محمد خرم یاسین
محفلین
http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/نثری-نظم-کا-عہدِ-موجود
حلقہء ارباب ذوق جو ادبا اور دانشوروں کی عظیم اور پرانی غیر سرکاری تنظیم ہے اس نے ادب اور ادیب کا بہت سا بار اُٹھا رکھا ہے۔یہ تنظیم سینئر ادیبوں کو حوصلہ اور طاقت مہیا کرتی ہے اور نئے لکھنے والوں کی تربیت کرتی ہے۔یہاں پرادب کی تمام اصنافِ سخن پر خصوصاًاور فنونِ لطیفہ پر عموماًبحث و مباحثہ ہوتا ہے پچھلے دنوں حلقہ اربابِ ذوق میں پھر نثری نظم پر بحث چل پڑی۔اگر چہ اس بحث کی عمر اب پُرانی ہوتی جارہی ہے مگر بعض اوقات یہ نئی لگنے لگتی ہے۔خاص طور پر کئی عاشقانِ غزل تو اس کے نام پر لاحول پڑھتے نظر آتے ہیں ۔کئی دل جلے سرے سے اس کو کوئی صنف مانتے ہی نہیں ہیں ۔ان کے نزدیک نہ یہ نثر ہے نہ شاعری گویا تحریر ہی نہ ہوئی یہ کوئی عیبِ ادب ہے۔ہوا یوں کہ حلقہ اربابِ ذوق پاک ٹی ہاؤس میں گزشتہ ہفتے روایت کے مطابق غیر مطبوعہ تخلیقات پیش کی گئیں جب نثری نظموں کی باری آئی توغزل کے طرفداروں نے نثری نظم کو حسبِ روایت شاعری ماننے سے انکار کر دیا ۔ان کا ایقان ہے کہ جسے شاعر کہتے ہیں وہ صرف اور صرف غزل کی مٹی سے گُندھا ہوا ہوتا ہے جس کو یہ مٹی میسر نہیں وہ شاعر نہیں۔وہ صرف پوروں پر لہو لگا کر شاعری کے شہدا میں نام لکھوانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔غزل کے محبان کا نظریہ تو پھر بھی کوئی منطق رکھتا ہے یہاں ہم ایسے سینئر افسانہ نگار کو بھی جانتے ہیں کہ جب وہ کسی دوسرے افسانہ نگار کا افسانہ سنتے ہیں تو سب سے پہلا فقرہ وہ محترم یہ بولتے ہیں کہ ’’میں اس تحریر کو سرے سے افسانہ ہی نہیں مانتا ‘‘۔اگر اللہ بھلا کرے افسانہ باکمال ہو اور کسی جہت سے بھی کمزور نہ ہو اور ۱۰۰ میں سے ۹۹فیصد لوگ اس افسانے کے حق میں بات کریں تو تو وہ موصوف کہہ دیتے ہیں کہ میں اس تخلیق پر بات نہیں کرتا ۔اُس دوران ایسی گہری سوچ میں غرق لگتے ہیں کہ گویا زیرِلب’’میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا‘‘ کا ورد کر رہے ہوں ۔سوال یہ ہے کہ بہت سے لوگ نثری نظم کو شاعری نہیں مانتے اور مسلسل نہیں مان رہے مگر اس کے باوجودیہ لکھی بھی جائے اور پڑھی بھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قوی اعتراضات کے باوجود یہ صنف زندہ ہے ، اپنی ذات میں مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے وجودِ مقوی پر اصرار بھی کرتی ہے کہ سب اسے تسلیم کریں۔اب اس کا اصرار کرنا اور موجود ہونا ہی اپنے مقدمے کے حق میں دال ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جب کوئی صنف مشہور ہوتی ہے تو اس کے ساتھ کئی کئی طرح کے اچھے برے تجربے ہو چکے ہوتے ہیں ۔یہ اتار چڑھاؤکبھی اسے کمزور اور کبھی طاقت سے مالا مال کر دیتے ہیں پھر دوسری جانب یہی اتار چڑھاؤ اس صنف کے آڑے آسکتے ہیں ۔ہمارے ہاں زیادہ تر مشکلات اور معاملات میں مکھی پر مکھی مارنے کا رواج زیادہ ہے۔