عاطف بٹ
محفلین
ناقابل فہم، ناقابل قبول اور شرمناک
ڈاکٹرشاہد حسن صدیقی
یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ ایسی پارلیمینٹ اگلے چند دنوں میں ٹیکس ایمنٹی اسکیموں کی منظوری دینے جا رہی ہے جس کے 446 میں سے تقریباً 300/ارکان نے2011ء میں اپنے انکم ٹیکس کے سالانہ گوشوارے ہی داخل کرنا گوارا نہیں کئے۔ اگر خدانخواستہ پارلیمینٹ ان اسکیموں کی منظوری دے دیتی ہے تو ان سے قومی خزانہ اگلے چند ماہ میں تقریباً 2000/ارب روپے کے ٹیکسوں کی ممکنہ وصولی سے محروم ہو جائے گا۔ موجودہ پارلیمینٹ اور حکومت میں دہری شہریت رکھنے والے، جعلی ڈگری رکھنے والے، بینکوں سے اپنے قرضے غلط طریقوں سے معاف کرانے والے، مختلف الزامات کی زد میں آئے ہوئے اور آئین پاکستان کی شق62/اور 63 پر پورا نہ اترنے والے افراد براجمان ہیں۔ پاکستانی قوم کے لئے بھی یہ بات باعث شرم ہے کہ ممتاز برطانوی جریدے ”اکانومسٹ“ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں لکھا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس چوری کے کلچر اور دھوکا دہی کی ابتدا حکام بالا کرتے ہیں اور اکثر ارکان پارلیمینٹ جن میں اکثریت امیروں کی ہے، ٹیکس کے گوشوارے داخل ہی نہیں کرتے۔ ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ 2013 ء میں جاری ہونے والی اس نام نہاد ٹیکس اسکیم کے اجرا کا انکشاف خود ایف بی آر نے ایک منصوبے کے تحت گزشتہ مالی سال میں ہی کر دیا تھا تاکہ وہ افراد بھی جو گزشتہ برسوں میں ٹیکس گوشوارے داخل کرتے رہے تھے، اگر چاہیں تو 2011-12ء کی آمدنی پر مروجہ ٹیکس کی شرح کے تحت ٹیکسوں کی ادائیگی کرنے کے بجائے اس آمدنی کو بھی2013ء میں جاری ہونے والی ایمنٹی اسکیم کے تحت ظاہر کر کے ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچ سکیں۔ ٹیکس سال 2011 میں 1501630 ٹیکسوں کے گوشوارے داخل کئے گئے تھے جب کہ اگلے برس صرف 811343 گوشوارے جمع کرائے گئے یعنی 690287/ افراد اور ادارے ایسے تھے جنہوں نے ایک برس بعد ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے، کسی بھی ایک برس میں اس زبردست کمی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ایف بی آر کے چیئرمین نے سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ کے سامنے مجوزہ ٹیکس ایمنٹی اسکیموں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر38 لاکھ ٹیکس دہندگان کے اثاثوں کی فہرست ان کے ادارے کے افسران کو دے دی جائے تو وہ ان افراد سے ٹیکس وصول کرنے کے بجائے ان افراد سے رشوت لے لیں گے چنانچہ ٹیکس دہندگان کا دائرہ وسیع کرنے کے لئے ٹیکس ایمنٹی اسکیم کے اجرا کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ بے بسی کا یہ اظہار ناقابل فہم اور قطعی غلط ہے کیونکہ 18ماہ قبل ہی وزیر خزانہ نے کرپشن پر قابو پانے کے ضمن میں ایف بی آر کی تعریف کی تھی۔ چیئرمین ایف بی آر کا یہ بیان بہرحال ہماری اس تجویز کی توثیق کرتا ہے جو ہم گزشتہ برسوں سے تواتر کیساتھ پیش کرتے رہتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر ریکارڈ میں موجود کئی ہزار ارب روپے کے اثاثوں کا کمپیوٹر کے ذریعے متعلقہ ٹیکس دہندگان کے سالانہ ٹیکس گوشواروں سے موازنہ کیا جائے تو ٹیکس حکام سے خفیہ رکھے ہوئے کئی ہزار ارب روپے کے ایسے اثاثوں کا سراغ مل جائے گا جو ٹیکس چوری کی ہوئی رقوم سے بنائے گئے ہیں۔ یہ اثاثے قومی بچت اسکیموں ، بینکوں کے ڈپازٹس، اسٹاک مارکیٹ کے حصص، جائیداد اور گاڑیوں کی شکل میں ہیں۔ یہ خفیہ اثاثے نہیں ہیں چنانچہ ان اثاثوں کو قانونی اور اخلاقی طور پر ٹیکس ایمنٹی اسکیم کے تحت نہیں لایا جا سکتا کیونکہ مروجہ قوانین کے تحت ان اثاثوں سے ہی انکم ٹیکس براہ راست وصول کیا جا سکتا ہے۔ اس تمام کام کی نگرانی کے لئے صرف ایک درجن ایماندار اور تجربہ کار افسران درکار ہوں گے۔ اگر ایف بی آر میں ایک درجن بھی ایسے افراد موجود نہیں ہیں تو دوسرے محکموں سے ڈیپوٹیشن پر چند ماہ کے لئے اہلکار بھیجے جا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے این آر او کو کالعدم قرار دیا تھا۔ مجوزہ ٹیکس ایمنٹی اسکیمیں مالیاتی این آر او ہونے کی بنا پر غیر قانونی ہیں چنانچہ اگر پارلیمینٹ انہیں منظور کر لے یا صدر زرداری آرڈیننس نافذ کریں، سپریم کورٹ کو ان کا نوٹس لینا چاہئے۔
