نثری نظم کا عہدِ موجود

http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/نثری-نظم-کا-عہدِ-موجود

حلقہء ارباب ذوق جو ادبا اور دانشوروں کی عظیم اور پرانی غیر سرکاری تنظیم ہے اس نے ادب اور ادیب کا بہت سا بار اُٹھا رکھا ہے۔یہ تنظیم سینئر ادیبوں کو حوصلہ اور طاقت مہیا کرتی ہے اور نئے لکھنے والوں کی تربیت کرتی ہے۔یہاں پرادب کی تمام اصنافِ سخن پر خصوصاًاور فنونِ لطیفہ پر عموماًبحث و مباحثہ ہوتا ہے پچھلے دنوں حلقہ اربابِ ذوق میں پھر نثری نظم پر بحث چل پڑی۔اگر چہ اس بحث کی عمر اب پُرانی ہوتی جارہی ہے مگر بعض اوقات یہ نئی لگنے لگتی ہے۔خاص طور پر کئی عاشقانِ غزل تو اس کے نام پر لاحول پڑھتے نظر آتے ہیں ۔کئی دل جلے سرے سے اس کو کوئی صنف مانتے ہی نہیں ہیں ۔ان کے نزدیک نہ یہ نثر ہے نہ شاعری گویا تحریر ہی نہ ہوئی یہ کوئی عیبِ ادب ہے۔ہوا یوں کہ حلقہ اربابِ ذوق پاک ٹی ہاؤس میں گزشتہ ہفتے روایت کے مطابق غیر مطبوعہ تخلیقات پیش کی گئیں جب نثری نظموں کی باری آئی توغزل کے طرفداروں نے نثری نظم کو حسبِ روایت شاعری ماننے سے انکار کر دیا ۔ان کا ایقان ہے کہ جسے شاعر کہتے ہیں وہ صرف اور صرف غزل کی مٹی سے گُندھا ہوا ہوتا ہے جس کو یہ مٹی میسر نہیں وہ شاعر نہیں۔وہ صرف پوروں پر لہو لگا کر شاعری کے شہدا میں نام لکھوانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔غزل کے محبان کا نظریہ تو پھر بھی کوئی منطق رکھتا ہے یہاں ہم ایسے سینئر افسانہ نگار کو بھی جانتے ہیں کہ جب وہ کسی دوسرے افسانہ نگار کا افسانہ سنتے ہیں تو سب سے پہلا فقرہ وہ محترم یہ بولتے ہیں کہ ’’میں اس تحریر کو سرے سے افسانہ ہی نہیں مانتا ‘‘۔اگر اللہ بھلا کرے افسانہ باکمال ہو اور کسی جہت سے بھی کمزور نہ ہو اور ۱۰۰ میں سے ۹۹فیصد لوگ اس افسانے کے حق میں بات کریں تو تو وہ موصوف کہہ دیتے ہیں کہ میں اس تخلیق پر بات نہیں کرتا ۔اُس دوران ایسی گہری سوچ میں غرق لگتے ہیں کہ گویا زیرِلب’’میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا‘‘ کا ورد کر رہے ہوں ۔سوال یہ ہے کہ بہت سے لوگ نثری نظم کو شاعری نہیں مانتے اور مسلسل نہیں مان رہے مگر اس کے باوجودیہ لکھی بھی جائے اور پڑھی بھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قوی اعتراضات کے باوجود یہ صنف زندہ ہے ، اپنی ذات میں مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے وجودِ مقوی پر اصرار بھی کرتی ہے کہ سب اسے تسلیم کریں۔اب اس کا اصرار کرنا اور موجود ہونا ہی اپنے مقدمے کے حق میں دال ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جب کوئی صنف مشہور ہوتی ہے تو اس کے ساتھ کئی کئی طرح کے اچھے برے تجربے ہو چکے ہوتے ہیں ۔یہ اتار چڑھاؤکبھی اسے کمزور اور کبھی طاقت سے مالا مال کر دیتے ہیں پھر دوسری جانب یہی اتار چڑھاؤ اس صنف کے آڑے آسکتے ہیں ۔ہمارے ہاں زیادہ تر مشکلات اور معاملات میں مکھی پر مکھی مارنے کا رواج زیادہ ہے۔نثری نظم کے مخالفین شمس الرحمان فاروقی کے اس بیان کو سینے سے لگائے زندہ ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’نثری نظم ہمارے ادب میں ایک صنف کی حیثیت سے قائم نہیں ہو سکتی ہے۔۔۔اور اس کے آئندہ قیام کے امکانات بظاہر روشن نہیں‘‘۔جس زمانے میں وزیرآغا نے اس کی مخالفت کی تھی اور یہاں تک کہہ دیا تھا کہ نثری نظم کا ایک بھی ایسا نمونہ نہیں جسے اچھی شاعری تو کجا محض شاعری ہی کہا جا سکے۔اسی زمانے میں نثری نظم پر بہت سختیاں آئیں یہاں تک بھی با بانگِ دہل کہا گیا کہ نثری نظم کا خیال اس لیے مہمل معلوم ہوتا ہے کہ اسے نظم کہنے پر اصرار ہے اور اسے نثری نظم اپنی ارفع ترین شکل میں بھی نہ بلند پایہ شاعری کی ہم پلہ ہو سکتی ہے نہ عمدہ تخلیق یا علمی نثر کے معیار پر پوری اتر سکتی ہے ۔