ناکام ریاست

کیا پاکستان ناکام ریاست ہے

  • نہیں

    Votes: 11 68.8%
  • ہاں

    Votes: 4 25.0%
  • پتہ نہیں

    Votes: 1 6.3%

  • Total voters
    16
ایک ریاست جس کے لوگوں کی اکثریت اسکی حکومت کی مخالف ہو
ایک ریاست جس کی مختلف ابادیاں و اقوام خود ریاست کی مخالف ہوں
ایک ریاست جس پر ایک صوبے کا تسلط ہو
ایک ریاست جس کی افواج پرائے دن حملے ہوں
ایک ریاست جس کی کوئی رٹ نہ ہو اور اسکے ادارے اپس میں لڑ رہے ہوں
ایک ریاست جس میں دشمن ملک کے جہاز روز حملے کررہے ہوں
ایک ریاست جس پر دشمن ملک کے کاپڑز اکر حملے کریں اور لوگوں کو قتل کریں اور اسکا بادشاہ و وزیر تالیاں پیٹیں
کیا ناکام ریاست نہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے درست کہا، پاکستان کو ایک "ناکام ریاست" کہا جا سکتا ہے لیکن جو وجوہات آپ نے اپنی "چارج شیٹ" میں گنوائی ہیں، معذرت کے ساتھ وہ آپ کے اپنے تعصب کی نشاندہی کرتی ہیں حالانکہ

- ایک ریاست جس کی (تمام) حکومتیں اپنے فرائض سر انجام دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہوں۔
- ایک ریاست جس کے (تمام) حکمران اپنے ذاتی مفادات کے غلام ہوں۔
- ایک ریاست جس کے (تمام) ادارے اپنے فرائض سر انجام دینے میں ناکام رہے ہوں۔
- ایک ریاست جس کے باشندوں کو بنیادی سہولیات کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہو۔
- ایک ریاست جس کے رہنے والوں کی جان، مال، عزت کے تحفظ کا کوئی بندوبست نہ ہو۔
- ایک ریاست جس میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا کوئی تصور ہی نہ ہو
- ایک ریاست جس میں امن و امان کے شدید مسائل ہوں
- ایک ریاست جس کے باشندے اپنے اپنے مذہبی فرائض آزادی سے سر انجام نہ دے سکتے ہوں۔
- ایک ریاست جس کے حکمرانوں سے لیکر عوام تک، سب کی رگ و پے میں کرپشن سمائی ہو۔
- ایک ریاست جو قرضوں کے شدید بوجھ تلے دبی ہو اور جس کے شدید معاشی مسائل کا سامنا ہو۔
- ایک ریاست جس کی اپنی کوئی خارجہ و داخلہ وغیرہ پالیسیاں نہ ہوں

وغیرہ وغیرہ

ایسی ریاست کو یقیناً ایک "ناکام ریاست" کہا جا سکتا ہے۔
 
درست کہا اپ نے
چلیں یہ چارج بھی شامل کرلیتے ہیں۔
ویسے ایک ریاست جس میں لوگ مسلکی، فقہی، نسلی و ذیلی قومیتوں کے تعصب میں مبتلا ہوں
اپ کی درج کردہ چارج بھی شامل کرلیتے ہیں۔
ایسی صورت میں کیا امریکہ حق بجانب نہیں بنتا کہ اس کی افواج اکر حالات سدھاریں؟
 

محمداحمد

لائبریرین
درست کہا اپ نے
چلیں یہ چارج بھی شامل کرلیتے ہیں۔
ویسے ایک ریاست جس میں لوگ مسلکی، فقہی، نسلی و ذیلی قومیتوں کے تعصب میں مبتلا ہوں
اپ کی درج کردہ چارج بھی شامل کرلیتے ہیں۔
ایسی صورت میں کیا امریکہ حق بجانب نہیں بنتا کہ اس کی افواج اکر حالات سدھاریں؟

