آصف شفیع
محفلین
ہم جدید لہجے کی خوبصورت شاعرہ محترمہ ناہید ورک کو محفل میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ناہید ورک نئی نسل کی نمائندہ شاعرہ ہیں۔ ان کے ہاں نسوانی جزبات کی عکاسی متاثر کن اور بھر پور انداز میں دکھائی دیتی ہے۔ ناہید کا ایک شعری مجموعہ تیرے نام کی آہٹ شائع ہو چکاہے اور اسے ادب کے قارئین میں کافی پذیرائی مل چکی ہے۔ ناہید نے اس کتاب کا جو ابتدائیہ پیلی دھوپ کے نام سے تحریر کیا ہے وہ خاصے کی چیز ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ناہید کے ہاں شعریت بدرجہء اتم موجود ہے۔ ایک اقتباس پیلی دھوپ سے ملاحظہ کیجیے۔
جس طرح بادل آسمان کا تازہ حال بتاتے ہیں اُسی طرح خواب ذہن کے موسم کا پتہ دیتے ہیں اور پیلی دھوپ کے نرغے میں یہ آہٹیں جہاں’’میری ‘‘ ترجمان ہیں وہیں کئی بجھتی ہوئی آنکھوں میں لرزتے ہوئے آنسوؤں کی ردا اوڑھے بہتی ہوئی خواہشوں اور حسرتوں کی عکاسی کرتی ہیں،اور کہیں جگمگاتے ہوئی روشن دن کے چہرے پر سجے کٹے پھٹے اجالوں پر بکھرے رات کے زخموں کی کہانی سناتی ہیں۔ انہی آہٹوں سے اُلجھ کر میری سانسوں کا ریشم اتنا پھیل گیا ہے کہ اب سمیٹنا ممکن نہیں رہا ۔ یہ آہٹیں دیمک لگی خواہشوں کے وہ پنّے ہیں جن پر میری زندگی کا دیا ٹمٹما رہا ہے۔ کالی ہواؤں کا شور بڑھ رہا ہے اور پیلی دھوپ گہری سُرمئی ہو گئی ہے اور میں آہٹوں کے نرغے میں ، لہذا میں گہری سرمئی شام کے کنارے لگی یہ ’’ تیرے نام کی آہٹ ‘‘ زندگی کی خواہشوں سے ہوتے ہوئے حسرتوں کے پنّوں پر لکھ کر آپ کے حوالے کرتی ہوں کہ یہی احساس میرے ہونے کی گواہی ہے۔ ہونے سے نہ ہونے تک۔
کتاب میں بیشتر غزلیں ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
ایک مدت سے ہوں میں سنبھالے ہوئے
رحلِ دل میں تری یاد جاں کی طرح
محبتوں کے سفر میں یہ کون کہتا ہے
کہ دشتِ چشم سے آبِ رواں نہیں گزرے
گذر جاتا ہے ہر لمحہ تمہیں ہی یاد کرتے
کبھی تم میری سانسوں کی یہ تنہائی تو دیکھو
مرے سر پر چمکتا آسماں ہے تیری قربت کا
ستاروں سے مگر خالی ردا کچھ اور کہتی ہے۔
جس طرح بادل آسمان کا تازہ حال بتاتے ہیں اُسی طرح خواب ذہن کے موسم کا پتہ دیتے ہیں اور پیلی دھوپ کے نرغے میں یہ آہٹیں جہاں’’میری ‘‘ ترجمان ہیں وہیں کئی بجھتی ہوئی آنکھوں میں لرزتے ہوئے آنسوؤں کی ردا اوڑھے بہتی ہوئی خواہشوں اور حسرتوں کی عکاسی کرتی ہیں،اور کہیں جگمگاتے ہوئی روشن دن کے چہرے پر سجے کٹے پھٹے اجالوں پر بکھرے رات کے زخموں کی کہانی سناتی ہیں۔ انہی آہٹوں سے اُلجھ کر میری سانسوں کا ریشم اتنا پھیل گیا ہے کہ اب سمیٹنا ممکن نہیں رہا ۔ یہ آہٹیں دیمک لگی خواہشوں کے وہ پنّے ہیں جن پر میری زندگی کا دیا ٹمٹما رہا ہے۔ کالی ہواؤں کا شور بڑھ رہا ہے اور پیلی دھوپ گہری سُرمئی ہو گئی ہے اور میں آہٹوں کے نرغے میں ، لہذا میں گہری سرمئی شام کے کنارے لگی یہ ’’ تیرے نام کی آہٹ ‘‘ زندگی کی خواہشوں سے ہوتے ہوئے حسرتوں کے پنّوں پر لکھ کر آپ کے حوالے کرتی ہوں کہ یہی احساس میرے ہونے کی گواہی ہے۔ ہونے سے نہ ہونے تک۔
کتاب میں بیشتر غزلیں ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
ایک مدت سے ہوں میں سنبھالے ہوئے
رحلِ دل میں تری یاد جاں کی طرح
محبتوں کے سفر میں یہ کون کہتا ہے
کہ دشتِ چشم سے آبِ رواں نہیں گزرے
گذر جاتا ہے ہر لمحہ تمہیں ہی یاد کرتے
کبھی تم میری سانسوں کی یہ تنہائی تو دیکھو
مرے سر پر چمکتا آسماں ہے تیری قربت کا
ستاروں سے مگر خالی ردا کچھ اور کہتی ہے۔