نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت مقنن و شارع مجاز از مفتی منیب الرحمان

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم معزز قارئین کرام ! پچھلے دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں مولوی عبدالعزیز نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتھارٹی جو کہ اللہ کی طرف سے انھے بطور شارع کے حاصل ہے کو چیلنج کرتے ہوئے فقط دین و شریعت کے شارح کی حیثیت تک محدود کرنے کی سعی ناپاک کی ۔جس کے رد میں مفتی منیب الرحمان صاحب کا آج کا کالم پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے گو کہ مختصر ہے مگر میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سچے دل و جان سے فدا امتیوں کی تسلی و تشفی کا وافر سامان اس میں موجود ہے سو پڑھیئے اور اس مولوی کی جسارت پر سر دھنیئے ۔۔والسلام


[URL=http://s34.photobucket.com/user/aabi2cool/media/x6139_24206811jpgpagespeedicqNY2LLqkO9_zps28b8c1b5.jpg.html] [/URL]
 

حسینی

محفلین
مولانا عبد العزیز المعروف برقعہ والے سرکاری خطیب تھے۔۔ کہہ دیا رسول خدا کو حق تشریع حاصل نہ تھا۔ سرکار کے دئیے ہوئے کاغذ کو پڑھنا اور چیز ہے شریعت کی روح کو سمجھنا اور بات۔
قرآن کریم واضح الفاظ میں بتا رہا ہے:
وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا۔ جو تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس چیز سے رسول منع کرے اس سے رکو۔ چونکہ رسول وہی کہتا ہے جو وحی کہتی ہے۔
البتہ اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ جو چیز رسول خدا کی طرف سے پہنچائے اسے لے لو۔۔ بلکہ اتاکم کا فاعل خود رسول خدا ہے۔ البتہ رسول کی دی ہوئی ہر چیز در حقیقت خدا ہی کی دی ہوئی شمار ہوتی ہے۔ کوئی دو تائی نہیں ہے، بلکہ یکتائی ہے۔
اسی طرح اک اور آیت میں ارشاد ہے: ما کان لمومن ولا مومنۃ ٖ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم۔
اس آیت میں اللہ اور رسول کو الگ الگ شریعت کے مصدر کے طور پر متعارف کیا گیا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں اس مولانا سے سننے کو مل رہی ہیں جو خود اور ان کے ماننے والے قائل ہیں کہ:
نماز تراویح ابتدائے اسلام میں رسول خدا اور حضرت ابوبکر کے دور میں نہ تھی۔ حضرت عمر نے اس کو شریعت میں داخل کیا ہے۔
اسی طرح حضرت عمر کا مشہور قول جو آپ کو دسیوں اہل سنت کی کتب میں ملے گی کہ : متعتان کانتا علی عھد رسول اللہ وانا احرمھما
کہ دو متعیں (متعۃ النکاح اور متعۃ الحج) رسول خدا کے دور میں تھیں میں ان کو حرام قرار دیتا ہوں۔
تو یہ مولانا حضرت عمر کو تو حق تشریع دینے کو تیار ہیں لیکن رسول گرامی اسلام کو یہ حق دینے سے کتراتے ہیں۔ عجیب تضاد ہے۔
 