جی وہ تو یوں بھی پوری دنیا کے مائی باپ ہیں۔ وہ نہ بھی ہوں تو حق پہ ہی ہوتے ہیں۔
 
پھر کیوں نہ ہم ہیڈڈاون کرکے امریکہ کی غلامی قبول نہیں کرلیتے
دیکھیے کوریا نے یہ کیا ہے تو کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
پھر ترکی بھی اسی طرح کرکے ترقی کررہا ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم جتنا ہیڈ ڈاؤن کرچکے ہیں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔

پاکستانی عوام اگر خود کو اسلام سے بری کر لے تو پھر ترقی کی راہیں کھلیں ہیں۔ لیکن جو لوگ انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہیں وہ بھی شاید اعلانیہ یہ ایسا نہ کرسکیں۔
 

ساجد

محفلین
ترکی اور کوریا کے ساتھ ساتھ آپ چین اور ملایشیا کا ذکر ملائیں تو بات برابر ہو جاتی ہے کہ مؤخرالذکر ممالک امریکی کیمپ میں شامل نہ ہو کر بھی متاثر کن ترقی کر رہے ہیں۔ اب آئیں فلپائن کی طرف کہ امریکہ سے باہر امریکی فوج کا سب سے بڑا مسکن ہونے کے باوجود ترقی میں پیچھے ہے۔ ویت نام جو کہ امریکی فوجیوں کا قبرستان کہلاتا ہے اس کی ترقی کی رفتار فلپائن سے زیادہ ہے۔
بھارت جو کہ کل تک روس کا ہم نوا تھا امریکہ کے ساتھ اپنی شرائط پر ساجھے داری بڑھا رہا ہے اگرچہ اس میں امریکہ کی چین کو کنٹرول کرنے کی پالیسی بھی کار فرما ہے لیکن بھارت کے ساتھ تکنیکی تعاون میں صرف یہی ایک وجہ نہیں ۔بھارتی حکومت نے اپنے عوام کو مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئیے طویل مدتی پالیسیاں بنائیں جس کے ثمرات آج ان کو مل رہے ہیں۔ جب ہم مذہب کے نام پہ نفرتوں کو ہوا دے رہے تھے اور اسلحہ کلچر کو اپنی شناخت بنا رہے تھے اس وقت جو دانشور اس کے تباہ کن نتائج کا ذکر کرتا اسے مغرب زدہ کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا۔
یہ سارے عوامل اس بات کو آشکار کر رہے ہیں کہ ہماری ناکامی کی اصل وجہ امریکہ کے آگے کھڑا ہونا نہیں اور نہ ہی امریکہ کے آگے جھکنے میں اس کا علاج ہے۔ یہ مسئلہ قومی یکجہتی کے معدوم ہونے اور تعلیمی نظام کی ناکامی سے جڑا ہوا ہے۔ ملائشیا اور چین نے بھی بھارت ہی کی طرح سے اپنا سر بلند کیا۔ اور یہ وہی کوریا ہے کہ جس کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے پاکستانی ماہرین بنا کر دیا کرتے تھے آج وہ کوریا ان پر عمل کر کے معزز ممالک کی صف میں کھڑا ہے اور ہم تعلیمی انحطاط ، عاقبت نا اندیش رہنماؤں ، مذہب کٹھ ملاؤں اور صوبائی تعصبات میں پڑ کر خود کو اتنا کمزور کر چکے ہیں کہ اب گاؤں کے مراثی والا حال ہے۔
عالمی شطرنج کی چال کچھ ایسی رہی کہ خارجی عوامل بھی ہمارے خلاف گئے اور ہم اپنی بات دنیا تک پہنچانے کی سفارتی اور صحافتی تکلیف بھی نہ کر سکے۔ آج نیٹ پہ پاکستان کے خلاف جگہ جگہ غلط پروپیگنڈا ملے گا اور عام پاکستانی اس سے متاثر ہو کر اپنے وطن کو برا بھی کہہ دیتا ہے لیکن ہم میں سے کتنوں میں اہلیت ہے کہ ہم اس بے ہودہ پروپیگنڈے کا عملی و علمی دلیل کے ساتھ جواب دے سکیں؟؟؟۔ ہم بھڑکتے ہیں اور بھڑکانے والے ہم سے مفادات حاصل کرتے ہیں اور اگلے ہی دن اس بھڑک کے بعد ہونے والے تشدد کی شہ سرخیاں پاکستان اور پاکستانیوں کو مزید الجھن اور بدنامی کے سامنے لا کھڑا کرتی ہیں۔
وارث بھائی سے ، معذرت کے ساتھ، میں اتفاق نہیں کروں گا۔ پاکستان ناکام ریاست نہیں ۔ آج سے پندرہ سال پہلے بھارت اس سے بھی کہیں زیادہ مشکلات کا شکار تھا۔ لیکن آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے بر وقت حالات کی نزاکت کو سمجھا اور اس پہ بہت حد تک قابو پایا۔ ہمیں ٹھنڈے دماغ سے کام لینا ہو گا اور انفرادی و اجتماعی طور پہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہو گا اور اگر ہمیں ایک دو اچھے اور مستحکم ادوار حکومت مل جاتے ہیں تو یہ مسائل ختم ہو جائیں گے۔ امریکہ یہاں سر پٹخ کر واپس جا رہا ہے اور جاتے جاتے ہمیں بہت تنگ کرے گا لیکن ہمیں اب عقل سے کام لینا ہے اور آنے والے حالات کو بڑی ذمہ داری اور ایمانداری سے تعلیم ، برداشت اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لئیے وقف کرنا ہو گا ، بالکل ایسے ہی جیسے بھارت اور چین نے کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ساجد بھائی ہمارے بلوچستان کے وزیر اعلٰی فرماتے ہیں کہ ‘ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا جعلی، ڈگری ڈگری ہوتی ہے‘ تو وہاں آپ تعلیمی میدان میں کیا امید رکھ سکتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں آپ کی بات کا جواب صدر اوبامہ کے ايک حاليہ بيان کی روشنی ميں دوں گا جو انھوں نے اقوام متحدہ ميں اپنی ايک تقرير کے دوران ديا تھا۔

