نااہلوں کا ’سونامی‘؟

جاسم محمد

محفلین
نااہلوں کا ’سونامی‘؟
سیاست میں کامیاب ہونے کے لیے صلاحیت کی نہیں بلکہ دیگر چیزوں کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کسی بااثر خاندان میں پیدا ہوئے ہیں تو آپ کی کامیابی کے کافی زیادہ امکانات ہیں اگر ایسا نہیں تو پھر چاپلوسی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہونا چاہیے۔

عبدالقیوم کنڈی
سیاست دان aqkkundi@
بدھ 13 نومبر 2019 8:15

52796-611338710.jpg



وفاقی کابینہ کے 12 نومبر کے اجلاس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان کر رہے ہیں (پی آئی ڈی)

جب تحریک انصاف کی حکومت نے حلف اٹھایا تو میں نے اسی وقت بتا دیا تھا کہ انتہائی غیرسنجیدہ اور نااہل لوگ اب ہم پر راج کریں گے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔

صورت حال یہ ہے کہ زیادہ تر وزیر اسی بات پر خوش ہوتے ہیں کہ انہیں مشہور لوگوں سے ملنے کا اور تصویریں کھنچوانے کا موقع مل رہا ہے۔ وزیر آبی ذرائع، وزیر پورٹ اور شپنگ سے پوچھیں اب تک انہوں نے کیا کام کیا ہے؟ وزیر خزانہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ وہ ٹماٹر 17 روپے کلو خرید رہے ہیں۔ وزیر قانون ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ماورائے آئین کیا ہو سکتا ہے اور کتنے مزید آرڈیننس لکھے جا سکتے ہیں۔ وزیر ریلوے کے 15 ماہ کے دور میں حادثات میں 220 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ آج کل وہ ریلوے کو ٹھیک کرنے کی بجائے ہمیں طبعی نظریہ ضرورت سمجھا رہے ہیں۔ غرض یہ کہ جس وزیر کو دیکھو وہ نااہلی کی تصویر بنا ہوا ہے۔

پاکستان میں سیاست میں کامیاب ہونے کے لیے صلاحیت کی نہیں بلکہ دیگر چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ اگر آپ کسی بااثر خاندان میں پیدا ہوئے ہیں تو آپ کی کامیابی کے کافی زیادہ امکانات ہیں۔ اگر آپ کسی بااثر خاندان میں پیدا نہیں ہوئے تو پھر چاپلوسی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہونا چاہیے۔ سیاسی پارٹیوں میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں اس صلاحیت کے بغیر آگے بڑھنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس وقت ایسا لگتا ہے پورا ملک باصلاحیت کی بجائے چاپلوس لوگ چلا رہے ہیں۔ عمران خان کے حکومت میں آنے سے پہلے ہی یہ آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے کہ نااہلی کا سونامی آنا والا ہے۔

میں پی ٹی آئی میں آٹھ سال رہا۔ پہلے تین سال پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی) کو تخلیہ میں سیاسی مشورے بھیجتا رہا مگر تین سال میں یہ بات واضح ہو گئی کہ سی ای سی کا کوئی شخص عمران خان کو ناخوش کرنے کو تیار نہیں ہے اور اسی کوشش میں لگا ہے کہ تعریفوں کے پل باندھ کر ان کی نظروں میں اچھا رہے۔

بہت سے مشکل فیصلے ایسے ہوتے ہیں جس میں پارٹی سربراہ سے اختلاف کرنا پڑتا ہے۔ میری جہانگیر ترین، اسد عمر، چوہدری سرور، عارف علوی اور دوسرے پارٹی رہنماؤں سے کئی دفعہ تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں قومی مسائل اور پالیسیوں پر گفتگو ہوئی اور یہ بات واضح تھی کہ انہیں کچھ نہیں پتہ کہ اگر حکومت مل گئی تو کرنا کیا ہے۔ یہ بڑی پریشانی کی بات تھی اور ہمارا گروپ جو پارٹی میں پوری طرح سرگرم تھا، اس نے پوری کوشش کی کہ پارٹی کو حکومت کرنے کے قابل بنایا جائے۔

لیکن عمران خان کو جوانی سے ہی تعریف کرنے والے لوگ بےانتہا پسند ہیں اور ایسے لوگوں کا پارٹی پر پوری طرح قبضہ تھا بلکہ حکومت بھی ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ صدر عارف علوی کو ہی لے لیں جب تک پارٹی کے جنرل سکریٹری رہے مجال ہے کہ کبھی پارٹی آئین کی پاسداری کی ہو اور اب یہی روش صدر بن کر بھی ہے۔ جو کاغذ انہیں بھیجا جاتا ہے اسے یہ جانے بغیر کے آئینی ہے یا نہیں ہے بس دستخط کر دیتے ہیں۔

