نامہِ عشق لئے کون پیمبر آیا :تازہ غزل

بھیگتی رات لئے پھر سے دسمبر آیا
آج پھر یاد ہمیں ایک ستمگر آیا

پھر سے ملنا ہے اسے اور بچھڑ جانا ہے
ہائے کس موڑ پہ لے کر یہ مقدر آیا

ہم تو سمجھے تھے کہ پتھر ہے دھرا سینے میں
ذکر پھر کس کا چھڑا ہے کہ یہ جی بھر آیا

شہرِ ظلمت میں جلانے کو نئی شمعِ امید
نامہِ عشق لئے کون پیمبر آیا

چیختی خامشی رخصت ہوئی دروازے سے
ایک سناٹا سرِ شام مرے گھر آیا

راز جتنے تھے ہمارے وہ ہوئے سب ظاہر
جب ترا ذکر فسانے میں مرے در آیا

کس نے مضراب کیا یاد کی تاروں کو شکیل
گیت بِسرا ہوا یک لخت لبوں پر آیا

ایک تازہ کلام

استادِ محترم الف عین
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
 
آخری تدوین:
Top