نثری نظم کے مخالفین شمس الرحمان فاروقی کے اس بیان کو سینے سے لگائے زندہ ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’نثری نظم ہمارے ادب میں ایک صنف کی حیثیت سے قائم نہیں ہو سکتی ہے۔۔۔اور اس کے آئندہ قیام کے امکانات بظاہر روشن نہیں‘‘۔جس زمانے میں وزیرآغا نے اس کی مخالفت کی تھی اور یہاں تک کہہ دیا تھا کہ نثری نظم کا ایک بھی ایسا نمونہ نہیں جسے اچھی شاعری تو کجا محض شاعری ہی کہا جا سکے۔اسی زمانے میں نثری نظم پر بہت سختیاں آئیں یہاں تک بھی با بانگِ دہل کہا گیا کہ نثری نظم کا خیال اس لیے مہمل معلوم ہوتا ہے کہ اسے نظم کہنے پر اصرار ہے اور اسے نثری نظم اپنی ارفع ترین شکل میں بھی نہ بلند پایہ شاعری کی ہم پلہ ہو سکتی ہے نہ عمدہ تخلیق یا علمی نثر کے معیار پر پوری اتر سکتی ہے ۔یہ نہ شعر ہے اور نہ اعلیٰ تخلیقی شہ پارہ۔نثری نظم کے معترضین اب بھی اسی بات پر بضد ہیں کہ اردو تہذیب نے اسے دیگر شعری اصناف کے برابر قبول نہیں کیا۔غزل کے شاعر ابھی تک یا تو اس سے اغماض کرتے ہیں یا اسے لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔وہ نثری شاعری کے درمیانی سفر سے انحراف برتتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ روزِ اوّل کے زینے پر کھڑی ہے۔ آج بھی وہ اس کا اسی طرح مضحکہ اڑاتے ہیں جیسا اس کے آغاز میں اس کے حصے میں آیا۔اس بے چاری کی دُھنائی کٹائی کرنے والوں میں بہت بڑے بڑے غزل گو پردہ نشینوں کے اسمائے گرامی درج کیے جا سکتے ہیں مگر اس کی ضرورت پیش نہ آئی کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ اس کے خلاف ہموارکی جاتی رہی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ منثور متن نے بہت سے غزل اور پابند نظم لکھنے والوں کو الجھن میں ضرور ڈالے رکھا۔اگر چہ وہ بظاہر اس کو غیر ضروری اور بے وجہ کی صنفِ سخن سمجھ رہے ہوں ،مگر وہ کنکھیوں سے اس پر کڑی نگاہ بھی رکھتے ہیں کہ کہیں یہ ان کے نورِ نظر سے اوجھل ہو کرشاعری کی دنیا میں پناہ نہ لے لے اور کسی اُفق پر طلوع ہو کر اپنا آپ محفوظ نہ کروا لے یا خود کو منوا نہ لے۔سید عبدللہ جو اردو ادب کا بہت بڑا نام ہے وہ بھی نثری نظم کو اچھوت نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہ شعری فارم اور نثری فارم میں اتنابعد سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے ان کے دروازے بند ہو جائیں۔ اظہار کے لیے جب بھی انسان کوئی سانچہ بناتا ہے تو اس میں ضرور کوئی نہ کوئی ہیئت وقوع پزیر ہوتی ہے ۔یہ بھی درست ہے کہ نثر اور شاعری کا ایک باریک سا فرق ہے ۔شاعری میں عروضی پابندی لازمی ہوتی ہے میرا خیال ہے کہ نثری نظم کو اتنی رعایت دے دینی چاہیے کہ اسے شاعری کے اقلیم سے باہر نہ نکالا جائے چاہے اس کے گلے میں بحر کی مالا ہو یا نہ ہو۔اگر وہ تخلیقی متن شاعری کے بلند مدارج کو چھو رہا ہو تو اسے عروض کی سند نہ ہونے پر بھی اچھوت نہیں سمجھنا چاہیے۔