مگر بات صرف یہی نہیں تھی۔ میں سیاسی انجینیئرنگ کے سخت خلاف ہوں اور ہمیشہ اس بات پر قائل رہا ہوں کہ فوج کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ اس اختلاف کے باوجود بہت سے سینیئر افسر میری رائے کو اہمیت دیتے ہیں، جس کے لیے میں ان کا مشکور ہوں۔ میں نے انہیں کئی دفعہ یہ بات باور کروائی کہ ان کے چنیدہ حکومت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہ خرابی زیادہ پیدا کریں گے۔ آج وہ خود پریشان ہیں کہ کن نااہلوں کو حکومت پکڑا دی ہے۔

صرف حکومت نہیں بلکہ ریاستی ادارے بھی تنزلی کا شکار ہیں۔ اب نادرا اور پیمرا کو ہی لے لیں جنہوں نے ایک سابق منسٹر اور سینیٹر کو غیر پاکستانی قرار دے دیا۔ اگر یہ بات حقیقت ہے تو اتنے سالوں سے وہ کیا کر رہے تھے اور اچانک ان کو کہاں سے اطلاع ملی۔ پولیس کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ نیب کو تو رہنے ہی دیں۔

صرف پی ٹی آئی ہی نہیں ہر پارٹی اور ادارے پر نااہل لوگوں کا مکمل کنٹرول ہے جو بہت زیادہ پریشانی کی بات ہے۔ آج کل میں حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کو سیاسی مشورے بھیجتا ہوں مگر وہاں بھی یہی بےبسی اور بےچارگی والا حال ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قابل لوگ نہیں ہیں۔ مگر ایک تو کم ہیں اور جو ہیں ان کے لیے اتنی مشکلات کھڑی کر دی گئی ہیں کہ ان کا کام کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ جو ہمت کرتا ہے اسے یا تو ہم مار دیتے ہیں، ہٹا دیتے ہیں یا پھر ملک بدر کر دیتے ہیں۔

اس صورت حال سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ قابل اور باصلاحیت لوگوں کو مواقع فراہم کیے جائیں، جو اس ملک کو نئے سرے سے تعمیر کریں۔ یہ ایک اہم اور ضروری کام ہے جس کے لیے سب کو مل کر کوشش کرنا پڑے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
منجن فروشوں کے کارنامے
نہ کوئی قومی پلان ہے نہ کوئی سمت۔ قومی معاملات کو ایسے چلایا جا رہا ہے کہ اناڑی کوچوان بھی سمجھے کہ وہ بڑا ماہر ہے۔ اس طرح کے مال سے کیا دکان چلے گی؟

سید طلعت حسین
تجزیہ کار @TalatHussain12
سوموار 11 نومبر 2019 8:15

52531-489503313.jpg



اب چونکہ اس منجن کو بنانے والے طاقتور بھی ہیں اور قانون سے بالا بھی لہذا اس کو پھیلانے کا بندوبست ہر گلی کے ہر نکڑ پر کیا ہوا ہے(اے ایف پی)

منجن فروشی ایک قومی ہدف بن چکا ہے جس کے حصول کے لیے ہر وقت سر توڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔ منجن ہر زمانے میں بکتے رہے ہیں مگر جو بازار آج کل گرم ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

قوم کو اس فریب میں مبتلا کیا ہوا ہے کہ پاکستان کی سمت اب مکمل طور پر درست ہونے کو ہے اور ایک پیج پر رہنے والی جوڑی ملک کو منجھدار سے نکالنے کے آخری مراحل سے گزر رہی ہے۔ بس ایک دو سال کی بات ہے حالات ایسے پلٹا کھائیں گے کہ سختی کبھی اس خطے کا رخ نہیں کرے گی۔ اب چونکہ اس منجن کو بنانے والے طاقتور بھی ہیں اور قانون سے بالا بھی لہذا اس کو پھیلانے کا بندوبست ہر گلی کے ہر نکڑ پر کیا ہوا ہے۔

