی تیغ و سپر کو میں
یا
ہے جس عدو کا تیرِ نظر دل کے آر پار
آگے اُسی کے کیا کروں تیغ و سپر کو میں
لیں جی یعنی کہ کر لو گل!!
بھابھی کو دشمن جاں بنا دیا۔ عدو بنا دیا۔ پھر کنفیوز بھی ہو گئے ہیں۔ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ بھابھی دشمن جاں ہیں یا عدو ہیں۔
اب پوچھ رہے ہیں کہ پٹڑی اور بیلن کو اٹھا لوں؟ روٹی تو بنانی نہیں آتی۔ اٹھا بھی لوں تو فائدہ کوئی نہیں۔ اور اگر ان کے آگے بھی رکھ دوں تو روٹی انھوں نے بھی نہیں بنا کر دینی۔
بھولے سے اس کا نامہ مرے نام آ گیا
اب خط کو چومتا ہوں کبھی نامہ بر کو میں
حق ہا!
موبائل اور دیگر گیجٹس کے زمانے میں رؤف بھائی یہ کیا کر رہے ہیں! یہ شعر سرے سے غلط شمار ہو گا۔ ہونا یہ چاہیے تھا۔
بھولے سے ان کی میل میرے نام آ گئی
اب میل کو چومتا ہوں کبھی کمپیوٹر کو میں
دیکھیے جدید دور آ چکا ہے(شاید ابھی آپ کو پتہ نہ چلا ہو) اب جگر، نامہ بر وغیرہ کے ساتھ کمپیوٹر بھی ہم قافیہ لفظ ہو سکتا ہے۔
اب یہ اتنا آسان شعر ہے کہ اس کی تشریح بھلا کیا کریں!
بے داد ہی رہی ہے چمن میں ہر اک فغاں
رویا کیا اگرچہ تو ہوں عمر بھر کو میں
شاعر نے چمن سے مراد اردو محفل لی ہے اور اپنے ہر شعر کو فغاں کہہ رہے ہیں۔ کیا خوب ترکیب ہے بھئی! یعنی کہ شعر کہنے کو رونا شمار کرتے ہیں۔ واہ بھئی واہ! یہ ہوا ناں استعارہ۔ کیا استعاراتی شعر ہے!
بہت خوب!
واقف نہ ہو وہ آنکھ تغافل کے قہر سے
اک عمر سے تڑپتا ہوں جس کی نظر کو میں
تغافل اصل میں نبیل بھائی ہیں اور شاعر جب سے اردو محفل کی زینت بنا ہے، نبیل بھائی سے بات کرنے کو تڑپ رہا ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان کی یہ تڑپ ہمیشہ تڑپتی ہی رہے گی۔(واہ! کیا فقرہ لکھا گیا۔یعنی کہ واہ بھئی واہ)
سر خاک خاک کر لیا، خوں میں نہا گیا
در پر جو اس کے پھوڑتا تھا اپنے سر کو میں
یہ بھی نبیل بھائی کے لیے ہے۔ رؤف بھائی نے محفل گردی کر کر کے سر خاک زدہ کر لیا(ضرور اس لڑی میں چلے گئے ہوں گے) لیکن یہ شعر اگر نبیل بھائی کے لیے ہے تو شاعر شاید جانتا نہیں ہے کہ ڈاکٹر محفل میں دو ہی ہیں۔ ایک ظہیراحمدظہیر اور دوسرے فاخر رضا فورآ ان کی کسی لڑی میں چلے جانا چاہیے تھا۔ مرہم پٹی تو ہو جاتی۔ لیکن ظہیر بھائی جیسا ظالم بھی بھلا کون ہو گا! بجائے مرہم پٹی کرنے کے خوب خوب زخم کریدے ہیں۔
اُس ماہ رو کا جس نے فزوں تر کیا غرور
ہر آن کوستا ہوں اُس آئینہ گر کو میں
اللہ اکبر!