"جو امريکہ پر اس بنياد پر تنقيد کرتے رہے ہيں کہ امريکہ اکيلا ہی دنيا بھر ميں اقدامات اٹھاتا رہتا ہے، اب وہ خاموش تماشائ بن کر اس انتظار ميں کھڑے رہنے کے مجاز نہيں ہيں کہ امريکہ تن تنہا دنيا کے مسائل حل کر دے گا۔ ہم نے الفاظ اور عملی اقدامات کے ذريعے دنيا سے روابط قائم کرنے کے ايک نئے دور کا آغاز کر ديا ہے۔

اب يہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس ضمن ميں اپنا کردار ادا کريں۔"

صدر اوبامہ کے الفاظ زمينی حقائق اور دنيا کے اہم ترين مسائل کے ضمن ميں ايک حقيقت پسندانہ تجزيہ ہے۔ يہ ايک غير حقيقی اور غير فطری بات ہے کہ دنيا بھر کے تمام تر مسائل کے ليے امريکہ ہی کو مورد الزام قرار ديا جائے۔ اسی طرح يہ سوچ بھی غلط ہے کہ خطے کے ديگر فريقين اور اہم کرداروں کی ذمہ داريوں کو نظرانداز کر کے امريکہ سے ہی يہ توقع رکھی جائے کہ تمام تر مسائل کرنے ميں امريکی حکومت فيصلہ کن کردار ادا کرے۔ يہ بھی ياد رہے کہ بہت سے عالمی مسائل کئ دہائيوں پر محيط ہيں اور بعض ايشوز ايسے بھی ہيں جن ميں براہراست فريق امريکی مداخلت کے حق ميں ہی نہيں ہيں۔ کشمير کا مسلہ بھی اسی کيٹيگری ميں آتا ہے۔