nazar haffi

محفلین
میرے خیال میں ہمارے عہد کا سب سے بڑاالمیہ انسان کی تنگدلی اور تنگ نظری کاہے۔انسان چاہے جتنابھی بڑاعالم ،لیڈر یا رہنمابن جائے لیکن اگر اس کی سوچ میں تعصب ہو اور اس کا دل دوسروں کو قبول کرنے پرراضی نہ ہوتو وہ بالاخر گھوم پھر کر صرف اپنے ہی فرقے تک محدود رہتاہے۔کبھی کبھی تو اپنے سواباقی سب کو گمراہ،کافر اور مشرک تک کہہ دیتاہے ۔ایساانسان چاہے سات سمندروں کا پانی پی لے،ساتوں آسمانوں کے چکر کاٹ لے اور اور ہفت اقلیم کی سیر کرلے اس میں اتنی ااخلاقی جرات نہیں ہوتی کہ وہ یہ کہہ سکے کہ ایک میری تحقیق ہے جوممکن ہے غلط ثابت ہوجائے اور ایک دوسروں کی تحقیق جس کے درست ہونے کا امکان بھی ہے۔
بندہ ناچیز کے خیال میں دین اس روز دنیا پر حکومت کرنے کے قابل ہوگا جس روز دین کا علم اٹھانے والوں کا دل اتنا وسیع ہوجائے گا کہ وہ تمام فرقوں سے بالاتر ہوکر حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا شروع کردیں گے،اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں گے اور دوسروں کی اچھائیوں کااعتراف کریں گے،اپنے عقائد کو برحق سمجھیں گے لیکن دوسروں کے عقائد کا احترام بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔پھر نہ اصل و فرع کا جھگڑارہے گا،نہ شیعہ سنی کی تقسیم اور نہ پنجابی اور مہاجر کا تعصب۔یہ ساری لڑائیں در اصل چند لوگوں کی تنگ نظری کی پیداوار ہیں جنہوں نے نظریات کا درجہ حاصل کرلیاہے۔
ایران کے سپریم لیڈر نے جس دن سے اہل سنت کی مقدسات کی توہین کو صراحتاً ناجائز اور حرام قرار دیاہے او روز سے سے میں ملت اسلامیہ کے حوالے سے بہت پر امید ہوگیاہوں کہ ابھی ہمارے درمیان ایسے وسیع القلب افراد موجود ہیں جو دوسروں کے عقائد اور احترام کو واجب سمجھتے ہیں۔اس فکر کو ہمارے ملک میں پنپنے میں ابھی وقت لگے گا لیکن ان شااللہ وہ دن ضرور آئے گا جس روز لوگ فرقہ پرستوں ،علاقائیت کے پجاریوں اور نفرت کے بیوپاریوں کے نقوش وبال کو حرف غلط کی طرح مٹادیں گے اور ہمارے ہاں بھی اقبال،حالی،محمد علی جوہر،جمال الدین افغانی اورسعدی و شیرازی ۔۔۔کی فکر حاکم ہوگی۔
انشااللہ
میں اپنے کمنٹس کو حسینی بھائی کے "انتخاب" کے ساتھ ہی تمام کرناچاہوں گا:::
مالی نے دیوار پر لکھ دیا کہ پھول توڑنا منع ہے۔
کاش!
انسان کے بھی سینے پر لکھا ہوتا کہ دل توڑنا منع ہے۔
 
بہت ہی عمدہ خیالات ہے - لیکن اگر بات درست نہ ہو تو بندہ اس کو قبول کیسے کرے حق اور باطل واضح ہونا چاہیے -حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا ضروری ںہیں کیا ؟-کیا حق اور باطل کے بیچ بھی کچھ مراحل ہیں ؟
انسانی طبع کے اختلاف کے سبب اختلاف رائے تو ناگزید ہے اور فرقے تو بنیں گے اور حق پر تو ایک ہی فرقہ ہے فرض کریں الف ہے تو کیا الف فرقہ کسی با تا کے عقائد کو قبول کر لے ؟
 