وطن عزیز میں ماضی میں ”صرف ایک مرتبہ“ کے نام پر پانچ ٹیکس ایمنٹی اسکیموں کا اجرا کیا جا چکا ہے۔ بھارت میں 30 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر ٹیکس ایمنٹی اسکیم کا اجرا کیا گیا تھا۔ ایسی ہی ٹیکس ایمنٹی اسکیمیں صرف ان اثاثوں کے لئے جو خفیہ رکھے ہی نہیں جا سکتے تھے ماضی میں کچھ ملکوں نے جاری کی تھیں۔ پاکستان میں ٹیکس ایمنٹی اسکیم ہر قسم کے اثاثوں پر صرف تقریباً ایک فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر جاری کی جا رہی ہیں ملک کے داخلی قرضوں کا حجم آٹھ ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے جو بڑھتا ہی جائے گا۔ موجودہ حالات میں کوئی بھی حکومت ان کو کبھی بھی واپس نہیں کر پائے گی۔ ہر قسم کی آمدنی پر وفاقی اور صوبائی سطح پر بلا کسی استثنیٰ ٹیکس وصول کرنے اور ان رقوم کو دیانتداری سے استعمال کرنے کے بجائے ٹیکس ایمنٹی اسکیموں کا اجرا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ آگے چل کر معیشت کو سنگین بحران سے دوچار کر دے گی جس سے نکلنے کے لئے قومی سلامتی کے تقاضوں کو داؤ پر لگا کر بیرونی مدد طلب کرنا ہوگی۔ ہم اپنی یہ تجویز پھر دہرائیں گے کہ ممبران پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی کے اراکین، سول و ملٹری بیوروکریسی، اعلیٰ عدلیہ کے جج اور مرکزی و صوبائی وزراء کو پابند کیا جائے کہ وہ بیرونی ملکوں میں بینکوں کے کھاتے چند ہفتوں میں پاکستان منتقل کرالیں۔ اس کے بعد سمندر پار پاکستانیوں کو ایک برس یا اس سے زائد مدت کے بیرونی کرنسی کے کھاتوں پر4 فیصد سالانہ کی شرح منافع کی پیشکش کی جائے تاکہ 2013ء میں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔ ٹیکس ایمنٹی اسکیموں کو رد کر کے جو اقدامات اٹھانا ہوں گے وہ ہم نے اپنے دو کالموں ”پھر ایک اور مالیاتی این آر او“ (جنگ 14 نومبر2012ء) اور ”پارلیمنٹ۔ گناہ بخشوانے کا آخری موقع“ (جنگ 22نومبر 2012ء) میں پیش کر دی ہیں۔ ان پر عملدرآمد خوشحال اور خود مختار پاکستان کا ضامن ہو گا وگرنہ خود کشی کا راستہ کھلا ہے۔
وطن عزیز میں جو سیاسی و مذہبی جماعتیں اقتدار میں آکر یا اس کے بغیر کرپشن پر قابو پانے اور بیرونی ڈکٹیشن نہ لینے کے دعوے کر رہی ہیں اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف ریلیاں نکالتی ہیں، دھرنا دیتی ہیں اور اب لانگ مارچ کا اعلان کر رہی ہیں وہ سب ٹیکس ایمنٹی اسکیموں کے خلاف رسمی بیانات دینے پر اکتفا کر رہی ہیں کیونکہ ان قابل نفرت اسکیموں سے ان کے اپنے یا ان کی حمایت و امداد کرنے والوں کے ناجائز مفادات کا تحفظ ہو گا۔ ان غیر اسلامی اسکیموں کے ضمن میں علماء، اسلامی نظریاتی کونسل اور وکلاء برادری نے بھی بوجوہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ان اسکیموں کے ذریعے آنے والے برسوں میں کی جانے والی کرپشن کے ذریعے حاصل ہونے والی رقوم پر بھی قانونی تحفظ حاصل کر لیا جائے گا کیونکہ ایک شخص ان رقوم پر معمولی ٹیکس دے کر پاک صاف ہو جائے گا جو اس کے پاس اب موجود ہی نہیں ہیں بلکہ آئندہ برسوں میں جائز اور ناجائز طریقوں سے حاصل کی جائیں گی۔ صاف ظاہر ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد مختصر عرصے میں کرپشن پر قابو پانے کے سیاسی پارٹیوں کے دعوے خود بخود باطل قرار پائیں گے۔ آزاد اور بے باک میڈیا کو خصوصاً ٹاک شوز میں ان اسکیموں کے خلاف فوری طور پر رائے عامہ کو بیدار کرنا ہوگا۔