بکاو تجزیہ نگار ہر جگہ پر یہ سودا بیچتے نظر آ رہے ہیں۔ مجبور و بےکس میڈیا مالکان ان تجزیہ نگاروں کو متوازن اور مثبت صحافت کے نام پر اپنی دکانوں کو بچانے کے لیے ہر روز پروگرامز میں جگہ بھی دیتے ہیں۔ اس منجن کو قومی مفاد کے پیکٹوں میں بند کر کے ہر گھر میں بھیجنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ آخری انتخابات میں کی گئی سیاسی واردات کو صحیح ثابت کیا جائے۔ اس کے علاوہ اب چونکہ یہ خوفناک سانحہ معاشی و معاشرتی حقائق کو جنم دے چکا ہے۔ لہذا اس کے احتساب کے امکان کو ختم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ قوم کی آنکھوں میں مسلسل دھول جھونکنے کا بندوبست کیا جائے۔اس کی وجہ سے آپ ہر وقت یہ راگنی سن رہے ہیں کہ اللہ کے فضل کا آغاز ہو گیا ہے، مایوس نہیں ہونا۔

مگر ایک ناکام سیاسی تجربے کی نشانہ بنی ہوئی قوم بےوقوف تو ضرور ہے مگر دماغ سے عاری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن بازاروں میں یہ منجن بک رہا ہے، اور جہاں اس کے ٹھیلے لگے ہوئے ہیں، انہی بازاروں میں کھڑے ہو کر عوام ہر روز کھلے عام بددعائیں اور گالیاں بھی دے رہے ہیں۔ عوام کے کوسنے اور واویلے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کرتارپور کی خبروں کے نیچے دب جانے کے باوجود اس کثیر تعدار سے روزانہ سامنے آ رہے ہیں کہ اب ان سے نظر ہٹانا اب ممکن نہیں۔

کون سا محکمہ ہے کہ جو افراتفری سے دوچار نہیں؟ کون سا طبقہ ہے جو سراپا احتجاج نہیں؟ کون سی دکان ہے جس میں کھڑے گاہک یا مالک اس نحوست کا ذکر نہیں کرتے جس نے ان کی زندگیوں کو گرفت میں لیا ہوا ہے؟ رحیم، زلفی، انیل اور نیلم کے علاوہ کون سے ایسے لوگ ہیں جو خوشیوں کی بارات میں شریک ہو کر ٹھمکے لگا کر ناچ رہے ہوں؟ کوئی ایک نام تو بتائیں؟ کوئی کارنامہ تو گنوائں؟ سیاسی طور پر اس سے ابتر صورت حال شاید اس سے پہلے کم ہی دیکھنے میں آئی ہو گی۔

تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت کی چولیں ڈھیلی کر دی گئیں ہیں اور اس کارنامے کو بڑے فخر سے بیان کیا جا رہا ہے۔ ایسے کہ جیسے بی جے پی اور کانگریس کی ایسی کی تیسی کر دی گئی ہو۔ ہر سیاسی کھڑکی پر چوکیدار متعین کر کے ایک ایسی سیاسی گھٹن پیدا کر دی گئی ہے جس میں کوئی مثبت، بامقصد اور باشعور سوچ جنم نہیں لے سکتی۔ اس ماحول میں پلنے والی نسل اگلے دس سال میں جس افراتفری اور انتشار کا شکار ہو گی اس کو سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

خود اپنے الفاظ میں اپنے کارناموں پر اپنے ہاتھ سے منتخب شدہ ہرکاروں کے ذریعے مبارک بادیں دینے والے منجن فروش اس وقت اپنی اولادوں سمیت ملک سے باہر آرام سے زندگی گزار رہے ہوں گے جب ان کے بنائے ہوئی عنفریت ہماری گردنوں پر سوار ہو کر تباہی مچا رہی ہو گی۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ جب ہو رہا ہوتا ہے تو اس وقت کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس وقت آج کی طرح منجن بیچ کر قوم کو دھوکہ دینے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ یہ کہنا یا سوچنا کہ پاکستان میں کوئی انقلابی قسم کے آثار واضح ہو رہے ہیں ایک خوفناک بے وقوفی سے کم نہیں۔ تبدیلی انتظامی، سیاسی، قانونی، معاشرتی اور معاشی ڈھانچوں کی پیداوار ہوتی ہے۔