nazar haffi

محفلین
اختلاف رائے تو ناگزید ہے اور فرقے تو بنیں گے اور حق پر تو ایک ہی فرقہ ہے فرض کریں الف ہے تو کیا الف فرقہ کسی با تا کے عقائد کو قبول کر لے ؟
اختلاف رائےکرنا اور بات ہے اور صرف اپنے آپ کو ہی حق کا ٹھیکیدار سمجھ لینا ایک دوسری بات ہے۔اگر مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں اپنے آپ کو حق پر تصور کروں تو مجھے یہ حق دوسروں کو بھی دینا چاہیے۔اپنے آپ کو حق پر ثابت کرنے کے لئے دھونس دھاندلی اور گالی گلوچ نیز پروپیگنڈے اور دہشت گردی و قتل و غارت کا سہارالینے کا تعلق "حق پر ہونے" یا کسی فرقے سے نہیں ہے بلکہ ہماری کم عقلی اور پسماندگی سے ہے۔کم عقلی ،جہالت اور پسماندگی کسی ایک فرقے کی میراث نہیں کسی میں بھی پائی جاسکتی ہے۔
ہم نے آج تک جتنا زور دوسروں کو کافر،گمراہ،مشرک اور منحرف ثابت کرنے پرلگایاہے اگر اتنا زور اپنی اور اپنے ملک کی اصلاح،تعمیرو ترقی ،تعلیم و رفاہ ،اخوت و محبت ،بھائی چارے دوستی ،دیانتداری ،عالمانہ اور مودبانہ دینی بحث و مباحثے نیزرشوت اور کرپشن کے خاتمےپر لگاتے تو آج ہماری قومی صورتحال مختلف ہوتی۔
 
اختلاف رائےکرنا اور بات ہے اور صرف اپنے آپ کو ہی حق کا ٹھیکیدار سمجھ لینا ایک دوسری بات ہے۔اگر مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں اپنے آپ کو حق پر تصور کروں تو مجھے یہ حق دوسروں کو بھی دینا چاہیے۔اپنے آپ کو حق پر ثابت کرنے کے لئے دھونس دھاندلی اور گالی گلوچ نیز پروپیگنڈے اور دہشت گردی و قتل و غارت کا سہارالینے کا تعلق "حق پر ہونے" یا کسی فرقے سے نہیں ہے بلکہ ہماری کم عقلی اور پسماندگی سے ہے۔کم عقلی ،جہالت اور پسماندگی کسی ایک فرقے کی میراث نہیں کسی میں بھی پائی جاسکتی ہے۔
ہم نے آج تک جتنا زور دوسروں کو کافر،گمراہ،مشرک اور منحرف ثابت کرنے پرلگایاہے اگر اتنا زور اپنی اور اپنے ملک کی اصلاح،تعمیرو ترقی ،تعلیم و رفاہ ،اخوت و محبت ،بھائی چارے دوستی ،دیانتداری ،عالمانہ اور مودبانہ دینی بحث و مباحثے نیزرشوت اور کرپشن کے خاتمےپر لگاتے تو آج ہماری قومی صورتحال مختلف ہوتی۔
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں - بیشک ہر کسی کو حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو حق پر تصور کرے اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے اگر کوئی اپنے فرقے کو نا حق سمجھ کر تو اختیار نہیں کرتا -
جہاں تک دھونس دھاندلی اور گالی گلوچ نیز پروپیگنڈے اور دہشت گردی و قتل و غارت کا سہارالینے کا تعلق ہے اگر کوئی ایسا کر رہا ہے تو وہ متعین ہونا چاہیےکہ کون ہے کیوں کہ سب ایسا نہیں کر رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اگر دوسرا کرے بھی تو اس کو اپنا دفاع کرے کا بھی حق ہے

محترم آپ کی دوسری بات سے میں مکمل متفق ہوں - لیکن آ پ اس پہ بھی بات کریں کہ ایسا کس طرح ہو سکتا ہے کوئی طریقہ ہے کون کرے گا
 

