محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
’’روک… روک… روک!‘‘ ہم بھاگتے ہوئے بس میں سوار ہوگئے۔
دائیں بائیں دیکھا، پانچ چھ سیٹیں خالی تھیں، ہم نے سب سے اچھی سیٹ کا چنائو کرنے کے لیے ہر ایک پر غور کرنا شروع کیا۔
’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ ہم نے دل ہی دل میں ایک سیٹ کا انتخاب کیا، لیکن پھر یہ سوچ کر اسے رد کردیا کہ یہ دروازے کے بالکل ساتھ ہے، نہ جانے کیسے کیسے لوگ چڑھیںگے اور ہمارے کپڑے جن پر ابھی تک سلوٹیں نہیں آئی تھیں خراب ہوجائیں گے۔
’’یہ ٹھیک رہے گی۔‘‘ ہم ایک اور سیٹ کی طرف بڑھے ہی تھے کہ ہمارے بیٹھنے سے پہلے ایک اور صاحب وہاں براجمان ہوگئے۔
’’اسی کونے والی پر بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘ ہم پھر دروازے والی سیٹ کی طرف پلٹے کہ اچانک ایک نابینا صاحب وہاں آبیٹھے۔
بالآخر ایک ایسی سیٹ ہمارے حصے میں آئی جو ہمیں قطعاً پسند نہیں۔
’’گیٹ چھوڑ کے میرا بھائی…!‘‘
بس کے آگے والے گیٹ سے کنڈیکٹر کی آواز سنائی دی تو ہم بہت حیران ہوئے کہ جب چڑھے تھے تو پانچ چھ سیٹیں خالی تھیں، یہ اتنی جلدی بس بھر کیسے گئی۔ ہم نے فوراً پیچھے مڑ کر گیٹ کی جانب دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔
’’آگے آگے ہوجا… بابو…!!‘‘ کنڈیکٹر پھر چیخا۔
ہمیں بے اختیار ہنسی آگئی، بس پوری خالی تھی اور کنڈیکٹر صاحب یہ تاثر دے رہے تھے کہ بس بھر چکی ہے۔
’’عجیب آدمی ہے…‘‘ ہم نے سوچا۔ ’’آنکھیں ہوتے ہوئے بھی نہیں دیکھ رہا۔‘‘
اس سوچ کے ساتھ ہی بے اختیار ہماری نگاہیں پیچھے گیٹ کے پاس بیٹھے ہوئے نابینا کی طرف اٹھ گئیں، جو واقعی آنکھوں کی نعمت سے تھا۔
’’عجیب…!‘‘ ہم نے سوچا۔ ’’اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے یہ آنکھیں، ہم جب چاہیں، جو چاہیں دیکھ سکتے ہیں اور جن کی آنکھیں نہ ہوں…‘‘ ہم اس نابینا کو دیکھ کر مسلسل سوچنے لگے:
’’بے چارہ… کتنی مشکل زندگی ہوگی اس کی، ہر چیز میں دوسروں کی محتاجی… اُف کیسے جی رہا ہوگا یہ …!!‘‘
’’بھائی روکنا ذرا…! نابینا ہے۔‘‘ کافی دیر بعد ایک شخص کی آواز سنائی دی۔
ہم نے دیکھا، وہ نابینا اترنے کی تیاری کر رہا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کے لیے بس رکوانے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’دھڑ دھڑ… دھڑ دھڑ…!‘‘ اس نے زور سے بس کا گیٹ دھڑ دھڑایا۔
اچانک اس اللہ کے بندے (ڈرائیور) نے اس برے طریقے سے گاڑی روکی کہ ہم اگلی سیٹ سے ٹکراتے ٹکراتے بچے۔
’’دیکھ کے… دیکھ کے … سنبھال کے… ہاں بھئی روکے رکھنا… نابینا ہے…!‘‘ وہ شخص نابینا کو سہارا دینے کے ساتھ ساتھ چیخے بھی جارہا تھا، تاکہ ڈرائیور گاڑی چلانا نہ شروع کردے، مگر شاید ڈرائیور بہت جلدی میں تھا ، اس نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھادی۔
’’ارے…ارے…روک… روک … کیا کرتا ہے…پکڑو…!‘‘
ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے، وہ نابینا شخص اترتے ہوئے بری طرح سے نیچے گرا تھا۔
’’ابے اندھا ہوگیا ہے کیا…!‘‘ ایک صاحب ڈرائیور کی طرف دیکھ کر چلائے۔
’’معذوروں کا تو کم از کم خیال کر لیا کرو۔‘‘ ایک اور صاحب زور سے بولے۔
’’سمجھ میں نہیں آتا تم لوگوں کا حساب کتاب… کبھی تو چلاتے ہی نہیں ہواور کبھی…‘‘ یہ میرے برابر والے کی آواز تھی۔
’’چل اب اسپیڈ تیز کر… سوچتا کیا ہے؟‘‘ ہم نے بھی حصہ لیا۔
گھر کے پاس اترے ہی تھے کہ اللہ کے منادی کی آواز کانوں میں پڑی۔
’’اوہ…!‘‘ ہم نے گھڑی دیکھی، مغرب پڑھ کر بیٹھے تھے بس میں اور اب عشا کی اذان ہورہی تھی۔
ہم نے سوچا پہلے مسجد چلے جائیں اور پھر نماز پڑھ کر ہی گھر جائیں۔
دماغ پر نابینا اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی اب تک چھائی ہوئی تھی، بے چارہ…! کتنی تکلیف دہ زندگی گزار رہا ہے، کتنی چوٹ آئی ہوگی اس غریب کو…!
