نوید رزاق بٹ
محفلین
نادان لاہوری
(برکت چوک پر 'دیہاڑی' کے انتظار میں بیٹھے بوڑھے مزدور سے)
بیٹھے کیوں ہو سڑک کنارے؟
دُھوپ میں یوں گرمی کے مارے
کیا دنیا میں کوئی نہیں ہے
اب جو کام کرے تمھارے؟
رگوں میں جب خون جواں تھا
کیوں تم نے نہ نوٹ بنائے؟
کیوں تم نے نہ خواب سجائے؟
کیوں بیٹھے ہو سڑک کنارے؟
دھوپ میں یوں گرمی کے مارے!
دھیرے سے نظریں اُٹھا کر
دُھکتی کمر کو سہلا کر
دھیما دھیما سا مُسکا کر
بوڑھا بے حد پیار سے بولا
"ارے او نادان لاہوری
تُو کیا جانے غربت کیا ہے!"ْ*
(نوید رزاق بٹ)
* غیر فلاحی معاشروں میں غریب عموما ماں کی گود سے قبر تک، اور پھر نسل در نسل، غریب ہی رہتا ہے۔
(برکت چوک پر 'دیہاڑی' کے انتظار میں بیٹھے بوڑھے مزدور سے)
بیٹھے کیوں ہو سڑک کنارے؟
دُھوپ میں یوں گرمی کے مارے
کیا دنیا میں کوئی نہیں ہے
اب جو کام کرے تمھارے؟
رگوں میں جب خون جواں تھا
کیوں تم نے نہ نوٹ بنائے؟
کیوں تم نے نہ خواب سجائے؟
کیوں بیٹھے ہو سڑک کنارے؟
دھوپ میں یوں گرمی کے مارے!
دھیرے سے نظریں اُٹھا کر
دُھکتی کمر کو سہلا کر
دھیما دھیما سا مُسکا کر
بوڑھا بے حد پیار سے بولا
"ارے او نادان لاہوری
تُو کیا جانے غربت کیا ہے!"ْ*
(نوید رزاق بٹ)
* غیر فلاحی معاشروں میں غریب عموما ماں کی گود سے قبر تک، اور پھر نسل در نسل، غریب ہی رہتا ہے۔