فائضہ خان
محفلین
سانولی
میرے تن پر چادر اماں کی، باپ کی بگڑی ہاتھوں میں
میں ساجن روتا چھوڑا ہے، میں کالی کملی بختوں میں
میں روتی مرتی کہتی تھی ،اماں! بس اس جنم میں جانے دے
ماں سینہ پیٹ کہ کہتی تھی، پھر باپ کو مر جانے دے
آخری ملاقات تھی،
اک شام میں اس کے پاس گئی ۔۔۔
میں ہاتھ کو تھاما سانس بھری
رانجھن!
میں شکلوں کالی کوجی آں تیرے نال میں بالکل سجدی نہیں
میکو بھول جا میکو یاد نا کریں
دیکھ
میں سانولی میں بختوں اجڑن اور کالے میرے نین
تو سوہنا تیرا دل چاندی اور روشن تیرے نین
ہم دونوں کا کوئی میل نہیں چل چھوڑ محبت بحث نہیں
پرسوں آخری رات ہے میری ، پھر میں نہیں تیرے سنگ نہیں
تو جی لینا یا پھر محبت کر لینا
پھر محبت کر لینا ؟
میں چونک گئی میں یہ کیا بولی
آہ
ماں کی چادر باپ کی پگ دل پر پتھر رکھنا تھا
اُس کو دور جو کرنا تھا
میں اِترائی ،
سُن پیا!
تو پھر محبت کر لینا پر،
اُس کو یہ سب نہ کہنا کہ ۔۔۔
تیری آنکھ کے کاجل پر میں نے اپنے دل کو ہارا ہے
تری ناک کی نتھلی کان کا جھمکا تیرا سانولا رنگ
تیرے ہونٹ
تیرا ہونٹ دائیں طرف کو اٹھتا ہے تب دل میرا ، رکتا ہے
تیرا بازو بند ،
ہائےےے “تیری گردن کا وہ تل “
تیری کمر کا مڑنا ندی سا، تیرے جسم کی خشبو صندل سی
جان گنوانے والے کی آخری خواہش تو سن
تیرے پاؤں
میں پاؤں میں عمر گزار دوں بس پائل باندھ کے رکھ سینے پر ، میں لبوں سے اور سنوار دوں ۔۔
اور تیرے بالوں سے تو شروع ہوئی میری پریم کہانی ہے ۔۔۔
میں نے سانس بھری ۔۔۔
ہممم
میں آنسو روکے پلٹی تھی وہ گمُ سم بے سدھ لیٹا تھا۔
میں نے پیر کا دھاگہ کھولا ہے اب مجھ میں سب کچھ دھوکہ ہے
میرا رنگ کالا میرا من کالا اب کالے میرے بخت
یک دم ۔۔
وہ پاس آیا سرگوشی کی ۔۔
خدا کرے تو ماں بنے تیری بیٹی ہو ۔۔
وہ عشق کرے تُو نہ مانے ۔۔
تُو عزت کی تلقین کرے وہ ہاں کردے
پھر
پرسوں آخری رات ہو اُس کی اور وہ مر جائے
ہائے
پَر
اس کے تِل کو کوئی اور نہ دیکھ پائے ۔۔۔
میں دل تھام کے بولی، رانجھن !
میکوں بد دعا نہ دے
میں مجبور میں کمزور
وہ ہنس پڑا میں رو پڑی
میں بھاگی ، میں دوڑی
گھر کو آئی
میں پنکھا دیکھا ، میں رسی پکڑی
میں ٹھہر گئی
یہ رسی ماں کے کمرے میں کیوں ؟
میں گھبرائی میں سہم گئی
فیصلہ تو کرنا تھا سو
میں باپ کی لاج سنبھال ائی
میں عشق سولی چاڑ ائی
بیٹی ہونڑ تو پہلاں ای
میں بیٹی ہتھوں مار ائی
میں سانوی میرا من میلا اور کالے میرے نین
فائضہ خان
میرے تن پر چادر اماں کی، باپ کی بگڑی ہاتھوں میں
میں ساجن روتا چھوڑا ہے، میں کالی کملی بختوں میں
میں روتی مرتی کہتی تھی ،اماں! بس اس جنم میں جانے دے
ماں سینہ پیٹ کہ کہتی تھی، پھر باپ کو مر جانے دے
آخری ملاقات تھی،
اک شام میں اس کے پاس گئی ۔۔۔
میں ہاتھ کو تھاما سانس بھری
رانجھن!