ماضی بعيد ميں مختلف اقوام کی دنيا ميں حيثيت اور اثر رسوخ کا دارومدار جنگوں اور معرکوں کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے حالات اور نتائج کے تناظر ميں ہوتا تھا جبکہ جديد دور ميں کسی بھی قوم کی برتری کا انحصار سائنس اور ٹيکنالوجی کے ميدان ميں کاميابی، کاروبار اور معاش کے مواقعوں اور نت نئے امکانات کی دستيابی پر مرکوز ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ يا کسی اور ملک کے ليے "سپر پاور" کی اصطلاح اس بنيادی اصول کی مرہون منت ہوتی ہے کہ عام انسانوں کے معيار زندگی ميں بہتری لانے کے لیے کتنے تخليقی ذرائع اور مواقعے مہيا کيے گئے ہيں۔

آج کے جديد دور ميں جنگيں اور فسادات اجتماعی انسانی ترقی اور کاميابی کی راہ ميں رکاوٹ ہيں۔

جب آپ دنيا کے مختلف ممالک میں دی جانے والی امريکی امداد کو غیر اہم قرار ديتے ہيں تو آپ يہ نقطہ نظرانداز کر ديتے ہیں کہ يہ پيسہ دراصل امريکہ کے ٹيکس دہندگان سے حاصل کيا جاتا ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی عوام اپنی حکومت کو محنت سے کمائ ہوئ دولت اس بنياد پر خرچ کرنے کی اجازت دے گي کہ اس امداد کے ذريعے دنيا بھر ميں جنگوں اور فسادات کا سلسلہ دانستہ جاری رکھا جائے؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

dxbgraphics

محفلین
پاکستان کی ترقی کے روکنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے پاس ڈیڑھ روپے فی یونٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہوتے ہوئے بھی خود کی بجلی کو پندرہ روپے میں خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
کسی ملک کی ترقی میں بجلی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور ہمارے ہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کارخانہ دار امارات اور ملائشیا منتقل ہوچکے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی ہمارے بلوچستان کے وزیر اعلٰی فرماتے ہیں کہ ‘ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا جعلی، ڈگری ڈگری ہوتی ہے‘ تو وہاں آپ تعلیمی میدان میں کیا امید رکھ سکتے ہیں۔
اس قسم کے خیالات کے حامل لوگ حالات کی پیداوار ہوتے ہیں اور جس دن حالات کا پہیہ بہتری کی طرف گھوما تو ایسے لوگ سب سے پہلے اس کی زد میں آئیں گے۔ کم ازکم میں پاکستان کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں اور رئیسانی جیسے خیالات پاکستان کا نصیب ہرگز نہیں۔
 
فاواد ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ امریکی عوام بے وقوف ہیں اور انھیں یہودی لابی اسانی کے ساتھ استعمال کرتی ہے
یہ تھیوری ہے کہ 9 11 صہونی لابی کا تخلیق کردہ ہے تاکہ اسلام کو امریکہ میں پھیلنے سے روکا جائے اور امریکہ کی فوجی طاقت اسلام کے خلاف استعمال کی جائے۔ اگر دیکھا جائے تو عراق اور افغانستان میں امریکہ کا قبضہ اور لاکھوں مسلمانوں کا قتل صہیونی مفادات کےلیے ہی ہے ۔ امریکی مفاد بادی النظر اتنا تھا کہ ٹوئن ٹاور کا انتقام لیا جائے۔ وہ انتقام جو اندھا تھا اور اس کی کوئی اخلاقی حثیت نہیں تھی۔
پھر سب کو یہ معلوم ہے کہ امریکی مشینری جنگ سے پھل پھولتی ہے۔ امریکہ کو یہ طاقت پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی بنیاد پر ہی ملی ہے جس پر وہ کھڑا ہے ورنہ تو وہ نیو انگلینڈ ہی تھا۔

