جوش نازک اندامانِ کالج سے خطاب! - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
چھین لی تم نے نسائیت سے ہر شیریں ادا
مرحبا، اے نازک اندامانِ کالج! مرحبا
جنگ سر پر، اور یہ محبوبیت چھائی ہوئی
ناز سے نیچی نگاہیں، چال اٹھلائی ہوئی
انکھڑیوں میں عشوۂ ترکانہ در کھولے ہوئے
'سینٹ' کی خوشبو میں روحِ ناز پر تولے ہوئے
'خال و خد' سے جذب ہائے صنفِ نازک آشکار
'کرزنی' چہروں میں 'زن' بننے کے ارماں بے قرار
الحذر! یہ جنبشِ مژگاں کا شیریں ارتعاش
عزتِ آبا کا دل ہے جس کی رَو میں پاش پاش
الاماں! یہ زینتیں، موزے ہیں گو اترے ہوئے
ذوق ہے گھنگرو کا 'گیٹس' پاؤں میں پہنے ہوئے
ریشمی رومال سے ہے فرقِ نازک پر بہار
اوڑھنی پر دیدنی ہے راہ کا گرد و غبار
نازکی کا مقتضیٰ، پتلی چھڑی باندھے ہوئے
شوق کنگن کا کلائی پر گھڑی باندھے ہوئے
جنگ اور نازک کلائی، پیچ ہیں تقدیر کے
مڑ نہ جائے گی 'نگوڑی' بوجھ سے شمشیر کے
پاؤں رکھتے ہو دمِ گُل گشت کس کس ناز سے
اے میں قرباں! رن میں نکلو گے اسی انداز سے؟
دیر سے توپوں کے منہ کھولے ہوئے ہے روزگار
سینۂ گیتی میں ہے جس کی دمک سے خلفشار
شغلِ زینت سے تمہیں فرصت مگر ملتی نہیں
کیا تمہارے پاؤں کے نیچے زمیں ہلتی نہیں؟
سن لو جو موزوں نہیں مردانہ سیرت کے لیے
زندگی اُن کی وبا ہے آدمیت کے لیے
مرد کہتے ہیں اُسے، اے مانگ چوٹی کے غلام
جس کے ہاتھوں میں ہو طوفانی عناصر کی لگام
مرد کی تخلیق ہے زور آزمانے کے لیے
گردنیں سرکش حوادث کی جھکانے کے لیے
مرد ہے سیلاب کے اندر اکڑنے کے لیے
بحر کی بپھری ہوئی موجوں سے لڑنے کے لیے
مرد کہتے ہیں اُسے اے بندگانِ طمطراق
جو جلالِ برق و باراں کا اڑاتا ہو مذاق
جنگ میں ہو بانکپن جس کی شجاعت کا گواہ
رزم کے میداں میں کج کرتا ہو ماتھے پر کلاہ
دوڑتا ہو شعلہ خو بجلی کا دامن تھامنے
مسکراتا ہو گرجتے بادلوں کے سامنے
مضحکہ کرتا ہو خوں آشام تلواروں کے ساتھ
کھیلتی ہوں جس کی نیندیں سرخ انگاروں کے ساتھ
تم مگر اِس زندگی کے کھیل سے رہتے ہو دور
آفریں اے عصرِ حاضر کے جوانانِ غیور!
ہے تمہارا ارتقا پروردۂ سعئ زوال
الاماں تعلیمِ کالج کا اجل پرور مآل
جیب میں کوڑی نہیں اور اس قدر شان و شکوہ
سر جھکا لے شرم سے اے فاقہ مستوں کے گروہ
یوں تمہارے منہ کے اندر ہے فرنگی کی زباں
خوف ہے گونگا نہ ہو جائے کہیں ہندوستاں
یہ لباسِ مغربی جلووں کو چمکاتا نہیں
تم کو اِس بہروپیے پن سے حجاب آتا نہیں
کیا غضب ہے تم سے بوئے ایشیا آتی نہیں
سچ کہو کیا واقعی تم کو حیا آتی نہیں؟
زندگی طوفان ہے، اور ناؤ ہو تم پاپ کی
آہ جیتی جاگتی بدبختیو ماں باپ کی
یہ بھی کوئی زندگی ہے، غم کی ماری زندگی
نوعِ انسانی کی ذلت ہے تمہاری زندگی
یہ بھی کوئی زندگی ہے، سست و غافل زندگی
بے حمیت، بدگہر، بے روح، بزدل زندگی
یہ بھی کوئی زندگی ہے، پست و ابتر زندگی
فکر سے کچلی ہوئی، بیمار و لاغر زندگی
یہ بھی کوئی زندگی ہے، بے نظام و بے اساس
جذبۂ تقلیدِ مغرب میں زبون و بدحواس
آہ بھرتی زندگی، آنسو بہاتی زندگی
بھوک کی دلدل کی تہ میں کلبلاتی زندگی
بھاگتی، بچتی، دبکتی، تھرتھراتی زندگی
کانپتی، ڈرتی لرزتی، کپکپاتی زندگی
جس کو اک دن بھی نہ حاصل فارغ البالی ہوئی
موت کے بے رحم و سرد آغوش کی پالی ہوئی
راستہ دیتی ہوئی، پیہم سرکتی زندگی
پیٹ کے بل رینگنے والی سسکتی زندگی
مفلسی کی یورشِ پیہم سے گھبرائی ہوئی
غیر کی روندی ہوئی، دشمن کی ٹھکرائی ہوئی
آہ، اے بیگانۂ انجام و آغازِ حیات
سُن، کہ تا کھل جائے تیری 'موت' پر رازِ حیات
اہلِ عالم کی نظر میں محترم ہوتا نہیں
مرد جب تک صاحبِ سیف و قلم ہوتا نہیں
سیف کا دامن تو ہے اک عمر سے چھوٹا ہوا
اور قلم ہے اک، سو وہ بھی خیر سے ٹوٹا ہوا
کچھ خبر بھی ہے تجھے اے طفلکِ زار و نزار
زیست کا ہے دست و بازو کی صلابت پر مدار
غور سے سن اے نگارِ مجلسِ تہذیبِ خام
کھردرے ہاتھوں میں رہتی ہے حکومت کی لگام
بل پہ لوہے کے جو لے سکتا ہے دنیا سے خراج
جگمگاتا ہے اُسی کے فرق پر سونے کا تاج
فکرِ ناقص کو تری سرمایۂ تحقیق دے
کاش دنیا مرد بننے کی تجھے توفیق دے
عزم تیرا آگ کے سانچے میں جب ڈھل جائے گا
طوقِ محکومی کا لوہا خود بخود گل جائے گا
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۳۱ء
 
Top