روس کا انقلاب لانے والے شیخی خورے اور بڑ بولے نہیں تھے، ان کو انقلاب کی تھیوری کا بھی پتہ تھا اور نئے ادارے بنانے کی قدرت بھی حاصل تھی۔ وہ نظریاتی محاز پر لڑنے اور جیتنے کے اہل بھی تھے اور چند سالوں میں نئی فوج کھڑی کرنے کی اہلیت کے بھی حامل تھے۔ فرانس میں بادشاہت کا تختہ الٹنے والے بھی ایسے ہی تھے۔ امریکہ میں بڑی تبدیلیاں لانے والے صدور کی صفات ایسی ہی تھیں۔ زمانہ حال میں ایتھوپیا سے لے کر کینیڈا اور نیوزی لینڈ تک جس ملک میں قابل فخر تبدیلیاں ہوئی ہیں وہاں کی قیادت کے اوصاف بھی کچھ ایسے ہی ہیں جو پچھلے ادوار کے انقلابیوں کے تھے۔ یعنی اپنے مقاصد میں واضح مثبت سوچ رکھنے والے باشعور اور باعمل لوگ۔ ایسے نہیں جیسے ہمارے ہاں ہیں۔ گالم گلوچ اور بکواسیات کے پی ایچ ڈی، کاہل، عقلی بےڈھنگے جن کا ایک ہی سیاسی کارنامہ اور کام ہے کہ کس طرح دوسروں کو ذلیل کر کے خود کو دلیر ثابت کیا جائے۔

نہ کوئی قومی پلان ہے نہ کوئی سمت۔ قومی معاملات کو ایسے چلایا جا رہا ہے کہ اناڑی کوچوان بھی سمجھے کہ وہ بڑا ماہر ہے۔ اس طرح کے مال سے کیا دکان چلے گی؟ اس خمیر سے کیا روشنی کے پتلے بن پائیں گے؟ اب کوئی کہے گا کہ چلیں کوشش تو ہو رہی ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ہو ہی جائے گا۔ کچھ نہ کچھ تو کچھ نہ کیے بغیر بھی ہو ہی جاتا ہے۔ اتنی بڑی معیشت کو تمام نام نہاد معیشت دانوں سے نجات دلوا کر مکمل آٹو پر چھوڑ دیں تو بھی لڑھکتے لڑھکتے 2.4 فی صد کی رفتار پر ترقی کر ہی لے گی یا شاید اس سے کہیں بہتر رفتار اپنا لے۔ ساڑھے 22 کروڑ عوام میں سے 11 کرکٹر پاکستان کرکٹ بورڈ کے بغیر بھی مل کر ایک آدھ سریز جیت ہی لیں گے۔ محلے والے اکھٹے ہو کر پولیس کے بغیر امن و امان قائم کر لیتے ہیں۔ عوام بندوقیں اٹھا لیں تو گھر کی حفاظت ہو جاتی ہے۔

یہ کون سے بڑے کارنامے ہیں؟ یہ کیا انقلاب ہے؟ یہ کون سی تبدیلی کا معیار ہے کہ اپنی بدترین کارکردگی کو قومی تمغوں سے نواز کر خود ہی شادیانے بجائے جائیں؟ یہ ملک چلانے کا کون سا انداز کے کہ ملک کے وزیر اعظم کو کابینہ کے وزراء کے قلم دانوں کا بھی علم نہ ہو؟ وہ ہر دوسرے روز اسٹیبلشمنٹ کے پٹرول پمپ سے ٹینکی بھروا کر چار گام چلنے پر مجبور ہو اور پٹرول ختم ہونے پر پھر رک جائے۔ ایک پیج والی جوڑی تین سال کام چلا لے گی اس کے بعد کیا ہو گا؟ ایک اور انتخابات کروانے والے آرمی چیف کو ملکی حالات کے پیش نظر اپنی ملازمت کے علاوہ پھر تین سال دینے ہوں گے تاکہ وہ اس حکومت کا بیڑہ پار لگائے؟ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اور اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا پاکستان ایکسٹینشن سے چلے گا؟ 6 سال، 5 سال؟ 6 سال، 5 سال؟ پاکستان کے علاوہ اس طرح کون سا اور ملک ایسے چل رہاہے؟ کوئی ایک نام تو بتائیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
پھر نہ کہنا تبدیلی نہیں آئی!
ارشاد بھٹی
14 نومبر ، 2019