یہ نہ شعر ہے اور نہ اعلیٰ تخلیقی شہ پارہ۔نثری نظم کے معترضین اب بھی اسی بات پر بضد ہیں کہ اردو تہذیب نے اسے دیگر شعری اصناف کے برابر قبول نہیں کیا۔غزل کے شاعر ابھی تک یا تو اس سے اغماض کرتے ہیں یا اسے لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔وہ نثری شاعری کے درمیانی سفر سے انحراف برتتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ روزِ اوّل کے زینے پر کھڑی ہے۔ آج بھی وہ اس کا اسی طرح مضحکہ اڑاتے ہیں جیسا اس کے آغاز میں اس کے حصے میں آیا۔اس بے چاری کی دُھنائی کٹائی کرنے والوں میں بہت بڑے بڑے غزل گو پردہ نشینوں کے اسمائے گرامی درج کیے جا سکتے ہیں مگر اس کی ضرورت پیش نہ آئی کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ اس کے خلاف ہموارکی جاتی رہی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ منثور متن نے بہت سے غزل اور پابند نظم لکھنے والوں کو الجھن میں ضرور ڈالے رکھا۔اگر چہ وہ بظاہر اس کو غیر ضروری اور بے وجہ کی صنفِ سخن سمجھ رہے ہوں ،مگر وہ کنکھیوں سے اس پر کڑی نگاہ بھی رکھتے ہیں کہ کہیں یہ ان کے نورِ نظر سے اوجھل ہو کرشاعری کی دنیا میں پناہ نہ لے لے اور کسی اُفق پر طلوع ہو کر اپنا آپ محفوظ نہ کروا لے یا خود کو منوا نہ لے۔سید عبدللہ جو اردو ادب کا بہت بڑا نام ہے وہ بھی نثری نظم کو اچھوت نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہ شعری فارم اور نثری فارم میں اتنابعد سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے ان کے دروازے بند ہو جائیں۔ اظہار کے لیے جب بھی انسان کوئی سانچہ بناتا ہے تو اس میں ضرور کوئی نہ کوئی ہیئت وقوع پزیر ہوتی ہے ۔یہ بھی درست ہے کہ نثر اور شاعری کا ایک باریک سا فرق ہے ۔شاعری میں عروضی پابندی لازمی ہوتی ہے میرا خیال ہے کہ نثری نظم کو اتنی رعایت دے دینی چاہیے کہ اسے شاعری کے اقلیم سے باہر نہ نکالا جائے چاہے اس کے گلے میں بحر کی مالا ہو یا نہ ہو۔اگر وہ تخلیقی متن شاعری کے بلند مدارج کو چھو رہا ہو تو اسے عروض کی سند نہ ہونے پر بھی اچھوت نہیں سمجھنا چاہیے۔یہاں ہم شخصے کی بات کو رد نہیں کر سکتے جو ذوق کو شاعری کا حقیقی ہنر مانتا ہے اور خواہشِ اظہار کو اساسی ہتھیار کی میان میں رکھتا ہے۔پچھلے تقریباً چالیس پنتالیس سالوں میں نثری نظم کے ردو قبول، مخالفت و موافقت میں بہت لے دے ہو چکی ۔نثری نظم کے حامیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جب خیالات میں بالیدگی و پچیدگی در آتی ہے تو نثری نظم کا دامن وسیع ہوتا چلا جاتا ہے ۔نظم تحت الشعور میں ہوتی ہے اور نثری نظم لا شعور میں جا کرتی ہے۔ جب خیال کا چیرہ نہ بن پائے تو وہاں نثری نظم اظہار کا بہتریں زریعہ ہے۔نثری نظم محبت کا وہ لباس ہے کہ جب تک وجود خود کو اس لباس کے حوالے نہیں کرتا وہ نہ تو اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے نہ ہی اپنے بھید پڑھنے والے پر کھولتی ہے۔ نثری نظم کے حامی یہ بات ماننے کو ہر گز تیار نہیں کہ شعر کلام موزوں ہے اور نثر کلام نا موزوں۔لا شعر کا مسئلہ انہیں ان کو لا یعنی دکھائی دیتا ہے جب کہ نثری نظم کے غیر حامی تاویلیں دیتے ہیں کہ موزوں شعر کے لیے مروجہ عروض ہی وزن کا پیمانہ نہیں ،وزن بر قرار رکھنے کی اور بھی بہت سی صورتیں ہیں۔آہنگ کا رشتہ عروض سے نہیں اصوات سے ہوتا ہے۔نثری نظم یا شاعری کرنے والاخود فراموشی اور خود فریبی کا شکار ہے۔ جو لوگ نظم اور نثر کو ایک دوسرے کا حریف سمجھتے ہیں ان کو کولرج کی فکر کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس نے کہا تھا کہ شاعری کی ضد نثر نہیں بلکہ سائنس ہے۔

ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ

14/10/2014
 
تحریر پر اہل علم و فن ہی بات کریں تو بہتر ہے، ہم اس کو شریک محفل کرنے پر آپ کے شکر گزار ہیں۔
ذہن میں ایک سوال در آیا ہے اگر گراں نہ ہو، یہاں اس کے ہونے نہ ہونے پر گفتگو زیادہ کی گئی ہے، یہ ہے کیا پر کچھ کمی محسوس ہوئی۔
محفل پہ آنے کے بعد نثری نظم کے حوالے سے جو مضامین نظر سے گزرے ان میں یہ بحث زیادہ کی گئی کہ اس کے وجود کی مخالفت و موافقت میں کیا اور کون گفتگو کرتا ہے۔
اس کی ہیت کے حوالے سے ابھی بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ یہ ہے کیا اور کیسی ہوتی ہے، ادب کی دیگر اصناف کی طرح اس کے اصول و ضوابط ہیں یا نہیں؟
 
تحریر پر اہل علم و فن ہی بات کریں تو بہتر ہے، ہم اس کو شریک محفل کرنے پر آپ کے شکر گزار ہیں۔
ذہن میں ایک سوال در آیا ہے اگر گراں نہ ہو، یہاں اس کے ہونے نہ ہونے پر گفتگو زیادہ کی گئی ہے، یہ ہے کیا پر کچھ کمی محسوس ہوئی۔
محفل پہ آنے کے بعد نثری نظم کے حوالے سے جو مضامین نظر سے گزرے ان میں یہ بحث زیادہ کی گئی کہ اس کے وجود کی مخالفت و موافقت میں کیا اور کون گفتگو کرتا ہے۔
اس کی ہیت کے حوالے سے ابھی بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ یہ ہے کیا اور کیسی ہوتی ہے، ادب کی دیگر اصناف کی طرح اس کے اصول و ضوابط ہیں یا نہیں؟

