محمد بلال اعظم
لائبریرین
ناروا ہے سخن شکایت کا
وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
دشت میں شہر ہو گئے آباد
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
وقت ہے اور کوئی کام نہیں
بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا
بس اگر تذکرہ کروں تو کروں
کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا
مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا
اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا
اپنے ہونے کا ، اپنی حالت کا
تجھ کو پا کر زیاں ہوا ہم کو
تو نہیں تھا ہماری قیمت کا
صبح سے شام تک میری دُنیا
ایک منظر ہے اس کی رخصت کا
کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھا جاگنے کی حالت کا
کہتے ہیں انتہائے عشق جسے
اک فقط کھیل ہے مروت کا
آ گئی درمیان روح کی بات
ذکر تھا جسم کی ضرورت کا
زندگی کی غزل تمام ہوئی
قافیہ رہ گیا محبت کا
وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
دشت میں شہر ہو گئے آباد
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
وقت ہے اور کوئی کام نہیں
بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا
بس اگر تذکرہ کروں تو کروں
کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا
مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا
اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا
اپنے ہونے کا ، اپنی حالت کا
تجھ کو پا کر زیاں ہوا ہم کو
تو نہیں تھا ہماری قیمت کا
صبح سے شام تک میری دُنیا
ایک منظر ہے اس کی رخصت کا
کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھا جاگنے کی حالت کا
کہتے ہیں انتہائے عشق جسے
اک فقط کھیل ہے مروت کا
آ گئی درمیان روح کی بات
ذکر تھا جسم کی ضرورت کا
زندگی کی غزل تمام ہوئی
قافیہ رہ گیا محبت کا