پُرانی تے اصلی تحریک انصاف کا جاگنا تھا یا دو نہیں ایک پاکستان والوں کے ضمیروں کا جاگنا، کسی کو این آر او نہیں دوں گا، نو ڈیل، ڈھیل، مک مکا کے بیانیے کو زندہ رکھنے کی آرزو تھی یا سیاسی طور پر لَت (ٹانگ) اوپر رکھنے کی خواہش، سلمان شہباز کے اپنے والدکی تصویر اور ’گیم چینجر‘ والے ٹویٹ نے صورتحال خراب کی یا قومی اسمبلی میں خواجہ آصف کی اُس تقریر نے ماحول بگاڑا جس میں وہ حکومت پر کچھ یوں گرجے، برسے ’’جو کچھ ہمیں پتا وہ تمہیں پتا نہیں، تم پر عنقریب چھت گرنے والی، ہم جب چاہیں گے انتخابات ہوجائیں گے‘‘۔ ٹونٹی ٹونٹی کھیلتے اس میڈیا کا خوف تھا جو ہلکی ڈھولکی پر یوں باریک بے عزتی فرما رہا تھا کہ ’’عمران خان آپ نے تو جیل سے اے سی اتروانا تھا، آپ کہاں ای سی ایل سے نام نکلوانے چل پڑے‘‘ یا پھراپنے ووٹرز، سپورٹرز کی ناراضی کا ڈر تھا، وہ ووٹرز، سپورٹرز جو یہ یقین کئے بیٹھے کہ کپتان چوروں، ڈاکوؤں، گاڈ فادروں کیخلاف ڈٹا ہوا، کسی کو این آر او نہیں دے رہا، کوئی ایک وجہ تھی یا یہ سب وجوہات، دیکھتے ہی دیکھتے صورتحال بدلی اور ایسی بدلی کہ نواز شریف جارہے، جہاز تیار کھڑا، ٹکٹیں بک ہو گئیں، نواز شریف کو سفر کرنے کیلئے اسٹرائیڈ دیدیئے گئے اور پھر ای سی ایل معاملہ نیب، وزارت داخلہ میں لٹکنا، پھر ای سی ایل ذیلی کمیٹی میں پھنسنا اور پھر سیکورٹی بانڈ، گارنٹی، جو کچھ ہوا، ہو رہا، وہ آپ کے سامنے، میرا یہ ماننا یہ وقتی delay، بالآخر نواز شریف نے لندن چلے ہی جانا کیونکہ یہ بااختیار، طاقتور کا ملک۔


ویسے حالات کتنی جلدی بدل جاتے ہیں، کل پرویز مشرف پر غداری کیس، وہ راولپنڈی اسپتال میں لیٹے ہوئے، ان کا نام ای سی ایل پر، باتیں ہورہی تھیں کہ پرویز مشرف کی طبیعت خراب، انہیں علاج کیلئے باہر جانا، تب لیگی شعلہ بیانیاں عروج پر، مریم نواز نے یوں طعنہ مارا ’’ہم وہ نہیں کہ کمر درد کا بہانہ بنا کر عدالت آتے ہوئے گاڑی اسپتال کی طرف موڑ لیں‘‘۔ سعد رفیق بولے ’’پرویز مشرف بھگوڑا، ڈرامے کر رہا، اگر اس کی بات مان لی جائے کہ انجیو گرافی کیلئے باہر جانا تو بتائیں پاکستان کی جیلوں میں جتنے لوگ دل کے مریض، کیا ان سب کو باہر بھجوا دیا جائے، یہ پرویز مشرف انوکھا لاڈلا نہیں‘‘، پرویز رشید نے کہا ’’پاکستان کے قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ ملزم علاج کیلئے باہر چلا جائے، کیا یہاں اسپتال اور ڈاکٹر نہیں ہیں‘‘، احسن اقبال نے فرمایا ’’جنرل مشرف کی ٹیم اور ان کے وکلا ملک میں بحران پیدا کرنا چاہ رہے، یہ سازشی، پاکستان اس طرح کی سازشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، اگر پرویز مشرف عدالتوں کا سامنا کئے بنا ملک سے چلے گئے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا‘‘، خواجہ آصف کہنے لگے ’’پرویز مشرف چھپا بیٹھا، ترلے، منتیں کررہا مینوں باہر جان دیو‘‘ پھر وہ دن بھی آیا کہ جب ان سب جانبازوں کے ہوتے ہوئے انہی کی حکومت نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا اور وہ علاج کے بہانے دبئی جا پہنچے، جہاں چند دن بعد وہ ایک تقریب میں ’میں شکر ونڈاں رے‘ پر ڈانس کرتے پائے گئے، ہاں آج کل وہ واقعی بیمار، چلنا پھرنا مشکل، اللہ انہیں بھی صحت دے۔