یہی کچھ سوچتے ہوئے ہم مسجد میں داخل ہوگئے، اندر آتے ہی ہمیں حیرت کا جھٹکا لگا۔
مسجد خالی تھی… خادم اسپیکر درست کر رہا تھا… مگر ہمیں حیرت کا جھٹکا پہنچانے والا وہ شخص تھا جو مسجد کے کونے میں دیوار سے ٹیک لگائے سرجھکائے تسبیح کے دانے گھمارہا تھا، شاید یہ بھی نابینا تھا۔
ہم ترس بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے، ایک نابینا بس میں ملا تھا جو پتا نہیں کتنی چوٹیں کھاکر گھر پہنچا ہوگا اور ایک نابینا یہ تھا جو ماشاء اﷲ مسجد میں اللہ کا ذکر کر رہا تھا۔
ہم بڑے جذباتی دل کے ساتھ اس کے قریب پہنچ گئے، اب اس کی آواز بھی ہمیں ہلکی ہلکی سنائی دینے لگی۔
ہم قریب ہی بیٹھ گئے اور عجیب سی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے، نہ جانے کیوں بڑا رحم آرہا تھا ہمیں اس پر۔
’’اگر ہم بھی نابینا ہوتے تو…؟‘‘ یہ سوچتے ہی ہمیں جھرجھری سی آگئی۔
ہماری آنکھیں تر ہوچکی تھیں، دل غم گین تھا اور دماغ سنسنا رہا تھا۔
ہم دو تین منٹ تک اسے اسی طرح دیکھتے رہے اور اس دیکھنے اور رحم کھانے کے دوران میں ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ ہم اس کے کتنا قریب بیٹھے ہوئے ہیں۔
’’سبحان اﷲ…سبحان اﷲ…!‘‘ وہ سر جھکائے مستقل ذکر کیے جارہا تھا، ہم دل ہی دل میں شرمندہ بھی ہوئے کہ آنکھیں رکھنے کے باوجود اس اللہ کی یاد سے کتنے غافل ہیں جس نے ہمیں اتنی بڑی نعمت سے نواز رکھا ہے۔
’’سبحان اﷲ…سبحان اﷲ…!‘‘ ہم بھی دل ہی دل میں اللہ کا ذکر کرنے لگے، ذکر کرنے میں بہت مزہ آیا، ہم ایک دو منٹ بالکل ہی ذکر میں مگن ہوگئے۔
اچانک ہم اچھل کر کھڑے ہوگئے اور حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ نہیں ہم اسے کم اور وہ ہمیں زیادہ دیکھنے لگا۔
’’دھت تیرے کی…!!‘‘
جسے ہم نابینا سمجھ رہے تھے، ماشاء اﷲ وہ تو دو بڑی بڑی آنکھوں والا تھا اور سر جھکائے ذکر میں مشغول تھا اور ہم اسے نابینا سمجھ بیٹھے تھے۔
’’سبحان اﷲ…سبحان اﷲ…!‘‘ اب وہ ہمیں اور ہم اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے، وہ تو پتا نہیں کیوں مسکرا رہا تھا، مگر ہم یہ سوچ کر مسکرا رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم دونوں کو کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہوا ہے۔
دائیں بائیں دیکھا، پانچ چھ سیٹیں خالی تھیں، ہم نے سب سے اچھی سیٹ کا چنائو کرنے کے لیے ہر ایک پر غور کرنا شروع کیا۔
’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ ہم نے دل ہی دل میں ایک سیٹ کا انتخاب کیا، لیکن پھر یہ سوچ کر اسے رد کردیا کہ یہ دروازے کے بالکل ساتھ ہے، نہ جانے کیسے کیسے لوگ چڑھیںگے اور ہمارے کپڑے جن پر ابھی تک سلوٹیں نہیں آئی تھیں خراب ہوجائیں گے۔
’’یہ ٹھیک رہے گی۔‘‘ ہم ایک اور سیٹ کی طرف بڑھے ہی تھے کہ ہمارے بیٹھنے سے پہلے ایک اور صاحب وہاں براجمان ہوگئے۔
’’اسی کونے والی پر بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘ ہم پھر دروازے والی سیٹ کی طرف پلٹے کہ اچانک ایک نابینا صاحب وہاں آبیٹھے۔
