نبی معظمﷺ کے خوب صُورت ترین تبسم

اللہ رب العزت نے حضرت انسان میں چند کیفیات رکھی ہیں جو کہ حالات کے بدلنے سے بدلتی رہتی ہیں مثلًا رحم، غصہ، ہنسنا، رونا، خوشی، غمی وغیرہ، حد کے اندر رہتے ہوئے یہ تمام کیفیات انسان کی خوبیوں میں شمار ہوتی ہیں خدود شرعیہ سے تجاوز کے بعد یہ خامیاں بن جاتی ہیں۔ نبیﷺ بھی چونکہ انسان بلکہ اکمل الانسان تھے لہٰذا آپﷺ کے اندر بھی اس قسم کی کیفیات پائی جاتی تھیں، مگر خوبی کی حد تک تھیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

((کَانَ ضَحَّاکًا بَسَّامًا)) [مکارم الاخلاق للخرائطی]

’’نبی ﷺزیادہ مسکرانے والے تھے۔‘‘

یعنی جب ضرورت ہوتی تو آپﷺ مسکرایا بھی کرتے تھے۔ احادیثِ مبارکہ اس کی کھلے دل سے گواہی دیتی ہیں مثلًا:

(۱)… حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن کہتی ہیں: میں نے حضرت عائشہk سے نبی اکرمﷺ کی گھر میں تشریف آوری کی کیفیت پوچھی تو فرمانے لگیں: آقاﷺ جب بھی گھر میں ازواج مطہرات کے ہاں تشریف لاتے تو آپﷺ کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔ [ایضا]

(۲)… ایک مرتبہ مدینہ میں قحط پڑا ایک صحابی نے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی کہ اب جانور بھی مر رہے ہیں۔ آپﷺ نے دعا فرمادی اور ایک ہفتہ تک بارش ہوتی رہی تو پھر اُنہی صحابی نے بارش رکنے کے لیے دعا کی درخواست کی کہ اب تو مکان بھی گر رہے ہیں، تو آپ مسکرا دیے اور دعا فرمادی تو بارش فورًا رُک گئی۔ [بخاری،باب التبسم و الضحک]

(۳)… ایک مرتبہ حضرت عمررضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو محسوس ہوا کہ ازواج مطہرات آپﷺ سے گفتگو کر رہی ہیں اور ان کی آواز آپﷺ کی آواز سے بلند ہے، لیکن جب حضرت عمر نے داخل ہونے کی اجازت مانگی تو وہ پردے میں چلی گئیں اور خاموش ہوگئیں۔ چنانچہ حضرت عمر اندر آئے اور رسول اللہﷺ کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کے دانتوں کو ہمیشہ ہنسائے آپ اس وقت کیوں مسکرا رہے ہیں؟ حضورﷺ نے فرمایا: ان عورتوں کی حالت پر مجھ کو تعجب ہے (کہ میرے پاس بیٹھی ہوئی شور مچار ہی تھیں لیکن) تمہاری آواز سنتے ہی پردہ میں چلی گئیں۔ حضرت عمر نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اس بات کے زیادہ مستحق تھے کہ وہ آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر نے ان عورتوں سے کہا: اے عورتو! کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہﷺ سے نہیں ڈرتیں انہوں نے کہا: ہاں آپ سے اس لئے ڈرتی ہیں کہ آپ رسول اللہﷺ کی بنسبت عادت کے سخت اور سخت گو ہو۔ [بخاری: باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ]

(۴)… تورات کے ایک عالم رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوے اور عرض کیا: اے محمد! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر اور زمینوں کو ایک انگلی پر اور درختوں کو ایک انگلی پر اور پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر اُٹھائیں گے پھر فرمائیں گے: میں بادشاہ ہوں، پس آپﷺ اتنا مسکرائے کہ آپﷺ کے دانت مبارک ظاہر ہو گئے، گویا اس یہودی عالم کی بات کی تصدیق کی اور رسول اللہﷺ نے آیت تلاوت فرمائی:

﴿وَمَا قَدَرُوااللہَ حَقَّ قَدْرِہٖالخ﴾ [الزمر:۶۷]

’’اور ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر ہی نہیں پہچانی جیسا کہ اس کی قدر پہچاننے کا حق تھا، حالانکہ پوری کی پوری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی، اور سارے کے سارے آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور بہت بالا و برتر اس شرک سے جس کا ارتکاب یہ لوگ کر رہے ہیں۔‘‘ [بخاری،باب قولہ وَمَا قَدَرُوااللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ]

