عینی مروت
محفلین
ناراضگئ دوست
وہ دوست،جاں سے عزیز ساتھی
شریک بچپن کی شوخیوں کا اداسیوں کا
ہم سے جب سے خفا ہوا ہے تو یوں لگے ہے
دمکتے تاروں کی کہکشاں بھی ہے روٹھی روٹھی
کہ ہم نے مل کے۔۔۔۔
اس کے ڈوبتے ہوئے ستاروں کو دیکھ کر تھیں دعائیں مانگی
سلگتی تپتی دوپہریں گرما کی
کریں نہ ہم سے کلام خاموش رہتی ہردم
یہ لمحے پرشور تھے ہماری شرارتوں سے،حماقتوں سے
وہ یار ،روتے لمحوں کا ہمدم
اب اس نے آنکھوں سے بہتے پانیوں کا بٹوارہ بھی کر لیا ہے
شریکِ رنج و طرب سدا تھا
اب اپنی خوشیوں کا لمحہ لمحہ جدا جدا ہے
اسے یہ کہنا۔۔۔
اسے یہ کہناکہ اس سے پہلے
کہ جگنو یادوں کے ٹمٹمانا ہی چھوڑ جائیں
تتلیاں گلستاں کا رستہ ہی بھول جائیں
صبح کا نکلا ہوا تھا بھولا
پلٹ کے آنا ہی بھول جائے
اسے یہ کہنا کہ لوٹ آئے
بہت دنوں سے خفا ہے ہم سے
وہ من بھی جائے۔۔۔۔!!۔