ملائیشیا کی ترقی امریکی اثر سے نکل کر نہیں۔ ملائیشیا کی ترقی دراصل امریکی اثر ہی تحت ہے۔ چین اور امریکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ان کے مفادات ایک دوسرے سے ایسے الجھے ہیں کہ سمجھ نہیں اتا امریکہ کون ہے اور چین کون۔ایسا اختلاط تو شبِ وصل ہی نظر اتا ہے۔ اس زمانے میں کسی بھی قسم کی ترقی دراصل امریکہ کے زیر اثر ائے بغیر نہیں ہوسکتی۔

ویت نام بھی کچھ کم نہیں ۔ اب تو ویت نام بھی امریکی عیاشی کا اڈہ ہے
احمد بھائی نے درست کہا۔ امریکہ ہم کو جب اپنا مانے گا جب ہم اسلام کو چھوڑکر امریکی نظریے پر سر جھکا دیں گے جیسا کہ کوریا، ترکی نے کیا ان کا مجھے براہ راست اندازہ ہے بلکہ کہنے دیجیے کہ جیسا ملائیشیا اور چائنانے کیا۔ ان دونوں ممالک کا بھی مجھے براہ راست تجربہ ہے۔ یہ سب ملکوں کے عوام امریکی کلچر کو دل و جان سے اپنا چکے ہیں۔ اگر برانہ مانیں تو میرے تجربے کے مطابق درپردہ عرب ممالک بھی پیچھے نہیں۔
کچھ عوام میں اسلامی غیرت باقی ہے تو وہ افغانستان اور پختونخواہ کے علاقے ہیں۔ بہرحال دنیا میں ترقی اس وقت امریکی کلچر کو دل و جان اپنانے میں ہی ہے ۔ کیا پاکستانی عوام اس کے لیے تیار ہیں؟
 

ساجد

محفلین
پاکستان کی ترقی کے روکنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے پاس ڈیڑھ روپے فی یونٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہوتے ہوئے بھی خود کی بجلی کو پندرہ روپے میں خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
کسی ملک کی ترقی میں بجلی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور ہمارے ہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کارخانہ دار امارات اور ملائشیا منتقل ہوچکے ہیں۔
پہلے سودے میں کمشن پھر ٹھیکے میں کمشن اس کے بعد نہ جانے کہاں کہاں کمشن۔ یہ کمشن ایجنٹس اپنے محلات کوئی باپ کی کمائی سے بیرون ملک بنوا رہے ہیں؟۔ ہم ان کے پیچھے جیوے جیوے کے نعرے لگانے کی بجائے ان کا محاسبہ کریں تو کچھ کام بن جائے گا۔نہیں تو بجلی اور گیس دونوں نایاب کر دئیے جائیں گے۔
 
محاسبہ کرے گا کون ۔ یہاں تو اوے کا اوا بگڑا ہوا ہے ۔ اگر کہا جائے کہ فوج کا محاسبہ کرو جو امریکی ایجنٹ بن چکی ہے تو کہا جاتا ہے کہ طالبان کا حامی ہے۔ اگر کہا جائے کہ پنجاب کا محاسبہ کرو تو کہا جاتا ہے کہ تعصب پسند ہے ۔ اگر کہاجائے کہ سندھ کا محاسبہ کرو تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان توڑدیں گے۔پاکستان نہ کھپے۔ کون کرے گا محاسبہ۔ کیا بہتر نہ ہوگا کہ امریکی فوج اکر محاسبہ کرے؟ؤ
 