یہاں ہم شخصے کی بات کو رد نہیں کر سکتے جو ذوق کو شاعری کا حقیقی ہنر مانتا ہے اور خواہشِ اظہار کو اساسی ہتھیار کی میان میں رکھتا ہے۔پچھلے تقریباً چالیس پنتالیس سالوں میں نثری نظم کے ردو قبول، مخالفت و موافقت میں بہت لے دے ہو چکی ۔نثری نظم کے حامیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جب خیالات میں بالیدگی و پچیدگی در آتی ہے تو نثری نظم کا دامن وسیع ہوتا چلا جاتا ہے ۔نظم تحت الشعور میں ہوتی ہے اور نثری نظم لا شعور میں جا کرتی ہے۔ جب خیال کا چیرہ نہ بن پائے تو وہاں نثری نظم اظہار کا بہتریں زریعہ ہے۔نثری نظم محبت کا وہ لباس ہے کہ جب تک وجود خود کو اس لباس کے حوالے نہیں کرتا وہ نہ تو اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے نہ ہی اپنے بھید پڑھنے والے پر کھولتی ہے۔ نثری نظم کے حامی یہ بات ماننے کو ہر گز تیار نہیں کہ شعر کلام موزوں ہے اور نثر کلام نا موزوں۔لا شعر کا مسئلہ انہیں ان کو لا یعنی دکھائی دیتا ہے جب کہ نثری نظم کے غیر حامی تاویلیں دیتے ہیں کہ موزوں شعر کے لیے مروجہ عروض ہی وزن کا پیمانہ نہیں ،وزن بر قرار رکھنے کی اور بھی بہت سی صورتیں ہیں۔آہنگ کا رشتہ عروض سے نہیں اصوات سے ہوتا ہے۔نثری نظم یا شاعری کرنے والاخود فراموشی اور خود فریبی کا شکار ہے۔ جو لوگ نظم اور نثر کو ایک دوسرے کا حریف سمجھتے ہیں ان کو کولرج کی فکر کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس نے کہا تھا کہ شاعری کی ضد نثر نہیں بلکہ سائنس ہے۔
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ
14/10/2014
حلقہء ارباب ذوق جو ادبا اور دانشوروں کی عظیم اور پرانی غیر سرکاری تنظیم ہے اس نے ادب اور ادیب کا بہت سا بار اُٹھا رکھا ہے۔یہ تنظیم سینئر ادیبوں کو حوصلہ اور طاقت مہیا کرتی ہے اور نئے لکھنے والوں کی تربیت کرتی ہے۔یہاں پرادب کی تمام اصنافِ سخن پر خصوصاًاور فنونِ لطیفہ پر عموماًبحث و مباحثہ ہوتا ہے پچھلے دنوں حلقہ اربابِ ذوق میں پھر نثری نظم پر بحث چل پڑی۔اگر چہ اس بحث کی عمر اب پُرانی ہوتی جارہی ہے مگر بعض اوقات یہ نئی لگنے لگتی ہے۔خاص طور پر کئی عاشقانِ غزل تو اس کے نام پر لاحول پڑھتے نظر آتے ہیں ۔کئی دل جلے سرے سے اس کو کوئی صنف مانتے ہی نہیں ہیں ۔ان کے نزدیک نہ یہ نثر ہے نہ شاعری گویا تحریر ہی نہ ہوئی یہ کوئی عیبِ ادب ہے۔ہوا یوں کہ حلقہ اربابِ ذوق پاک ٹی ہاؤس میں گزشتہ ہفتے روایت کے مطابق غیر مطبوعہ تخلیقات پیش کی گئیں جب نثری نظموں کی باری آئی توغزل کے طرفداروں نے نثری نظم کو حسبِ روایت شاعری ماننے سے انکار کر دیا ۔ان کا ایقان ہے کہ جسے شاعر کہتے ہیں وہ صرف اور صرف غزل کی مٹی سے گُندھا ہوا ہوتا ہے جس کو یہ مٹی میسر نہیں وہ شاعر نہیں۔وہ صرف پوروں پر لہو لگا کر شاعری کے شہدا میں نام لکھوانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔غزل کے محبان کا نظریہ تو پھر بھی کوئی منطق رکھتا ہے یہاں ہم ایسے سینئر افسانہ نگار کو بھی جانتے ہیں کہ جب وہ کسی دوسرے افسانہ نگار کا افسانہ سنتے ہیں تو سب سے پہلا فقرہ وہ محترم یہ بولتے ہیں کہ ’’میں اس تحریر کو سرے سے افسانہ ہی نہیں مانتا ‘‘۔