حسن بھائی شکریہ۔ اس حوالے سے ان شا اللہ وقت میسر ہونے پر تحقیقی مضمون لکھنے کی کوشش کروں گا اور اس میں اس پر تحقیق کر چکنے والے احباب سے مدد لوں گا۔ یہاں اگر میں اپنے خیالات شئیر کروں کہ یہ کیا ہے تو بات ذاتیات پر آجائے گی۔ ہم اس حوالے سے پرائیویٹ مکالمہ شروع کر سکتے ہیں۔مزید یہ کہ اس حوالے سے یقینا مضمون نگار کے ذہن میں کچھ نہ کچھ ہوگا، ان سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:
حسن بھائی شکریہ۔ اس حوالے سے ان شا اللہ وقت میسر ہونے پر تحقیقی مضمون لکھنے کی کوشش کروں گا اور اس میں اس پر تحقیق کر چکنے والے احباب سے مدد لوں گا۔ یہاں اگر میں اپنے خیالات شئیر کروں کہ یہ کیا ہے تو بات ذاتیات پر آجائے گی۔ ہم اس حوالے سے پرائیویٹ مکالمہ شروع کر سکتے ہیں۔مزید یہ کہ اس حوالے سے یقینا مضمون نگار کے ذہن میں کچھ نہ کچھ ہوگا، ان سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
میرے خیال میں بحث کا آغاز یہاں کیا گیا ہے تو اسے یہیں شئیر کریں۔ اگر محض سوالات کے جوابات دیے گئے اور کون کیا اور کیوں کہتا ہے کی بحث نہ کی گئی تو بات نکتہ ارتکاز پر ہی رہی گی۔ باقی انتظار رہے گا۔
 
میرے خیال میں بحث کا آغاز یہاں کیا گیا ہے تو اسے یہیں شئیر کریں۔ اگر محض سوالات کے جوابات دیے گئے اور کون کیا اور کیوں کہتا ہے کی بحث نہ کی گئی تو بات نکتہ ارتکاز پر ہی رہی گی۔ باقی انتظار رہے گا۔
میرے خیال میں تو مضمون بہت سادہ اور سلیس ہے اور اس میں ایسے کچھ پیچیدہ سوالات شامل نہیں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟
دوسری بات اگر کیوں کہتا ہے کہ بحث سے مراد شعرا کرام اور سببِ شاعری ہے تو اس کے لیے یہ بندہ ناچیز کا یہ مضمون بہت مدد کرے گا:

http://www.jahan-e-urdu.com/how-to-write-poetry-writer-khurram-yaseen/
 
میرے خیال میں تو مضمون بہت سادہ اور سلیس ہے اور اس میں ایسے کچھ پیچیدہ سوالات شامل نہیں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟
دوسری بات اگر کیوں کہتا ہے کہ بحث سے مراد شعرا کرام اور سببِ شاعری ہے تو اس کے لیے یہ بندہ ناچیز کا یہ مضمون بہت مدد کرے گا:

http://www.jahan-e-urdu.com/how-to-write-poetry-writer-khurram-yaseen/
موجودہ مضمون تو بالکل درست ہے۔ اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں۔
 
مضمون بہت خوب ہے اور وہی خیال بیان ہوا جس کا ذکر ہم نجی محافل میں کرتے تھے کہ یہ الہامی کام ہے، کب کہاں کون سا خیال در آئے، اسے صرف مناسب الفاظ کا پیرہن پہنایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ زور سے شعر کہتے ہوں لیکن ہم الہام کے ہی قائل ہیں جو نازل ہوتا ہے۔
 
مضمون بہت خوب ہے اور وہی خیال بیان ہوا جس کا ذکر ہم نجی محافل میں کرتے تھے کہ یہ الہامی کام ہے، کب کہاں کون سا خیال در آئے، اسے صرف مناسب الفاظ کا پیرہن پہنایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ زور سے شعر کہتے ہوں لیکن ہم الہام کے ہی قائل ہیں جو نازل ہوتا ہے۔
انشا اللہ چند دن میں الہام، آورد، آمد اور بین المتنیت پر بھی بات ہوگی :)
 

نمرہ

محفلین
نثری نظم میں کسی قسم کی پابندی ہوتی بھی ہے کیا، یہ سوال تو میرا بھی ہے. ابھی تک تو اس کا جواب صریحا نفی میں لگتا ہے.
 

فلک شیر

محفلین
کسی کے نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے؟
نثری نظم ایک حقیقت ہے اور طعنوں اور چٹکیاں لینے سے اسے زیر زمین دفن نہیں کیا جا سکتا ۔
یہ تخلیق کا ایک قرینہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اسے نظم ، بلکہ سرے سے ادب ہی سے خارج قرار دے دیجیے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا
رہی بات اس کے معیار کی، تو اس کے لیے وہی پیمانہ ہے، جو کسی بھی دوسری تخلیق کے لیے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جان ہو گی، تو صدیوں پڑھا جائے گا، نہیں تو !!!
 