یعنی کہ شہر کے سب بیوٹی پارلروں کے خلاف ہے شاعر۔ اب ظاہر ہے کہ یہ نہیں معلوم کہ محبوب کس بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر آئی ہے(اب سے محبوب کو خالی مذکر بتانا بند)۔ توبہ توبہ! رؤف بھائی نے تو پرانے محلے کی خواتین کی طرح جھولیاں بھر بھر کوسنے دینے شروع کر دیے ہیں۔ توبہ توبہ!
جس کے سبب ہوا ہوں میں آمادہء سخن
اُس پر ہی وارتا ہوں متاعِ ہنر کو میں
لیں جی آخر میں قرعہ بھابھی کے نام ہی نکلا۔ شاعر نے ان ہی کے لیے شاعری کی اور ساری شاعری بھی ان ہی پہ وار دی۔ اب کوئی پوچھے کہ وارنا ہو تو بندہ نوٹ شوٹ وارے کہ محلے کے بچوں کا فائدہ ہو۔ اس غزل کا ایک شعر ایک بچے کے حصے میں آیا تو وہ نہ کرکرے خرید سکے گا نہ سلانٹی۔
حق ہا!
بس اب اپنے حسد کے سبب محمد عبدالرؤوف کے اشعار کا تیاپانچہ کرتے ہیں۔
ناآشنا سا دیکھتا ہوں بام و در کو میں
پاتا ہوں اجنبی سا ترے بعد گھر کو میں
بھابھی میکے چلی گئی ہیں۔ شنید ہے کہ انھیں شوہر کی غزل کہنے، مشاعرے میں شرکت، غزل کی اشاعت جیسی "مشکوک" سرگرمیوں پہ اعتراض ہو گا۔ اب ان کے چلے جانے کے بعد بام اور در ناآشنا لگ رہے ہیں رؤف بھائی کو۔ گھر اجنبی محسوس ہو رہا ہے۔ اصل میں غصے میں بھابھی بغیر کھانا بنائے چلی گئی ہیں اور اسی لیے گھر اجنبی لگ رہا ہے۔ بام و در تو چلو ناآشنا لگتے ہیں رؤف بھائی کو لیکن انھوں نے باورچی خانے کی بات کہیں نہیں کی۔ نہ نعمت خانے کا تذکرہ ہے۔ سو اس اجنبی اجنبی لگنے کی کیفیت میں بیچارے کھانا خود بنانے کا سوچ رہے ہیں۔
یوں چل رہا ہے ایک زمانے سے سلسلہ
وہ مجھ کو آزماتا ہے، اپنے جگر کو میں
حق ہا!
اوہ ہو!
Alas!
چہ چہ!
وغیرہ۔۔۔۔
یعنی یہ بار بار روٹھ کے میکے جانے کا سلسلہ کوئی تازہ تازہ نہیں ہے۔ اردو محفل پہ مصروفیت نے پہلے بھی کئی بار بھابھی کو میکے چلے جانے پہ مجبور کیا ہے۔ بھابھی رؤف بھائی کو بار بار آزماتی ہیں اور رؤف بھائی اپنے جگر کو آزماتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آئی کہ جگر کو کیوں آزماتے ہیں؟ ظہیر بھائی نے بھی اصلاح کرتے ہوئے یہ نکتہ فراموش کر دیا۔ اور استاد محترم جناب الف عین نے ہو نہ ہو مروت سے کام لیا ہے۔ کیونکہ جب بھابھی میکے جاتی ہیں اور ایک زمانے سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ جبکہ سونے پہ سہاگہ رؤف بھائی کو کھانا بنانا نہیں آتا تو جگر نہیں، معدے کی آزمائش ہوتی ہے۔ کمال ہے بھئی۔ یعنی اب رؤف بھائی معدے کا کام جگر سے لیا کریں گے؟
غضب ہے بھئی غضب۔
اچھا یہاں شاعر نے ایک اور سوال کی جانب توجہ مبذول کرا دی ہے کہ شاعر آخر دل اور جگر ہی کی بات کیوں کرتے ہیں۔ دیکھیں دل کے ساتھ اگر کوئی ساتھی ملا کر مرکب لفظ ہی بنانا ہے۔ مطلب ترکیب بنانی ہے۔ مطلب ساتھی ساتھی الفاظ بنانے ہیں تو دل و معدہ ہی ٹھیک لگتے ہیں۔ دیکھیں بھئی میرے پاس اس کے حق میں دلائل ہیں۔