(۵)… حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: زمین قیامت کے دن ایک روٹی کی طرح ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ہاتھ میں جنت والوں کی مہمانی کے لئے سمیٹ لیں گے جس طرح تم میں سے ایک شخص سفر میں اپنی روٹی اپنے ہاتھ میں سمیٹ لیتا ہے۔ یہود میں سے ایک شخص آیا اور کہا: اے ابوالقاسم! اللہ آپ پر برکت نازل فرمائے کیا میں قیامت کے دن اہل جنت کی دعوت کے متعلق آپ کو خبر نہ دوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، تو جس طرح آپﷺ نے فرمایا تھا اسی طرح اس نے بھی کہا، آپﷺ نے ہماری طرف دیکھا، اور اتنا مسکرائے کہ آپﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے پھر فرمایا: میں تم کو ان کے سالن کے متعلق بتلاؤں؟ فرمایا: ان کا سالن بالان و نون ہوگا۔ لوگوں نے عرض کیا: یہ کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ بیل اور مچھلی ہیں جن کی کلیجی (اتنی بڑی ہوگی کہ) ستر ہزار آدمی (عند البعض بغیر حساب داخل ہونے والے جنتی) کھائیں گے۔ [بخاری،باب یقبض اللہ الارض یوم القیامۃ]

(۶)… حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا اسے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ وہ جنت میں آئے گا اس کو خیال آئے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے چنانچہ وہ لوٹ کر آئے گا اور عرض کرے گا یا رب میں نے اس کو بھرا ہوا پایا۔(تین دفعہ ایسا ہی ہوگا کہ اللہ تعالی بھیجیں گے اور وہ واپس آجائے گا بالآخر) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جا جنت میں داخل ہوجا اس میں تیرے لئے دنیا کے برابر اور اس کے دس گنا ہے یا فرمایا: تیرے لئے دنیا کی مثل دس گنا ہے۔ وہ کہے گا: آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں یا ہنسی کرتے ہیں حالانکہ آپ بادشاہ ہیں۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ اتنا مسکرائے کہ آپﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے اور فرمانے لگے: یہ جنت والوں کا ادنیٰ مرتبہ ہے۔ [بخاری،بَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ]

(۷)… ایک شخص آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں تو ہلاک ہوگیا۔ آپﷺ نے پوچھا:کیا ہوا؟ اس نے کہا: میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی۔ آپ نے فرمایا: کیا تو ایک غلام آزاد کرسکتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپﷺ نے فرمایا: کیا تو دو مہینے کے متواتر روزے رکھ سکتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپﷺ نے فرمایا: کیا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاسکتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپﷺ نے فرمایا: بیٹھ جا، وہ بیٹھ گیا، نبیﷺ کے پاس ایک عَرَق کھجور لائی گئی، عَرَق ایک بڑا پیمانہ ہے، (جس میں پندرہ سے بیس صاع تک کی گنجائش ہوتی ہے [فتح الباری]یعنی تقریبًا۶۰/۷۰ کلو گرام) آپﷺ نے فرمایا: یہ لے جا اور اس کو صدقہ کر اس نے پوچھا: اپنے سے زیادہ محتاج کو دوں؟ (یعنی مجھ سے زیادہ محتاج کون ہوگا) نبیﷺ اتنے مسکرائے کہ آپﷺ کے دانت مبارک ظاہر ہوگئے، پھر آپﷺ نے فرمایا: یہ اپنے گھر والوں کو کھلا دے۔ [بخاری،بَاب قَوْلِهِ تَعَالَى { قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُم}الخ]

(۸)…نبیﷺ کے مرض وفات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھارہے تھے تو نبیﷺ نے حجرہ کا پردہ اٹھایا اورصحابہ کی طرف دیکھنے لگے (چونکہ سامنے کی طرف تھے اس لیے صحابہ کی نگاہ بھی پڑ گئی اور اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ صحابہ فرماتے ہیں) اس وقت آپﷺ کا چہرہ مبارک گویا مصحف (قرآن) کا صفحہ تھا آپﷺ (اپنے حکم کے مطابق صدیق اکبرh کی اقتدا میں اللہ کی عبادت کرتے ہوے صحابہ کی صفوں کو دیکھ کر) بشاشت سے مسکرائے، صحابہ کو نماز مکمل کرنے کا اشارہ کیا اور آپ نے پردہ ڈال دیا پھر اُسی دن آپﷺ نے وفات پائی۔ [بخاری،بَاب أَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ]

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضور اقدس ﷺ کی تمام سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 
آخری تدوین:
Top