ساجد

محفلین
محاسبہ کرے گا کون ۔ یہاں تو اوے کا اوا بگڑا ہوا ہے ۔ اگر کہا جائے کہ فوج کا محاسبہ کرو جو امریکی ایجنٹ بن چکی ہے تو کہا جاتا ہے کہ طالبان کا حامی ہے۔ اگر کہا جائے کہ پنجاب کا محاسبہ کرو تو کہا جاتا ہے کہ تعصب پسند ہے ۔ اگر کہاجائے کہ سندھ کا محاسبہ کرو تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان توڑدیں گے۔پاکستان نہ کھپے۔ کون کرے گا محاسبہ۔ کیا بہتر نہ ہوگا کہ امریکی فوج اکر محاسبہ کرے؟ؤ
چند ماہ کی بات ہے کہ آپ جناب یہیں کہیں سیاست کے کسی دھاگے میں زرداری صاحب کے لئیے رطب اللسان تھے۔جب کہ ان دنوں وہ شدید تنقید کی زد میں تھے اور آپ اس تنقید کو سندھ اور پنجاب کے خانوں بٹ کر دیکھ رہے تھے۔لیکن پھر آپ کو ان کی کوئی ادا بری لگی اور آپ نے ان کو بھی دوسروں جیسا "سیاستدان" کہا۔ یہ بات پیش نظر رکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ہم قومی مفاد نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے اسیر ہو کر ان سیاستدانوں کے غلط کاموں پہ بھی ان کا ساتھ دے دیتے ہیں اور پھر انہی میں سے کچھ ہماری اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر صوبائیت اور لسانیت کے نام پر اپنی دکانداری چمکاتے ہیں اور ان کو ہمیں میں سے "ٹٹو" بھی مل جاتے ہیں جو ان کی ہر جائز نا جائز پہ سر دھنتے ہیں اور ان کو ولی اللہ کے برابر درجہ دے بیٹھتے ہیں۔ ہم عوام اپنی اداؤں پہ غور کریں تو خرابی کی بنیاد ڈھونڈنا مشکل نہیں ۔
 
چلیں ایسا ہی سمجھ لیتے ہیں جیسا کہ اپ کہہ رہے ہیں ۔ مگر یہ بات پکی ہوجاتی ہے کہ پاکستان میں کوئی کسی کا احتساب نہیں کرسکتا۔
کوئی دن نہیں جاتے خدانہ خواستہ یہ کام یا تو امریکی فوج انجام دے گی یا بھارتی۔
 

ساجد

محفلین
چلیں ایسا ہی سمجھ لیتے ہیں جیسا کہ اپ کہہ رہے ہیں ۔ مگر یہ بات پکی ہوجاتی ہے کہ پاکستان میں کوئی کسی کا احتساب نہیں کرسکتا۔
کوئی دن نہیں جاتے خدانہ خواستہ یہ کام یا تو امریکی فوج انجام دے گی یا بھارتی۔
احتساب کبھی افواج کے ذریعہ سے نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں اگر احتساب سے بالاتر کوئی منظم ادارہ ہے تو یہ ہر ملک کی افواج ہیں۔ ویسے ایک بات ہے ایک طرف تو آپ پاکستانی فوج سے انتہائی الرجک ہیں تو دوسری طرف غیر ملکی افواج کے ذریعہ احتساب کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ یہ افواج آپ اور مجھے پھول پیش کرنے نہیں آئیں گی۔ عراق اور افغانستان کے بعد لیبیا میں جس قسم کا احتساب یہ افواج کر رہی ہیں وہ آنکھیں کھول دینے کے لئیے کافی نہیں؟؟؟۔
 