بالآخر ایک ایسی سیٹ ہمارے حصے میں آئی جو ہمیں قطعاً پسند نہیں۔
’’گیٹ چھوڑ کے میرا بھائی…!‘‘
بس کے آگے والے گیٹ سے کنڈیکٹر کی آواز سنائی دی تو ہم بہت حیران ہوئے کہ جب چڑھے تھے تو پانچ چھ سیٹیں خالی تھیں، یہ اتنی جلدی بس بھر کیسے گئی۔ ہم نے فوراً پیچھے مڑ کر گیٹ کی جانب دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔
’’آگے آگے ہوجا… بابو…!!‘‘ کنڈیکٹر پھر چیخا۔
ہمیں بے اختیار ہنسی آگئی، بس پوری خالی تھی اور کنڈیکٹر صاحب یہ تاثر دے رہے تھے کہ بس بھر چکی ہے۔
’’عجیب آدمی ہے…‘‘ ہم نے سوچا۔ ’’آنکھیں ہوتے ہوئے بھی نہیں دیکھ رہا۔‘‘
اس سوچ کے ساتھ ہی بے اختیار ہماری نگاہیں پیچھے گیٹ کے پاس بیٹھے ہوئے نابینا کی طرف اٹھ گئیں، جو واقعی آنکھوں کی نعمت سے تھا۔
’’عجیب…!‘‘ ہم نے سوچا۔ ’’اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے یہ آنکھیں، ہم جب چاہیں، جو چاہیں دیکھ سکتے ہیں اور جن کی آنکھیں نہ ہوں…‘‘ ہم اس نابینا کو دیکھ کر مسلسل سوچنے لگے:
’’بے چارہ… کتنی مشکل زندگی ہوگی اس کی، ہر چیز میں دوسروں کی محتاجی… اُف کیسے جی رہا ہوگا یہ …!!‘‘
’’بھائی روکنا ذرا…! نابینا ہے۔‘‘ کافی دیر بعد ایک شخص کی آواز سنائی دی۔
ہم نے دیکھا، وہ نابینا اترنے کی تیاری کر رہا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کے لیے بس رکوانے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’دھڑ دھڑ… دھڑ دھڑ…!‘‘ اس نے زور سے بس کا گیٹ دھڑ دھڑایا۔
اچانک اس اللہ کے بندے (ڈرائیور) نے اس برے طریقے سے گاڑی روکی کہ ہم اگلی سیٹ سے ٹکراتے ٹکراتے بچے۔
’’دیکھ کے… دیکھ کے … سنبھال کے… ہاں بھئی روکے رکھنا… نابینا ہے…!‘‘ وہ شخص نابینا کو سہارا دینے کے ساتھ ساتھ چیخے بھی جارہا تھا، تاکہ ڈرائیور گاڑی چلانا نہ شروع کردے، مگر شاید ڈرائیور بہت جلدی میں تھا ، اس نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھادی۔
’’ارے…ارے…روک… روک … کیا کرتا ہے…پکڑو…!‘‘
ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے، وہ نابینا شخص اترتے ہوئے بری طرح سے نیچے گرا تھا۔
’’ابے اندھا ہوگیا ہے کیا…!‘‘ ایک صاحب ڈرائیور کی طرف دیکھ کر چلائے۔
’’معذوروں کا تو کم از کم خیال کر لیا کرو۔‘‘ ایک اور صاحب زور سے بولے۔
’’سمجھ میں نہیں آتا تم لوگوں کا حساب کتاب… کبھی تو چلاتے ہی نہیں ہواور کبھی…‘‘ یہ میرے برابر والے کی آواز تھی۔
’’چل اب اسپیڈ تیز کر… سوچتا کیا ہے؟‘‘ ہم نے بھی حصہ لیا۔
گھر کے پاس اترے ہی تھے کہ اللہ کے منادی کی آواز کانوں میں پڑی۔
’’اوہ…!‘‘ ہم نے گھڑی دیکھی، مغرب پڑھ کر بیٹھے تھے بس میں اور اب عشا کی اذان ہورہی تھی۔
ہم نے سوچا پہلے مسجد چلے جائیں اور پھر نماز پڑھ کر ہی گھر جائیں۔
دماغ پر نابینا اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی اب تک چھائی ہوئی تھی، بے چارہ…! کتنی تکلیف دہ زندگی گزار رہا ہے، کتنی چوٹ آئی ہوگی اس غریب کو…!