محمد امین

لائبریرین
فلک شیر بھائی۔ اس چیز کو کوئی نہ ہی تخلیق ماننے سے انکار کرتا ہے اور نہ ہی ادب سے خارج کرتا ہے۔ بات یہ ہے کہ آگ نام رکھنے سے روشنی نہیں ملتی۔ نظم کا مطلب ہی معیار بندی کے تحت کہی جانے والی بات ہے۔ تاریخی طور پر بھی اور مشاہیر کے یہاں بھی نظم اور نثر کو متضاد سمجھا جاتا رہا ہے۔ میں ہونڈا سوک کو کھوتا کرولا کہنا شروع کردوں اور اپنی بائک پر بی ایم ڈبلیو کا اسٹکر لگا دوں۔۔ عقل مانتی نہیں ہے۔ خرد کا نام جنوں رکھ دوں۔۔

محترمہ لکھاری نے نثری نظم کا تقابل دھڑلے سے غزل سے کر ڈالا۔ ارے غزل اور نثری نظم کو کوئی کمپیئر ہی کیسے کر سکتا ہے؟ سیب کو نارنجی سے ملا کر کیا ملے گا؟ نثری نظم نامی شئے کا مقابلہ کسی صنفِ سخن سے نہیں بلکہ سراسر سخن ہی کے تو مدِ مقابل ہے یہ چیز۔ تو ایک broader perspective میں بات کی جانی چاہیے۔

دوسری بات یہ کہ انہوں نے بہت بڑا تیر مارا اور کولرج کی فکر کو عمرِ رفتہ کی طرح ساز تھام کے آواز دے لی، چھِڑی ہوئی غزل سے تو ویسے ہی بیر ہے انکو۔ مجھ جاہل نے تو کولرج کا نام بھی نہیں سنا تھا، ابھی وکی بھائی نے بتایا کہ کوئی انگریز فلسفی اور شاعر تھا۔ اب کوئی مجھے یہ سمجھا دے کہ انگریزی اور اردو شاعری کو آپس میں کیا علاقہ کہ ایک انگریز کے مقولے کو اردو شاعری کے لیے دلیل بنایا جائے کہ اردو شاعری کے آہنگ و عروضی اصول عربی و فارسی سے درآمد شدہ اور اردو کے ساتھ آزمودہ اور مخصوص ہیں۔ انگریزی میں تو صرف سیلیبلز کو ناپ تول کر اور تھوڑا سا قافیہ ملا کر شاعری ہوجاتی ہے، جہاں تک میرا ناقص علم ہے۔

بھئی۔۔۔۔ جس کو لوگ نثری شاعری کہتے ہیں اس طرح کی نثر تو یہاں ہمیشہ سے لکھی جاتی رہی ہے۔ اگر کسی نے قدیم نثر نہ پڑھی ہو تو ہم کیا کریں؟ قدیم نثر میں قافیوں اور ایک جیسے الفاظ کا التزام برتا جاتا تھا۔ کیسے کیسے نادر الفاظ، تراکیب اور محاورے، بس ان کو آزاد نظم کی طرح "فیک" مصرعوں کی صورت میں لکھیں تو یہی "نثری نظم" جیسی شئے بن جائے گی۔ تجربہ کرنا برا نہیں لیکن لوگوں کو برا تب لگتا ہے جب ایک قادیانی خود کو مسلم کہے۔۔ اسی طرح نثر خود کو نظم کہلوانا شروع کردے تو ناطقہ سربگریباں ہوجاتا ہے کہ بھائی پہلے سوچ لے کہ نظم ہے یا نثر۔۔ ایک دفعہ بتا دے۔۔
 
آخری تدوین:

