نالہ و آہ میں دھرا کیا ہے - مرزا عزیز بیگ سہارنپوری (مخمس بر غزلِ غالب)

حسان خان

لائبریرین
نالہ و آہ میں دھرا کیا ہے
حاصلِ گریہ و بکا کیا ہے
اس تڑپنے سے مدعا کیا ہے
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہے یہاں دل کو شوقِ جلوۂ یار
اور وہاں پر وہ مانعِ دیدار
ان کو ہے بات بات پر انکار
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
غیر کب تک کہے گا حالِ دروں
آپ کب تک سنیں گے یہ مضموں
ہو چکی انتہائے ضبط و سکوں
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
کہتے ہیں واقفانِ غیب و شہود
ایک ہیں عبد و عابد و معبود
آخر ان کا ہے اس سے کیا مقصود
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
جمگھٹے کیسے عاشقوں کے ہیں
اور معشوق کس کو کہتے ہیں
حُسن کے پھر یہ کیسے جلوے ہیں
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
عشوہ و غمزہ و ادا کیا ہے
ایک سے ایک نازنیں کیوں ہے
دام بر دوش ہر حسیں کیوں ہے
فکرِ صیدِ دلِ حزیں کیوں ہے
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے
کس لیے پھول رنگ لائے ہیں
کیوں یہ لالے نے داغ کھائے ہیں
کس نے یہ تازہ گل کھلائے ہیں
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے
ہیں محبت کے بھی نرالے بھید
آہ نغمہ ہے اس میں نالہ نشید
یاس کو مژدہ اور اجل کو نوید
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
دکھ کسی کو دیا تو کیا ہو گا
تیرے حق میں بہت برا ہو گا
بد نتیجہ برائی کا ہو گا
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے
کب یہ مکر اختیار کرتا ہوں
کب دعا بار بار کرتا ہوں
طرزِ دشمن سے عار کرتا ہوں
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
مثلِ مرزاؔ ہے گو ذہیں غالبؔ
شعر کہتا ہے دلنشیں غالبؔ
ہے مگر رند بالیقیں غالبؔ
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
(مرزا عزیز بیگ سہارنپوری)
 
Top