یہی کچھ سوچتے ہوئے ہم مسجد میں داخل ہوگئے، اندر آتے ہی ہمیں حیرت کا جھٹکا لگا۔
مسجد خالی تھی… خادم اسپیکر درست کر رہا تھا… مگر ہمیں حیرت کا جھٹکا پہنچانے والا وہ شخص تھا جو مسجد کے کونے میں دیوار سے ٹیک لگائے سرجھکائے تسبیح کے دانے گھمارہا تھا، شاید یہ بھی نابینا تھا۔
ہم ترس بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے، ایک نابینا بس میں ملا تھا جو پتا نہیں کتنی چوٹیں کھاکر گھر پہنچا ہوگا اور ایک نابینا یہ تھا جو ماشاء اﷲ مسجد میں اللہ کا ذکر کر رہا تھا۔
ہم بڑے جذباتی دل کے ساتھ اس کے قریب پہنچ گئے، اب اس کی آواز بھی ہمیں ہلکی ہلکی سنائی دینے لگی۔
ہم قریب ہی بیٹھ گئے اور عجیب سی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے، نہ جانے کیوں بڑا رحم آرہا تھا ہمیں اس پر۔
’’اگر ہم بھی نابینا ہوتے تو…؟‘‘ یہ سوچتے ہی ہمیں جھرجھری سی آگئی۔
ہماری آنکھیں تر ہوچکی تھیں، دل غم گین تھا اور دماغ سنسنا رہا تھا۔
ہم دو تین منٹ تک اسے اسی طرح دیکھتے رہے اور اس دیکھنے اور رحم کھانے کے دوران میں ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ ہم اس کے کتنا قریب بیٹھے ہوئے ہیں۔
’’سبحان اﷲ…سبحان اﷲ…!‘‘ وہ سر جھکائے مستقل ذکر کیے جارہا تھا، ہم دل ہی دل میں شرمندہ بھی ہوئے کہ آنکھیں رکھنے کے باوجود اس اللہ کی یاد سے کتنے غافل ہیں جس نے ہمیں اتنی بڑی نعمت سے نواز رکھا ہے۔
’’سبحان اﷲ…سبحان اﷲ…!‘‘ ہم بھی دل ہی دل میں اللہ کا ذکر کرنے لگے، ذکر کرنے میں بہت مزہ آیا، ہم ایک دو منٹ بالکل ہی ذکر میں مگن ہوگئے۔
اچانک ہم اچھل کر کھڑے ہوگئے اور حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ نہیں ہم اسے کم اور وہ ہمیں زیادہ دیکھنے لگا۔
’’دھت تیرے کی…!!‘‘
جسے ہم نابینا سمجھ رہے تھے، ماشاء اﷲ وہ تو دو بڑی بڑی آنکھوں والا تھا اور سر جھکائے ذکر میں مشغول تھا اور ہم اسے نابینا سمجھ بیٹھے تھے۔
’’سبحان اﷲ…سبحان اﷲ…!‘‘ اب وہ ہمیں اور ہم اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے، وہ تو پتا نہیں کیوں مسکرا رہا تھا، مگر ہم یہ سوچ کر مسکرا رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم دونوں کو کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہوا ہے۔