فلک شیر

محفلین
فلک شیر بھائی۔ اس چیز کو کوئی نہ ہی تخلیق ماننے سے انکار کرتا ہے اور نہ ہی ادب سے خارج کرتا ہے۔ بات یہ ہے کہ آگ نام رکھنے سے روشنی نہیں ملتی۔ نظم کا مطلب ہی معیار بندی کے تحت کہی جانے والی بات ہے۔ تاریخی طور پر بھی اور مشاہیر کے یہاں بھی نظم اور نثر کو متضاد سمجھا جاتا رہا ہے۔ میں ہونڈا سوک کو کھوتا کرولا کہنا شروع کردوں اور اپنی بائک پر بی ایم ڈبلیو کا اسٹکر لگا دوں۔۔ عقل مانتی نہیں ہے۔ خرد کا نام جنوں رکھ دوں۔۔

محترمہ لکھاری نے نثری نظم کا تقابل دھڑلے سے غزل سے کر ڈالا۔ ارے غزل اور نثری نظم کو کوئی کمپیئر ہی کیسے کر سکتا ہے؟ سیب کو نارنجی سے ملا کر کیا ملے گا؟ نثری نظم نامی شئے کا مقابلہ کسی صنفِ سخن سے نہیں بلکہ سراسر سخن ہی کے تو مدِ مقابل ہے یہ چیز۔ تو ایک broader perspective میں بات کی جانی چاہیے۔

دوسری بات یہ کہ انہوں نے بہت بڑا تیر مارا اور کولرج کی فکر کو عمرِ رفتہ کی طرح ساز تھام کے آواز دے لی، چھِڑی ہوئی غزل سے تو ویسے ہی بیر ہے انکو۔ مجھ جاہل نے تو کولرج کا نام بھی نہیں سنا تھا، ابھی وکی بھائی نے بتایا کہ کوئی انگریز فلسفی اور شاعر تھا۔ اب کوئی مجھے یہ سمجھا دے کہ انگریزی اور اردو شاعری کو آپس میں کیا علاقہ کہ ایک انگریز کے مقولے کو اردو شاعری کے لیے دلیل بنایا جائے کہ اردو شاعری کے آہنگ و عروضی اصول عربی و فارسی سے درآمد شدہ اور اردو کے ساتھ آزمودہ اور مخصوص ہیں۔ انگریزی میں تو صرف سیلیبلز کو ناپ تول کر اور تھوڑا سا قافیہ ملا کر شاعری ہوجاتی ہے، جہاں تک میرا ناقص علم ہے۔

بھئی۔۔۔۔ جس کو لوگ نثری شاعری کہتے ہیں اس طرح کی نثر تو یہاں ہمیشہ سے لکھی جاتی رہی ہے۔ اگر کسی نے قدیم نثر نہ پڑھی ہو تو ہم کیا کریں؟ قدیم نثر میں قافیوں اور ایک جیسے الفاظ کا التزام برتا جاتا تھا۔ کیسے کیسے نادر الفاظ، تراکیب اور محاورے، بس ان کو آزاد نظم کی طرح "فیک" مصرعوں کی صورت میں لکھیں تو یہی "نثری نظم" جیسی شئے بن جائے گی۔ تجربہ کرنا برا نہیں لیکن لوگوں کو برا تب لگتا ہے جب ایک قادیانی خود کو مسلم کہے۔۔ اسی طرح نثر خود کو نظم کہلوانا شروع کردے تو ناطقہ سربگریباں ہوجاتا ہے کہ بھائی پہلے سوچ لے کہ نظم ہے یا نثر۔۔ ایک دفعہ بتا دے۔۔
محمد امین بھائی! میں شکرگزار ہوں، کہ آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا ۔ ورنہ وارث صاحب تو مزاحیہ کی ریٹنگ دے کر چلے گئے ۔مانا کہ بڑے لوگ ہیں ، شاعر بھی ہیں ، عروض بھی جانتے ہیں اور فارسی بھی ۔ لیکن کیا اس ریٹنگ سے لوگ نثری نظم لکھنا چھوڑ دیں گے اور اس کو پڑھا نہیں جائے گا؟
جتنے ادبی رسالے پاکستان میں چھپ رہے ہیں ، علامہ ضیاء حسین ضیاء کے زنگار سے لے کر اجراء کراچی تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب میں اس صنف کو جگہ دی جا ررہی ہے ۔ اس میں رس اور جان کی بات کی جائے، تو ان نظموں میں سے بہت سی ایسی قابل ذکر ہوتی ہیں، جن کو پڑھ کر قاری حظ اٹھاتا ہے اور شعر کی فضا اپنے اندر اور اپنے اوپر محسوس کرتا ہے۔
باقی غزل اور نثری نظم کا مقابلہ قطعاً مطلوب نہیں ۔انگریزی شاعری کے اتار چڑھاؤ اور ادبی تاریک سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اس کی عروض prosodyکا اپنا نظام موجود ہے ۔ لیکن نظم کو نثر اور نثر کو نظم کی حدوں تک لانے کا رجحان ہمارے ہاں وہیں سے آیا ہے، اس سے مجھے انکار نہیں اور کوئی پریشانی بھی۔
 