اگر اللہ بھلا کرے افسانہ باکمال ہو اور کسی جہت سے بھی کمزور نہ ہو اور ۱۰۰ میں سے ۹۹فیصد لوگ اس افسانے کے حق میں بات کریں تو تو وہ موصوف کہہ دیتے ہیں کہ میں اس تخلیق پر بات نہیں کرتا ۔اُس دوران ایسی گہری سوچ میں غرق لگتے ہیں کہ گویا زیرِلب’’میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا‘‘ کا ورد کر رہے ہوں ۔سوال یہ ہے کہ بہت سے لوگ نثری نظم کو شاعری نہیں مانتے اور مسلسل نہیں مان رہے مگر اس کے باوجودیہ لکھی بھی جائے اور پڑھی بھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قوی اعتراضات کے باوجود یہ صنف زندہ ہے ، اپنی ذات میں مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے وجودِ مقوی پر اصرار بھی کرتی ہے کہ سب اسے تسلیم کریں۔اب اس کا اصرار کرنا اور موجود ہونا ہی اپنے مقدمے کے حق میں دال ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جب کوئی صنف مشہور ہوتی ہے تو اس کے ساتھ کئی کئی طرح کے اچھے برے تجربے ہو چکے ہوتے ہیں ۔یہ اتار چڑھاؤکبھی اسے کمزور اور کبھی طاقت سے مالا مال کر دیتے ہیں پھر دوسری جانب یہی اتار چڑھاؤ اس صنف کے آڑے آسکتے ہیں ۔ہمارے ہاں زیادہ تر مشکلات اور معاملات میں مکھی پر مکھی مارنے کا رواج زیادہ ہے۔نثری نظم کے مخالفین شمس الرحمان فاروقی کے اس بیان کو سینے سے لگائے زندہ ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’نثری نظم ہمارے ادب میں ایک صنف کی حیثیت سے قائم نہیں ہو سکتی ہے۔۔۔اور اس کے آئندہ قیام کے امکانات بظاہر روشن نہیں‘‘۔جس زمانے میں وزیرآغا نے اس کی مخالفت کی تھی اور یہاں تک کہہ دیا تھا کہ نثری نظم کا ایک بھی ایسا نمونہ نہیں جسے اچھی شاعری تو کجا محض شاعری ہی کہا جا سکے۔اسی زمانے میں نثری نظم پر بہت سختیاں آئیں یہاں تک بھی با بانگِ دہل کہا گیا کہ نثری نظم کا خیال اس لیے مہمل معلوم ہوتا ہے کہ اسے نظم کہنے پر اصرار ہے اور اسے نثری نظم اپنی ارفع ترین شکل میں بھی نہ بلند پایہ شاعری کی ہم پلہ ہو سکتی ہے نہ عمدہ تخلیق یا علمی نثر کے معیار پر پوری اتر سکتی ہے ۔یہ نہ شعر ہے اور نہ اعلیٰ تخلیقی شہ پارہ۔نثری نظم کے معترضین اب بھی اسی بات پر بضد ہیں کہ اردو تہذیب نے اسے دیگر شعری اصناف کے برابر قبول نہیں کیا۔غزل کے شاعر ابھی تک یا تو اس سے اغماض کرتے ہیں یا اسے لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔وہ نثری شاعری کے درمیانی سفر سے انحراف برتتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ روزِ اوّل کے زینے پر کھڑی ہے۔ آج بھی وہ اس کا اسی طرح مضحکہ اڑاتے ہیں جیسا اس کے آغاز میں اس کے حصے میں آیا۔