دل کا روگ (جو شاعروں کو اکثر لگ جایا کرتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ طبی روگ نہیں ہے، طبعی ہے البتہ)۔ تو دل کے روگ میں اکثر محبوب لفٹ نہیں کراتا اور شاعر/عاشق (دونوں کو ایک ہی سمجھنا چاہیے) محبوب کی بے التفاتی کے سبب کھانا چھوڑ دیتا ہے۔ یہاں آپ کھانا پینا نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ وہ صرف کھانا چھوڑتا ہے(لیکن مشاعروں میں اگر کھانے کو کچھ مل جائے تو نہیں چھوڑتا) لیکن پینا کسی صورت بھی ترک نہیں ہوتا۔ اس پینے میں خون جگر(عدو کا) پینے سے لے کے سگریٹ، بوتل(ہر "قسم" کی)، چائے وغیرہ وغیرہ شامل ہے۔ شاعر آخر ذہین انسان ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا چھوڑنے سے بندہ جلدی نہیں مرتا۔ کچھ دنوں تک لوگ ترلے منت کر کے کھلا دیا کرتے ہیں۔ لیکن پینا چھوڑنے سے موت کے علاؤہ بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
جی تو بات ہو رہی تھی۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ کھانے پینے کا تعلق مکمل طور پہ معدہ سے ہے۔ سو دل کے ساتھ معدہ کا تعلق بنتا ہے، جگر کا نہیں۔
ایک تو اردو محفل پہ مردوں کا قبضہ ہے۔ اس لڑی میں ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے ورنہ اگر ہمیں اصلاح سخن کے زمرے میں بطور استانی جگہ دی جاتی تو ہم کشتے پہ پشتے لگا دیتے۔ ہر غزل کو پاس کرتے۔ پاس نہ ہو رہی ہوتی تو رعایتی پاس تو کر ہی دیتے۔ لیکن کیا ہے کہ ہر طرف مردوں کا طوطی بول رہا ہے۔ منتظمہ بھی بنتے تو بھی استانی کا کردار نہ چھوڑتے۔ ہر زمرے کو اسلحہ خانہ بنا دیتے۔ (اوہ ہو معذرت۔ ٹائپو ہو گیا۔ اسے اصلاح خانہ سمجھیں)۔ اب یہی دیکھیں کہ اگر ظہیر بھائی اصلاح کرتے ہیں تو ان کے ساتھ صلح بندہ کیسے کرے؟ میرے جیسی بندی آئے تو نئے نئے الفاظ و تراکیب پہ مشتمل نئی لغت وجود میں آئے ۔ ظہیر بھائی ہر نئی تبدیلی کے خلاف ہیں۔ اسی لیے عمران خان کو انھوں نے اتار کے دم لیا۔ خیر یہ تو جملہ نادہندہ تھا۔
تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
پھر کیا کروں اٹھا کے بھی تیغ و سپر کو میں
یا
ہے جس عدو کا تیرِ نظر دل کے آر پار
آگے اُسی کے کیا کروں تیغ و سپر کو میں
لیں جی یعنی کہ کر لو گل!!
بھابھی کو دشمن جاں بنا دیا۔ عدو بنا دیا۔ پھر کنفیوز بھی ہو گئے ہیں۔ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ بھابھی دشمن جاں ہیں یا عدو ہیں۔
اب پوچھ رہے ہیں کہ پٹڑی اور بیلن کو اٹھا لوں؟ روٹی تو بنانی نہیں آتی۔ اٹھا بھی لوں تو فائدہ کوئی نہیں۔ اور اگر ان کے آگے بھی رکھ دوں تو روٹی انھوں نے بھی نہیں بنا کر دینی۔
بھولے سے اس کا نامہ مرے نام آ گیا
اب خط کو چومتا ہوں کبھی نامہ بر کو میں
حق ہا!