آخری تدوین:
محمد امین بھائی! میں شکرگزار ہوں، کہ آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا ۔ ورنہ وارث صاحب تو مزاحیہ کی ریٹنگ دے کر چلے گئے ۔مانا کہ بڑے لوگ ہیں ، شاعر بھی ہیں ، عروض بھی جانتے ہیں اور فارسی بھی ۔ لیکن کیا اس ریٹنگ سے لوگ نثری نظم لکھنا چھوڑ دیں گے اور اس کو پڑھا نہیں جائے گا؟
جتنے ادبی رسالے پاکستان میں چھپ رہے ہیں ، علامہ ضیاء حسین ضیاء کے زنگار سے لے کر اجراء کراچی تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب میں اس صنف کو جگہ دی جا ررہی ہے ۔ اس میں رس اور جان کی بات کی جائے، تو ان نظموں میں سے بہت سی ایسی قابل ذکر ہوتی ہیں، جن کو پڑھ کر قاری حظ اٹھاتا ہے اور شعر کی فضا اپنے اندر اور اپنے اوپر محسوس کرتا ہے۔
باقی غزل اور نثری نظم کا مقابلہ قطعاً مطلوب نہیں ۔انگریزی شاعری کے اتار چڑھاؤ اور ادبی تاریک سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اس کی عروض prosodyکا اپنا نظام موجود ہے ۔ لیکن نظم کو نثر اور نثر کی حدوں تک لانے کا رجحان ہمارے ہاں وہیں سے آیا ہے، اس سے مجھے انکار نہیں اور کوئی پریشانی بھی۔

السلام علیکم!
بھائی جان ایک بار سرور خان سرور صاحب نے نثری نظم سے متعلق بڑی خوبصورت بات کہی تھی، کہتے تھے کہ اس کے حوالے سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ فخر کرنے کی بات ہے کہ یہ وہ واحد صنف ہے جس کا نام کم از کم ہمارا اپنا عطا کردہ ہے ورنہ دیگر اصناف ِ شعر کے حوالے سے تو ہمیں یتیموں کی طرح عرب اور ایران کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ :)
 
آخری تدوین:

محمد امین

لائبریرین
نہ مجھے اس صنف سے اختلاف ہے اور نہ اس کو روکنے کی بات کی۔ اختلاف صرف نام پر ہے۔ ارے میری یہ سمجھ نہہں آتا کہ اس کو نظم کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟
 
نہ مجھے اس صنف سے اختلاف ہے اور نہ اس کو روکنے کی بات کی۔ اختلاف صرف نام پر ہے۔ ارے میری یہ سمجھ نہہں آتا کہ اس کو نظم کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟
جیسے پاکستان میں غنڈوں کو قانون ساز اسمبلی کا ممبر کہتے ہیں۔
 
نہ مجھے اس صنف سے اختلاف ہے اور نہ اس کو روکنے کی بات کی۔ اختلاف صرف نام پر ہے۔ ارے میری یہ سمجھ نہہں آتا کہ اس کو نظم کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟
چلیں نثم کہہ لیجیے۔ ویسے نظم کے معنی اسے نظم کہنے سے نہیں روکتے۔ مزیدیہ کہ قاسم یعقوب کی ادارات میں نکلنے والے میگزین (غالبا نکات) میں بڑی طویل بحث کے بعد اسے نثری نظم کے بجائے محض نظم قراردے دیا گیا ہے۔ ادبی دنیا نامی ویب سائٹ پر قاسم یعقوب کا انٹرویو چھپا ہے اس میں انہوں نے انکشاف کیا۔
 
Top