یہ تو وہ لیگی تھے جو کل ملزم پرویز مشرف کے باہر جاکر علاج کرانے کی مخالفتیں اور آج مجرم نواز شریف کے باہر جا کر علاج کرانے کی حمایتیں فرمارہے، اب ملاحظہ ہو، حکومتی ظاہرو باطن کا ایک ٹریلر، چند دن پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں وہ وزیر صاحب جو انسانی وطبی بنیادوں پر میاں صاحب کو باہر بھجوانے کے حق میں، پروگرام کے وقفے میں کہنے لگے ’’یہ کیسا مریض ہے جو ہر بار تشویش ناک حالت میں اسپتال سے گھر منتقل ہو جاتا ہے‘‘۔ میں نے بات سنی اَن سنی کردی تو میرے کان کے قریب منہ لاکر زیر لب مسکراتے ہوئے وزیر بولے ’’ویسے اس پر بات ہونی چاہئے کہ ’میں مرجاؤں گا لیکن باہر نہیں جاؤں گا ‘سے لیکر ’میں باہر نہیں جاؤں گا تو مرجاؤں گا‘ کا سفر طے کرنے والے نواز شریف کے حمایتی لندن جا کر یہ کہیں گے کہ اگر میاں صاحب کو لندن میں کچھ ہوا تو کیا اس کا ذمہ دار برطانیہ کا وزیراعظم بورس جانسن ہوگا‘‘، میں نے کہا بھائی جان آپ یہ سب آن ایئر کہہ دیں، کانوں کو ہاتھ لگا کر بولا ’’توبہ کرو، سب میرے پیچھے پڑ جائیں گے‘‘، یہ کہہ کر اس نے سامنے میز پر پڑا اپنا موبائل فون اٹھایا اور نقلی نقلی مصروف ہوگیا۔

ایک طرف نواز شریف بیماری، دوسری طرف مولانا کا شو جاری، آزادی مارچ، دھرنے، پلان اے کے بعد بات پلان بی تک پہنچی ہوئی، کشمیر بیچ دیا گیا، اسرائیل کو تسلیم کیا جارہا، یہودی، قادیانی ایجنٹ، اسلام، ناموسِ رسالت خطرے میں، مولانا یہ سب جھوٹ بول چکے، میں 14اگست نہیں مناؤں گا، ہم وزیراعظم کو گرفتار کر سکتے ہیں، دنیا عمران خان سے معاہدے نہ کرے، عمران خان کے آرڈر نہ مانے جائیں، پاکستان کو فارغ کرو، مولانا یہ سب فرما چکے، مولانا فرسٹریشن، ڈپریشن کا شکار، خود مان چکے میں بند گلی میں، دیوار سے لگ چکا، پلان بی، لاک ڈاؤن، یہ تو کسی صورت قبول نہیں، صورتحال کیا بنتی ہے، وہ بھی دیکھ لیتے ہیں لیکن اسی رولے رپّے میں کرتارپور راہداری کا افتتاح ہوگیا، ویسے 9نومبر کیا تاریخ ساز دن تھا، اقبال ڈے، کرتارپور راہداری افتتاح اور بھارتی سپریم کورٹ کا بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا فیصلہ، 9نومبر کو بھارت ہارا، پاکستان جیت گیا، ویسے کرتارپور معاملے پر مولانا نے کیا کمال سیاست فرمائی، بولے، قائد کے پاکستان پر یہ وقت، اقبال ڈے پر کرتارپور راہداری کا افتتاح ہورہا، مولانا جی کے منہ سے علامہ اقبال، قائداعظم کا نام، شکرالحمدللہ مولانا جی کو بھی بالآخر قائداعظم، علامہ اقبال کی اہمیت کا احساس ہوا۔

یہ دکھ اپنی جگہ کہ مولانا شو، نواز شریف بیماری کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر سمیت سب جینوئن ایشوز نظروں سے اوجھل ہوئے، باقی چھوڑیں، مہنگائی، بیروزگاری، معیشت گورننس مطلب حکومتی کارکردگی سے فوکس ہٹا، عام حالات ہوتے تو وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا یہ تاریخی فرمان گھر گھر کی کہانی ہوتی کہ ’’ٹماٹر 250روپے فی کلو نہیں 17روپے کلو‘‘، اندازہ کریں یہ وزیرخزانہ فرما رہے بلکہ زخموں پر نمک چھڑک رہے، ہمارے بھی کیا نصیب، ایک طرف مولانا شو، نواز بیماری، دوسری طرف یہ فن کار اور یہ فنکاری، ایسے ہی جیسے آگے کنواں، پیچھے کھائی، پھر نہ کہنا تبدیلی نہیں آئی۔
 
Top