nazar haffi

محفلین
لیکن آ پ اس پہ بھی بات کریں کہ ایسا کس طرح ہو سکتا ہے کوئی طریقہ ہے کون کرے گا
یہ سب ہمیں ہی کرناہوگا چونکہ خدا بھی انہی کی مدد کرتاہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اور اس کا طریقہ بھی بہت آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم گروہوں اور ٹولوں سے بلند وبالا ہوکر سوچیں ،جو حقوق اپنے لیئے چاہتے ہیں وہ دوسروں کو بھی دینے کے لئے تیار ہوجائیں،اگر ہمارے نزدیک ہم ہی حق پر ہیں تو ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارا مخالف بھی اپنے بارے میں یہی رائے رکھتا ہے۔لہذا اگر ہمیں اپنے آپ کو حق پرست ثابت کرنے کے لئے میدان میں اترنا پڑے تودوسرے کے عقائد اور جذبات کا احترام اپنے عقائد اور جذبات کی طرح ہی کرناچاہیے۔
اس سب کے لئے پہلا قدم تعلیم اور شعور ہے۔
 

loneliness4ever

محفلین
السلام علیکم

امید ہے تمام احباب خیر سے ہونگے ۔ اس لڑی میں اب تک کہ مراسلے پڑھے
اچھا لگا، دل خوش ہوا، سچ پوچھیں تواخبار پڑھنا چھوڑ چکا ہوں، گھر میں ٹی وی نہیں
اس لئے بہت سی چیزوں سے محفوظ بھی اور لا علم بھی ہوں مگر میرے نزدیک لا علمی
اس دور میں بہتر ٹھہری کہ معلومات اور حالات حاضرہ سے مکمل واقف رہنے کے
لئے اگر سہارا ایسی چیز کا لیا جائے جو نوے فیصد آپکے دل کو مسوس کر رکھ دے تو
بہتر ہے پرہیز کیا جائے کیونکہ پرہیز علاج سے بہتر ہی ٹھہرا
مگر لاعلمی ایسی بھی نہ ہو کہ اللہ کے پیاروں کی شان میں گستاخی کریں اور یہاں تو بات
حبیب کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کی ہے


مگر جناب لڑی کا آغاز کرنے والے بھائی کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مفتی صاحب کا لکھا پڑھوا کر دل کے سرور اور اطمینان کا باعث بنے ۔۔۔۔۔ اللہ بہترین اجر دے آبی ٹوکول صاحب آپکو ۔۔۔۔۔
نیچے اترا توحسینی اور نظر صاحب نے بھی بات دل لگتی کہی

غور کیا جائے تو مسلمانوں میں زیادہ تر اختلاف محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات عالی اور
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم اور اختیارات پر ہوا ہے اور یہ افسوس ناک فعل ہوتا ہی رہے گا

لوگ اپنے والدین کے قول و فعل کو نہیں جانتے ان کے ماضی سے مکمل آگاہ نہیں ہوتے
مگر ایسی جلیل القدر ہستیوں کے لئے جانے کیوں اپنی زبانیں بلا جھجھک کھول لیتے ہیں
ایک بے مہار گھوڑے یا خود رو پودے کی صورت

جبکہ فرما دیا گیا ہے کہ
محمد کی حقیقت کو اسکے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ محترم ہستیاں معلوم نہیں کس مدرسے
کی پیداوار ہوتی ہیں جو ان کے اذہان میں یہ سب شر انگیز باتیں بھر دیتا ہے

ایک فورم پر طرحی مشاعرہ مقرر کیا گیا تھا
آیاز جھانسوی صاحب کا مصرعہ دیا گیا تھا

زندگی تیری اک اک ادا جرم ہے
اس پر اس فقیر نے بھی جسارت کی تھی
اور اپنی اس ہی غزل کے ایک شعر پر یہ مراسلہ تمام کرتا ہوں

جو محمد سے الفت نہ پیدا کرے
اس مدرسے میں جانا بڑا جرم ہے


اگر کسی کو کوئی بات ناگوار لگی تو معذرت ۔۔۔۔۔ اللہ ہم کو سمجھنے اور سمجھانے والا بنائے
اور قیامت کے روز فلاح پانے والوں میں شامل فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین صد آمین

دعا گو
اور دعا کا طالب

س ن مخمور
امر تنہائی
 
Top