میں شکلوں کالی کوجی آں تیرے نال میں بالکل سجدی نہیں
میکو بھول جا میکو یاد نا کریں
دیکھ
میں سانولی میں بختوں اجڑن اور کالے میرے نین
تو سوہنا تیرا دل چاندی اور روشن تیرے نین
ہم دونوں کا کوئی میل نہیں چل چھوڑ محبت بحث نہیں
پرسوں آخری رات ہے میری ، پھر میں نہیں تیرے سنگ نہیں
تو جی لینا یا پھر محبت کر لینا
پھر محبت کر لینا ؟
میں چونک گئی میں یہ کیا بولی
آہ
ماں کی چادر باپ کی پگ دل پر پتھر رکھنا تھا
اُس کو دور جو کرنا تھا
میں اِترائی ،
سُن پیا!
تو پھر محبت کر لینا پر،
اُس کو یہ سب نہ کہنا کہ ۔۔۔
تیری آنکھ کے کاجل پر میں نے اپنے دل کو ہارا ہے
تری ناک کی نتھلی کان کا جھمکا تیرا سانولا رنگ
تیرے ہونٹ
تیرا ہونٹ دائیں طرف کو اٹھتا ہے تب دل میرا ، رکتا ہے
تیرا بازو بند ،
ہائےےے “تیری گردن کا وہ تل “
تیری کمر کا مڑنا ندی سا، تیرے جسم کی خشبو صندل سی
جان گنوانے والے کی آخری خواہش تو سن
تیرے پاؤں
میں پاؤں میں عمر گزار دوں بس پائل باندھ کے رکھ سینے پر ، میں لبوں سے اور سنوار دوں ۔۔
اور تیرے بالوں سے تو شروع ہوئی میری پریم کہانی ہے ۔۔۔
میں نے سانس بھری ۔۔۔
ہممم
میں آنسو روکے پلٹی تھی وہ گمُ سم بے سدھ لیٹا تھا۔
میں نے پیر کا دھاگہ کھولا ہے اب مجھ میں سب کچھ دھوکہ ہے
میرا رنگ کالا میرا من کالا اب کالے میرے بخت
یک دم ۔۔
وہ پاس آیا سرگوشی کی ۔۔
خدا کرے تو ماں بنے تیری بیٹی ہو ۔۔
وہ عشق کرے تُو نہ مانے ۔۔
تُو عزت کی تلقین کرے وہ ہاں کردے
پھر
پرسوں آخری رات ہو اُس کی اور وہ مر جائے
ہائے
پَر
اس کے تِل کو کوئی اور نہ دیکھ پائے ۔۔۔
میں دل تھام کے بولی، رانجھن !
میکوں بد دعا نہ دے
میں مجبور میں کمزور
وہ ہنس پڑا میں رو پڑی
میں بھاگی ، میں دوڑی
گھر کو آئی
میں پنکھا دیکھا ، میں رسی پکڑی
میں ٹھہر گئی
یہ رسی ماں کے کمرے میں کیوں ؟
میں گھبرائی میں سہم گئی
فیصلہ تو کرنا تھا سو
میں باپ کی لاج سنبھال ائی
میں عشق سولی چاڑ ائی
بیٹی ہونڑ تو پہلاں ای
میں بیٹی ہتھوں مار ائی
میں سانوی میرا من میلا اور کالے میرے نین
فائضہ خان