مظفر وارثی نبیوں کے نبی، اُمّی لَقَبی، کونین کے والی! میں تیرا سوالی

نبیوں کے نبی، اُمّی لَقَبی
کونین کے والی!
میں تیرا سوالی

کر مجھ کو عطا، تھوڑی سی ضیا
تارے تیرے موتی، چندا تیری تھالی
میں تیرا سوالی

یہ کس نے کہا سایہ ہی نہ تھا
مجھ کو نظر آیا ہر سُو تیرا سایا
جو تیرا ہُوا رَبّ اُس کا ہُوا
پائی ہے خدائی جس نے تجھے پایا
اے سرورِ دیں! شب جس کی نہیں
بانٹے وہ سویرا، کملی تیری کالی
میں تیرا سوالی

ساقی میرا تُو، بھر میرا سبو
دریا ہوں کہ جھیلیں، سب تیری سبیلیں
خورشیدِ حِرا، امبر سے گِرا
آہوں کی طنابیں، دُوری کی فصیلیں
فردوس میرا، روضہ ہے تیرا
پلکوں میں پِرو دے دیوار کی جالی
میں تیرا سوالی

محبوبِ خدا، اے نُورِ ہُدٰی
چمکے میرا سینہ بن جائے مدینہ
کرتی ہے انا، اب تیری ثنا
اس پار لگادے لفظوں کا سفینہ
رکھ میرا بھرم، دے شاہِ امم
حسّان کی نظریں، آواز بلالی
میں تیرا سوالی

بس ایک یہی حسرت ہے میری
دل موت سے پہلے کچھ تجھ سے بھی کہہ لے
بھڑکے جو طلب، ہو درد عجب
اب تیرا مظفؔر یادوں سے نہ بہلے
رحمت کی نظر ہو جائے اگر
بن جائے گلستاں، سُوکھی ہوئی ڈالی
میں تیرا سوالی

 
Top