نثار تجھ پہ اے وطن

ساجداقبال

محفلین
1100207666-1.jpg

1100207666-2.gif
__________________________________________________________________________________________
یہ کراچی نہیں شمالی وزیرستان ہے۔ یہاں “دہشتگردوں“ کو ٹی وی پر لائیو نہیں دکھایا جا سکتا۔ اسلئے آپ کبھی نہیں جان سکتے کہ اصل دہشتگرد کون ہے۔ لیکن وہاں جا کے آپکو ایک چھوٹا بچہ بھی بتا سکتا ہے۔ مگر پھر بھی جنرل وحید جو کہتے ہیں، اسے سچ مان لینا چاہیے کہ “پاک“ فوج کبھی جھوٹ نہیں بول سکتی۔
 

ساجداقبال

محفلین
مجھے یقین تھا کوئی اس واقعہ پر مذمت کے دو لفظ نہیں کہے گا۔ کہاں کراچی کے شہداء، کہاں قبائلی علاقوں کے جاہل ہلاک شدگان۔
 

خاور بلال

محفلین
بھائی ساجد!
ایسی بات نہیں۔اس طرح کے واقعات پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پر کیا کریں؟ چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔
پاکستان کے قبائلی غیور مسلمان ہیں اور غلامی پر رضا مند نہیں جس کی سزا دی جارہی ہے۔

آپ نے کہا کہ “پاک“ فوج کبھی جھوٹ نہیں بول سکتی۔
آپ کافی مردم شناس معلوم ہوتے ہیں۔ فوج کے بارے میں آپ کا تجزیہ بالکل صحیح ہے کہ فوج جھوٹ نہیں بولتی۔کیونکہ پاک فوج کی بداعمالیوں کے سامنے جھوٹ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسا امریکہ کے سامنے رمضان دودھ والا۔ فوج اگر جھوٹ بولے گی تو اس سے فوج کی نہیں جھوٹ کی رسوائی ہوگی۔آخرجھوٹ کی بھی کوئی عزت نفس ہوتی ہے۔

بھائی اگر آپ ناپاک فوج کی دوستی اور دشمنی کا فلسفہ جانتے تو یہ شکوہ نہ کرتے۔ یہ اکڑ بکڑ بمبے بو کھیلتے ہیں اور امریکہ کے جس دشمن پر انگلی ٹھہرتی ہی اس پر فوج کشی کردیتے ہیں، بس شرط یہ ہوتی ہے کہ سامنے والا نہتا ہونا چاہیے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
فوج کے لئے آپ لوگ جو کچھ کہتے رہیں، وہ آپ کی اپنی رائے ہے۔ جس کے لئے آپ دوسروں کو قائل نہیں کر سکتے۔ ایک چھوٹا سا اقتباس پیش کر رہا ہوں میں۔ یہ کل مجھے میرے کزن نے ای میل میں بھیجا تھا۔ اس کے آخر میں ایک سوال موجود ہے، اس کا جواب اگر کوئی دے سکے

[eng:4c1bf780cb]
It is 1 o'clock in the morning and my car breaks down in the cantonment area. With me sitting in the lap of my wife on the front seat are my five-months-old daughter and 20-months-old niece. I find myself in serious jeopardy. If I call anyone from among my relatives or friends for help, it may take ages in this hot summer night. If I leave them in the car, I know I will be really worried about their safety. This is the way things are these days. You never feel safe. All of a sudden, I spot a military police mobile patrolling the deserted road. I rush towards it since the driver has seen my plight and pulled up. I approach the soldiers inside to keep an eye on the car against the miscreants, especially if they are patrolling on the same road while I go and fetch some help. They ask me not to worry and
park their vehicle at a short distance from my car. It takes me 15 minutes to find some solace and when I return I find them responsibly taking care of the situation. I thank them, mend my car and leave. While doing so, I am thinking hard. Could I show equal trust in the civilian police or passersby? Are you kidding me? Of course not. It has been the army's stature that people still find it worth trusting with their life and property.[/eng:4c1bf780cb]
 

ساجداقبال

محفلین
قیصرانی نے کہا:
فوج کے لئے آپ لوگ جو کچھ کہتے رہیں، وہ آپ کی اپنی رائے ہے۔ جس کے لئے آپ دوسروں کو قائل نہیں کر سکتے۔ ایک چھوٹا سا اقتباس پیش کر رہا ہوں میں۔ یہ کل مجھے میرے کزن نے ای میل میں بھیجا تھا۔ اس کے آخر میں ایک سوال موجود ہے، اس کا جواب اگر کوئی دے سکے

[eng:e686a0ba87]
It is 1 o'clock in the morning and my car breaks down in the cantonment area. With me sitting in the lap of my wife on the front seat are my five-months-old daughter and 20-months-old niece. I find myself in serious jeopardy. If I call anyone from among my relatives or friends for help, it may take ages in this hot summer night. If I leave them in the car, I know I will be really worried about their safety. This is the way things are these days. You never feel safe. All of a sudden, I spot a military police mobile patrolling the deserted road. I rush towards it since the driver has seen my plight and pulled up. I approach the soldiers inside to keep an eye on the car against the miscreants, especially if they are patrolling on the same road while I go and fetch some help. They ask me not to worry and
park their vehicle at a short distance from my car. It takes me 15 minutes to find some solace and when I return I find them responsibly taking care of the situation. I thank them, mend my car and leave. While doing so, I am thinking hard. Could I show equal trust in the civilian police or passersby? Are you kidding me? Of course not. It has been the army's stature that people still find it worth trusting with their life and property.[/eng:e686a0ba87]
ایسے مظاہرے تو اسلام آباد کی سڑکوں پر(چاہے آبادی میں ہوں یا ویرانے میں) ہر دوسرے روز پیش آتے ہیں۔ یہاں کی ٹریفک پولیس موبائل ورکشاپ منگوا کر آپکی گاڑی تک ٹھیک کرا دیتی ہے۔ بس 915ڈائل کرنے کی دیر ہے۔اسلام آباد میٹروبلاگ کی غالیہ ایمن کا اس سے ۔ملتا جلتا واقعہ
مانا یہ یہ ملٹری پولیس والوں کا احسن قدم تھا، لیکن یہ تو انفرادی عمل ہے نہ کہ اجتماعی۔ ڈاکٹر شازیہ کیس بھی تو آرمی کی ڈیفنس سروس گروپ کی ‘موجودگی‘ میں ہوا تھا۔ عوام جنہیں گالیاں دے رہے ہیں، ان سے مراد تو وہ جرنیل ہیں جو ڈیفنس بجٹ، ڈیفنس کالونیوں کے نام پر ملک کو لوٹ رہے ہیں نہ کہ عام فوجی، جو صحیح معنوں میں ملک کے رکھوالے ہیں۔
___________________________________________________
نوٹ: میرا جواب آپکے سوال سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو معذرت لیکن میں اسی دھاگے پر آپکی بات کو بڑھانا نہیں چاہتا کیونکہ میرے خیال میں یہ موضوع سے ہٹ کر ہے۔
 
Top