اس بے چاری کی دُھنائی کٹائی کرنے والوں میں بہت بڑے بڑے غزل گو پردہ نشینوں کے اسمائے گرامی درج کیے جا سکتے ہیں مگر اس کی ضرورت پیش نہ آئی کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ اس کے خلاف ہموارکی جاتی رہی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ منثور متن نے بہت سے غزل اور پابند نظم لکھنے والوں کو الجھن میں ضرور ڈالے رکھا۔اگر چہ وہ بظاہر اس کو غیر ضروری اور بے وجہ کی صنفِ سخن سمجھ رہے ہوں ،مگر وہ کنکھیوں سے اس پر کڑی نگاہ بھی رکھتے ہیں کہ کہیں یہ ان کے نورِ نظر سے اوجھل ہو کرشاعری کی دنیا میں پناہ نہ لے لے اور کسی اُفق پر طلوع ہو کر اپنا آپ محفوظ نہ کروا لے یا خود کو منوا نہ لے۔سید عبدللہ جو اردو ادب کا بہت بڑا نام ہے وہ بھی نثری نظم کو اچھوت نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہ شعری فارم اور نثری فارم میں اتنابعد سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے ان کے دروازے بند ہو جائیں۔ اظہار کے لیے جب بھی انسان کوئی سانچہ بناتا ہے تو اس میں ضرور کوئی نہ کوئی ہیئت وقوع پزیر ہوتی ہے ۔یہ بھی درست ہے کہ نثر اور شاعری کا ایک باریک سا فرق ہے ۔شاعری میں عروضی پابندی لازمی ہوتی ہے میرا خیال ہے کہ نثری نظم کو اتنی رعایت دے دینی چاہیے کہ اسے شاعری کے اقلیم سے باہر نہ نکالا جائے چاہے اس کے گلے میں بحر کی مالا ہو یا نہ ہو۔اگر وہ تخلیقی متن شاعری کے بلند مدارج کو چھو رہا ہو تو اسے عروض کی سند نہ ہونے پر بھی اچھوت نہیں سمجھنا چاہیے۔یہاں ہم شخصے کی بات کو رد نہیں کر سکتے جو ذوق کو شاعری کا حقیقی ہنر مانتا ہے اور خواہشِ اظہار کو اساسی ہتھیار کی میان میں رکھتا ہے۔پچھلے تقریباً چالیس پنتالیس سالوں میں نثری نظم کے ردو قبول، مخالفت و موافقت میں بہت لے دے ہو چکی ۔نثری نظم کے حامیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جب خیالات میں بالیدگی و پچیدگی در آتی ہے تو نثری نظم کا دامن وسیع ہوتا چلا جاتا ہے ۔نظم تحت الشعور میں ہوتی ہے اور نثری نظم لا شعور میں جا کرتی ہے۔ جب خیال کا چیرہ نہ بن پائے تو وہاں نثری نظم اظہار کا بہتریں زریعہ ہے۔نثری نظم محبت کا وہ لباس ہے کہ جب تک وجود خود کو اس لباس کے حوالے نہیں کرتا وہ نہ تو اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے نہ ہی اپنے بھید پڑھنے والے پر کھولتی ہے۔ نثری نظم کے حامی یہ بات ماننے کو ہر گز تیار نہیں کہ شعر کلام موزوں ہے اور نثر کلام نا موزوں۔لا شعر کا مسئلہ انہیں ان کو لا یعنی دکھائی دیتا ہے جب کہ نثری نظم کے غیر حامی تاویلیں دیتے ہیں کہ موزوں شعر کے لیے مروجہ عروض ہی وزن کا پیمانہ نہیں ،وزن بر قرار رکھنے کی اور بھی بہت سی صورتیں ہیں۔آہنگ کا رشتہ عروض سے نہیں اصوات سے ہوتا ہے۔نثری نظم یا شاعری کرنے والاخود فراموشی اور خود فریبی کا شکار ہے۔ جو لوگ نظم اور نثر کو ایک دوسرے کا حریف سمجھتے ہیں ان کو کولرج کی فکر کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس نے کہا تھا کہ شاعری کی ضد نثر نہیں بلکہ سائنس ہے۔
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ
14/10/2014