نادان ہے جو رختِ سفر دیکھتا نہ ہو غزل نمبر 98 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
نادان ہے جو رختِ سفر دیکھتا نہ ہو
پرواز سے پہلے ہی جو پر دیکھتا نہ ہو

آئینے میں وہ حُسن اپنا دیکھتے ہیں اور
چُھپ کر کوئی یہ دل میں ہے ڈر دیکھتا نہ ہو

یہ خوشنما باغات، سمندر یہ فضائیں
ہے کم نظر جو ایک نظر دیکھتا نہ ہو

نادان ہے غافل ہے جو سوتا رہا شب بھر
پڑھ کر نماز نورِ سحر دیکھتا نہ ہو

مکھی کی مثل شخص ہےجو زخم پر بیٹھے
بس عیب ہی ڈھونڈے جو ہنر دیکھتا نہ ہو

افسوس ہے اس عاشقِ ناکام پر کہ جو
محبوب کی آنکھوں میں قدر دیکھتا نہ ہو

اس وقت کے حاکم کو خدایا تُو سزا دے
مظلوم کی آنکھوں کو جو تر دیکھتا نہ ہو

شارؔق مقامِ عشق ہے یہ کیا کہ جب کوئی
آنکھیں تو کھلی رکھے مگر دیکھتا نہ ہو
 
Top