نثار میں تری گلیوں کے اے وطن

Wajih Bukhari

محفلین
7 نومبر 2023


-۰- - ۰۰ - -۰۰ - -۰۰-


زلزلے روز یہاں شہر نگل جاتے ہیں
یا کبھی سینکڑوں طوفان مچل جاتے ہیں

کتنے سورج تھے جو اس ارضِ بلا نے کھائے
کتنی آنکھوں کے ستارے یہاں ڈھل جاتے ہیں

جب کمر ٹوٹ چکی ہو تو کوئی کیسے اٹھے
ورنہ گر کے تو بہت لوگ سنبھل جاتے ہیں

اس لئے ہاتھ میں تیشہ ہے ستم گر نے لیا
خواب کرچی ہوں تو ارمان کچل جاتے ہیں

کون ظالم کے مقابل ہو سکت کس میں ہے
حوصلے بھوک کی بھٹی میں پگھل جاتے ہیں

پاسبانوں پہ شب و روز نگہبان رہو
اُن کے خنجر کبھی محسن پہ بھی چل جاتے ہیں

کر کے تاراج چمن دوستوں سے کہتے ہو
وقتِ ہجرت ہے چلو آؤ نکل جاتے ہیں

کس کو اب دوست کہوں کون عدو ہے میرا
لوگ خود غرض ہیں اک پل میں بدل جاتے ہیں

پھر سے بنیاد رکھیں ایک نئی دنیا کی
آؤ اب لوٹ کے ہم سوئے ازل جاتے ہیں

لکھنا تو نظم چاہتا تھا لیکن شاید اب یہ غزل ہو چکی ہے۔
 
Top