رباب واسطی
محفلین
استخارہ کی تاکید اور اہمیت کے حوالے سے اچھی خاصی تعداد میں احادیث نبویﷺ صحائح ستہ میں مذکور ہیں۔ زندگی میں جب کبھی ایسا مقام آجائے کہ کوئی کام کیا جائے یا نہ کیا جائے کا اجتماعی یا انفرادی طور پرفیصلہ نہ کیا جا سکے تو استخارہ کی تاکید بھی کی گئی ہے اور اہمیت بھی بیان کی گئی ہے۔ آج بھی بہت سے باعلم حضرات استخارہ سے استفادہ کرتے ہیں۔ استخارہ کے ایک سے زائد طریقے بیان کیئے گئے ہیں۔
ایک ضعیف العقیدہ صاحب کو بھی استخارہ سے متعلق کہیں سے کچھ معلومات حاصل ہوئیں تو ان صاحب نے استخارہ کا طریقہ جاننے کے لیئے مختلف علما سے سرسری سی معلومات حاصل کیں اور کچھ کتابوں سےمعلومات اکٹھی کیں اور زندگی کے جملہ امور میں قران سے استخارہ کو لازمی جزو بنا لیا۔ بد قسمتی سے وہ صاحب شوگر کے مریض تھے اور کسی دعوت میں شرکت کے لیئے گئے جہاں کھانے میں صرف میٹھا ہی میٹھا تھا۔ حضرت نے میزبان سے درخواست کرکے گھر کے ایک گوشہ میں جاکر استخارہ کے کلمات پڑھ کر قران پاک کو کھولا تو سورۃُ النحل کی آیت 68-69 سامنے آئی
"نیز آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں ،درختوں میں ، اور (انگور وغیرہ کی )بیل میں اپنا گھر (چھتا)بنا۔پھرہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ۔ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کامشروب (شہد)نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں"
اور ان صاحب نے "پھرہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس" کا مطلب یہ لیا کہ میٹھے کی تمام ڈشوں سے کھانے کا استخارہ اآیا ہے لہذامیٹھے کی تمام ڈشوں سے مکمل انصاف کیا۔ پھر ظاہری سی بات ہے نتیجہ جو ہو سکتا تھا وہی ہوا
اسی محفل میں اک عالم بھی موجود تھے ۔ لوگوں نے ان کو سب بات بتا کر اصل ماجرا دریافت کیا کہ استخارہ کے بارے میں تو حدیثَ مبارکہ ہے کہ
جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا (طبرانی)
پھر یہ ناگہانی کیونکر ممکن ہوئی۔ عالم گویا ہوئے کہ آیت کے ترجمہ "پھرہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ" پر غور کریں کہ ایک مکھی ایک وقت میں ایک پھول سے زیادہ سے زیادہ کتنا رس چوس سکتی ہے
مورل: نامکمل علم انسان کو جہالت ہی نہیں فنا کی جانب دھکیل دیتا ہے
ایک ضعیف العقیدہ صاحب کو بھی استخارہ سے متعلق کہیں سے کچھ معلومات حاصل ہوئیں تو ان صاحب نے استخارہ کا طریقہ جاننے کے لیئے مختلف علما سے سرسری سی معلومات حاصل کیں اور کچھ کتابوں سےمعلومات اکٹھی کیں اور زندگی کے جملہ امور میں قران سے استخارہ کو لازمی جزو بنا لیا۔ بد قسمتی سے وہ صاحب شوگر کے مریض تھے اور کسی دعوت میں شرکت کے لیئے گئے جہاں کھانے میں صرف میٹھا ہی میٹھا تھا۔ حضرت نے میزبان سے درخواست کرکے گھر کے ایک گوشہ میں جاکر استخارہ کے کلمات پڑھ کر قران پاک کو کھولا تو سورۃُ النحل کی آیت 68-69 سامنے آئی
"نیز آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں ،درختوں میں ، اور (انگور وغیرہ کی )بیل میں اپنا گھر (چھتا)بنا۔پھرہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ۔ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کامشروب (شہد)نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں"
اور ان صاحب نے "پھرہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس" کا مطلب یہ لیا کہ میٹھے کی تمام ڈشوں سے کھانے کا استخارہ اآیا ہے لہذامیٹھے کی تمام ڈشوں سے مکمل انصاف کیا۔ پھر ظاہری سی بات ہے نتیجہ جو ہو سکتا تھا وہی ہوا
اسی محفل میں اک عالم بھی موجود تھے ۔ لوگوں نے ان کو سب بات بتا کر اصل ماجرا دریافت کیا کہ استخارہ کے بارے میں تو حدیثَ مبارکہ ہے کہ
جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا (طبرانی)
پھر یہ ناگہانی کیونکر ممکن ہوئی۔ عالم گویا ہوئے کہ آیت کے ترجمہ "پھرہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ" پر غور کریں کہ ایک مکھی ایک وقت میں ایک پھول سے زیادہ سے زیادہ کتنا رس چوس سکتی ہے
مورل: نامکمل علم انسان کو جہالت ہی نہیں فنا کی جانب دھکیل دیتا ہے