آپ نے اس لڑی کے حوالہ جات دوبارہ دوسری لڑی میں پوسٹ کردیے ہیں، کوشش کیا کیجیے اک جگہ کی بات اسی جگہ پر ہو، ہر لڑی میں نہ ہو
اس جملے میں آپ کو جیسا قابل اعتراض لگا، ویسا کچھ نَہیں ہے ....، اللہ نے کہا قران پاک میں، ورفعنا لک ذکرک .... اللہ ہی ہے جس نے ذکر کو بلند کرنا ہے اور اس ذکر کو بلند کرنے والے انسان ہیں. سورہ الاحزاب میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں .... درود اس زبان پر جاری ہوتا ہے، جس کا دل شفاف ہو ... ہمیں درود پڑھنے کی استطاعت نصیب ہوتی ہے اور یہ نصیب تب ہوتی ہے جب ہم اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں، سجدہ کرتے ہیں ... جب مکمل اس کے آگے اپنی ذات کی نفی ہوجاتی ہے تو پھر ہم اسکا ذکر اللہ اللہ کرتے ہیں، یہ ذکر زبان سے نہیں ہوتا، نیت سے بھی ہوتا، اعمال سے بھی ہوتا ہے، خدمت سے بھی ہوتا ہے، ہر وقت دھیان سے ہوتا ہے .. اس ذکر سے بڑی نعمت نہیں کوئی ہوتی. جب ہمارا دھیان مستقل ہوجاتا ہے اور دل پاک صاف تو ہم درود پڑھتے ہیں. یہ درود پڑھنا بھی زبان سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اسوہ ء حسنہ پر عمل ہے. صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. اب کسی نے کہا " اللہ " ... اس نے سنا "محمد " صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم . یہ اک مستقل عمل تھا، سننے کا عمل اک توفیق کی صورت ہے جتنا اللہ کا ذکر نصیب ہوگا، اتنا ہی عمل ہمیں اسوہ ء حسنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب لیجائے گا اور یہ سننے والی صدا "دل " سے ابھرتی ہے جب دل پاک صاف، مصفی ہو تو ... یہاں اللہ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مراتب کی بات نہیں ہے نہ کبھی ہوگی بلکہ عمل کی توفیق کی بات ہے.
آپ نے بارہا اک بات کا ذکر کیا ہے، مجھے پہلے ہی آپکو واضح کر دینا چاہیے تھا. اور اگر آپ کو اس سے اختلاف بھی ہو تو آپ لوگوں کی بھلائی کے لیے ان کی اصلاح کے لیے کچھ بھی لکھنا چاہو، آپ لکھو، آپ کی بات کا مکمل احترام کیا جائے گا، مجھے آپ کی نیت و خلوص پر یقین ہے کہ قارئین نہیں بھٹکیں گے
.
معذرت کے ساتھ آپ سے اختلاف کی جسارت کروں گا۔ مذہب کی بنیاد قرآن اور حدیث ہے فلسفہ نہیں! کس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب دل صاف شفاف ہوگا تو انسان درود پڑھ سکے گا؟
نماز بنیادی ارکان اور عبادات میں سے ہے۔ مثال کے طور پر کوئی اللہ کا ذکر کرنے کا خاص اہتمام نہیں کرتا ہے لیکن نماز پڑھ لیتا ہے۔ نماز میں درود پڑھنا لازمی ہے۔ یہ بات کہاں سے ثابت ہوتی ہے کہ پہلے دل صاف شفاف کرو تو درود پڑھ سکو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منافق تھے۔ جن کا نفاق پوشیدہ تھا وہ باجماعت نماز پڑھتے تھے۔
ابوالاحوصؓ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایاکہ ''ہم نے دیکھا کہ نماز باجماعت سے صرف وہی منافق پیچھے رہ جاتے تھے جن کا نفاق معلوم اور کھلا ہوتا تھا (یعنی جن لوگوں کا نفاق پوشیدہ تھا، وہ بھی جماعت سے نماز پڑھتے تھے) یا بیمار رہ جاتے تھے۔ اور ان میں سے بھی جوچلنے کی طاقت رکھتا، وہ دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر آتا اور نماز میں ملتا تھا۔'' ا س کے بعد ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ ''بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے ہیں اور ہدایت کے ان طریقوں میں سے ایک طریقہ اس مسجد میں(جماعت سے) نماز پڑھنا ہے جس میں اذان دی جاتی ہو۔''
(صحیح مسلم، کتاب المساجد: باب فضل صلاة الجماعة)
اب ان کے دلوں کے حال سے تو صرف اللہ رب العزت ہی واقف تھا۔
اس کے علاوہ بہت سارے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ اگر درود پڑھنا بھول جاتے ہیں یا نہیں پڑھتے ہیں تو ان کے دل کتنے صاف شفاف ہیں یہ تو خدائے رب العزت ہی جانتا ہے۔ ہم فیصلہ کرنے والے کوئی نہیں ہوتے ہیں۔
اِنَّ اللّ۔ٰهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ اِنَّهٝ عَلِيْ۔مٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (38 )
بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کے غیب جانتا ہے، بے شک وہ سینوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ سورۃ فاطر
یہ بات کہنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر کسی سے بھول ہوئی اور درود نہیں پڑھا یا کثرت سے درود پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گیا کہ اس کا دل صاف شفاف نہیں ہے۔
جہاں تک دوسری لڑی میں اسی مراسلے کو دوبارہ نقل کرنے کا تعلق ہے تو وہ اس لئے کیا گیا ہے کہ آپ کی بہت ساری تحاریر کے موضوع کے اعتبار سے یہ مراسلہ مطابقت رکھتا ہے۔ میں نے عمومی طور پر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر آپ کی ساری تحاریر میں سے متعلقہ اقتباسات جمع کرنا شروع کرتا تو بہت سارے جمع ہو جاتے۔ کوشش کی ہے کہ معاملہ کم پر ہی رہے!!!