موبائل اور دیگر گیجٹس کے زمانے میں رؤف بھائی یہ کیا کر رہے ہیں! یہ شعر سرے سے غلط شمار ہو گا۔ ہونا یہ چاہیے تھا۔
بھولے سے ان کی میل میرے نام آ گئی
اب میل کو چومتا ہوں کبھی کمپیوٹر کو میں
دیکھیے جدید دور آ چکا ہے(شاید ابھی آپ کو پتہ نہ چلا ہو) اب جگر، نامہ بر وغیرہ کے ساتھ کمپیوٹر بھی ہم قافیہ لفظ ہو سکتا ہے۔
اب یہ اتنا آسان شعر ہے کہ اس کی تشریح بھلا کیا کریں!
بے داد ہی رہی ہے چمن میں ہر اک فغاں
رویا کیا اگرچہ تو ہوں عمر بھر کو میں
شاعر نے چمن سے مراد اردو محفل لی ہے اور اپنے ہر شعر کو فغاں کہہ رہے ہیں۔ کیا خوب ترکیب ہے بھئی! یعنی کہ شعر کہنے کو رونا شمار کرتے ہیں۔ واہ بھئی واہ! یہ ہوا ناں استعارہ۔ کیا استعاراتی شعر ہے!
بہت خوب!
واقف نہ ہو وہ آنکھ تغافل کے قہر سے
اک عمر سے تڑپتا ہوں جس کی نظر کو میں
تغافل اصل میں نبیل بھائی ہیں اور شاعر جب سے اردو محفل کی زینت بنا ہے، نبیل بھائی سے بات کرنے کو تڑپ رہا ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان کی یہ تڑپ ہمیشہ تڑپتی ہی رہے گی۔(واہ! کیا فقرہ لکھا گیا۔یعنی کہ واہ بھئی واہ)
سر خاک خاک کر لیا، خوں میں نہا گیا
در پر جو اس کے پھوڑتا تھا اپنے سر کو میں
یہ بھی نبیل بھائی کے لیے ہے۔ رؤف بھائی نے محفل گردی کر کر کے سر خاک زدہ کر لیا(ضرور اس لڑی میں چلے گئے ہوں گے) لیکن یہ شعر اگر نبیل بھائی کے لیے ہے تو شاعر شاید جانتا نہیں ہے کہ ڈاکٹر محفل میں دو ہی ہیں۔ ایک ظہیراحمدظہیر اور دوسرے فاخر رضا فورآ ان کی کسی لڑی میں چلے جانا چاہیے تھا۔ مرہم پٹی تو ہو جاتی۔ لیکن ظہیر بھائی جیسا ظالم بھی بھلا کون ہو گا! بجائے مرہم پٹی کرنے کے خوب خوب زخم کریدے ہیں۔
اُس ماہ رو کا جس نے فزوں تر کیا غرور
ہر آن کوستا ہوں اُس آئینہ گر کو میں
اللہ اکبر!
یعنی کہ شہر کے سب بیوٹی پارلروں کے خلاف ہے شاعر۔ اب ظاہر ہے کہ یہ نہیں معلوم کہ محبوب کس بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر آئی ہے(اب سے محبوب کو خالی مذکر بتانا بند)۔ توبہ توبہ! رؤف بھائی نے تو پرانے محلے کی خواتین کی طرح جھولیاں بھر بھر کوسنے دینے شروع کر دیے ہیں۔ توبہ توبہ!
جس کے سبب ہوا ہوں میں آمادہء سخن
اُس پر ہی وارتا ہوں متاعِ ہنر کو میں
لیں جی آخر میں قرعہ بھابھی کے نام ہی نکلا۔ شاعر نے ان ہی کے لیے شاعری کی اور ساری شاعری بھی ان ہی پہ وار دی۔ اب کوئی پوچھے کہ وارنا ہو تو بندہ نوٹ شوٹ وارے کہ محلے کے بچوں کا فائدہ ہو۔ اس غزل کا ایک شعر ایک بچے کے حصے میں آیا تو وہ نہ کرکرے خرید سکے گا نہ سلانٹی۔