میں نہ پاکستانی افواج سے الرجک ہوں نہ عوام سے۔
صرف یہ بتارہا ہوں کہ جس طرزعمل کا مظاہرہ پاکستان کے عوام اور خواص کررہے ہیں اس کا احتساب ہوگا۔ اور ایسا ہی ہوگا جیسا اپ نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے ۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔
لائحہ عمل صرف دو ہیں۔ ایک تو امریکہ کے اگے سر تسلیم خم۔ جو فوج تو کرہی چکی ہے ۔ پاکستانی فوج میں امریکہ کے اگے چوں بھی نہیں کرسکتی۔ عوام بھی سرتسلیم خم کردے تو کم ازکم دنیا تو مل ہی جائے گی۔
دوسرا راستہ ذرا مشکل ہے۔ یہ توبہ کا راستہ ہے۔ راہ راست کا۔ یہ عمل کاراستہ ہے اور خودی کا۔مگر مشکل ہے پاکستانی عوام اسکے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر ان دو راستوں میں سے کوءی اختیار نہ کیا گیا تو پھر غیر ملکی احتساب کا راستہ ہے اور یہ احتساب صدیوں پرمیحط اور نسلوں کا ہوگا خدانہ خواستہ
 

ایم اے راجا

محفلین
میرے مطابق پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں بلکہ اسے ایک ناکام ریاست میں تبدیل کرنے کیلیئے بڑی ہوشیاری سے ایک ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے جسکے لیئے میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگوں کو پال پوس کر کرسی پر بٹھایا جاتا ہے تا کہ وہ اس ایجنڈے کو آگے بڑھائیں، ہماری عوام کو اس بات کی کانوں خبر نہیں کے کیا ہو رہا ہے، ایک جواز پیدا کیا جارہا ہے، ہمارے معاشرے کو کرپشن جیسے کینسر میں مبتلا کیا جارہا ہے تا کہ ترقی کا عمل رک جائے اور لوگ بھوک مرتے لوٹ مار کرنے لگیں، ہمارے حکمران اور اعلٰی بیوروکریسی بھی اس کھیل میں برابر کی شریک ہے، سب سے پہلے یہ کھیل تعلیمی نظام کو تباہ کر کے شروع کیا گیا تا کہ ایسے ذہن ختم کر دیئے جائیں جو اس ایجنڈے کو سمجھ سکیں اور لوگوں کو جگا سکیں، پاکستان کو ناکام ریاست کہنے کے بجائے، سوئے ہوئے لوگوں کی ریاست کہنا زیادہ بہتر ہے، یورپ او امریکہ میں افسروں کی تربیت اور طالبعلموں کو اسکالر شپ دینا اسی ایجنڈے کی کڑیاں ہیں، کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم تعلیمی اداروں میں نقل کے خلاف کوئی تحریک چلائیں، اپنے بچوں کو فیل ہونے دیں مگر نقل نہ کرنے دیں کیا کبھی ہم نے امتحان کے دوران نقل ہونے پر امتحان کا بئیکاٹ کیا، نہیں ہم تو نقل نہ کرنے دینے پر احتجاج کرنے والی قوم ہیں، اگر آج ہم احتساب کی طرف چل نکلیں اور بہترین تعلیمی نظام قائم کر لیں تو چند سالوں ہی میں ہم دنیا کے نمایاں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔
ہمارے حکمران نہ بہترین پالیسی بنا سکتے ہیں اور نہ اس پر عمل کروا سکتے ہیں، یہ نلکے بانٹ کر اور زکوات کا پیسا بانٹ کر ووٹ لینے والے لوگ ہیں، اور ہم بس اسی میں خوش ہیں، ہم وزیروں اور نمائندوں کے پاس ہماری مرضی کا افسر نہ ہونے کی شکایت لیکر تو چلے جاتے ہیں، سفارش کے لیئے تو جاتے ہیں کیا کبھی کرپشن کی شکایت لیکر گئے، کیا کبھی اسے یہ کہا کہ اگر تم نے نظام ٹھیک نہ کیا تو ہم ووٹ نہیں دیں گے، نہیں ہم تو بس اپنا الو سیدھا کرنا جانتے ہیں،اور ہمارے حکمران ایسی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں جن کو کم علم کلرک بناتے ہیں مست بیوروکریٹ انیشل کر کے اونگھتے حکمرانوں سے پاس کروا کر نافذکردیتے ہیں جنکا نتیجہ قومی دولت کا ضیاع، عوام کو کوئی ثمرات نہیں، بیوروکریٹس کو نمبر اور حکمرانوں کو فوائد حاصل ہوتے ہیں، ہمارے منتخب نمائندے اور وزرا علاقے کے افسران ( خاص طور پر ایماندار اور غلط بات نہ ماننے والے)کو تو ایک گھنٹے میں تبدیل کروا دیتے ہیں اور من پسند افسر کو لگوا لیتے ہیں مگر، بے روزگاری کو ختم کرنا سڑکوں کیی مرمت کروانا، صحت صفائی کی سہولتیں اور پانی کی بنیادی سہولیات مہیا کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔
یہ قصور زرداری یا مشرف کا نہیں ہمارا ہے کہ جو ایسے لوگوں کو آگے لاتے ہیں اگر نظام درست ہو اور صرف احتساب کا بہترین نظام رائج ہو تو زرداری بھی ایک بہترین لیڈر ثابت ہو سکتا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں اپنے آپ کو، سیلاب، زلزلہ یا اور کوئی قدرت آفت آجائے تو حکومت ذمہ دار، کسی کو کتے نے کاٹ لیا تو بھی حکومتی امداد کا انتظار ایسی بہت سی اور مثالیں ہیں، بھائی جب ہر کام کی ذمہ دار حکومت ہے تو پھر ہم خود کس مرض کی دوا ہیں، جب ہماری یہ حالت ہوگی تو پھر ملکی خزانہ کہاں سے بڑھے گا۔
لوڈشیڈنگ کی بڑی ذمہ دار بھی عوام خود ہے کیوں چوری کرتی ہے بجلی کی، جب بجلی چوری ہو گی تو نظام کیسے چلے گا، بجلی کی چوری کرنے والوں اور کروانے والوں کیخلاف کبھی ہم نے احتجاج کیا، کبھی کسی افسر کو رشوت خوری کے جرم میں روڈ پر لا کر اسکا منہ کالا کر کے گدھے پر پھرانے کا سوچا نہیں کیوں کہ ہم خود چور اور شارٹ کٹ کے عادی ہیں، جب ہمارا بیٹا یا بھائی کسی جرم میں پکڑا جائے تو ہم اسے چھڑوانے کیلیئے رشوت اور سفارش ڈحونڈتے ہیں تو دوسروں کے لیئے سزا کی خوہش کس منہ سے کرتے ہیں کیا ہم نے کبی سوچا؟
بھائی ہر بات کے قصوروار ہم خود ہیں کوئی حاکم یا افسر نہیں، انصاف حاصل کرنے کے لیئے بہت دور تک پیدل چلنا پڑتا ہے کیا ہم کبھی چلے نہیں ہم چلنا ہی نہیں چاہتے، ہم تو بس باتیں بنا سکتے ہیں بس، ہمارا دشمن نہ ہی امریکہ نہ بھارت اور نہ حکمران ہیں ہم خود اپنے دشمن ہیں۔
انصاف حاصل کرنے کے لیئے بہترین نظام درکار ہے اور اس نظام کا نفاذ خون اور قربانی مانگتا ہے، مگر ہم اپنی تنخواہ بڑھانے، نوکری پانے، سیاست کے لیئے خون بہانے کو تو تیار ہو جاتے ہیں فورن مگر نظام کی تبدیلی کے لیئے کبھی کوشش نہیں کرتے تاکہ یہ سب مصیبتیں ہی ختم ہو جائیں، بھائی ہم انفرادیت کے عادی ہیں اجتماعیت کے نہیں۔
اب آپ فیصلہ کریں ہمارا دشمن کون ہے، ہم خود یا کوئی اور؟
 
Top