نثری نعت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

نور وجدان

لائبریرین
شہِ دو جَہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہی ہے ۔ ان کے ملیح چہرے کو ہوا نے جب تکا تو صبا کہلائی جانے لگی ۔ صبا نے جب چھُوا تو خوشبوئے گُلاب بن گئی ۔ گُلاب تو خالی کاغذ تھا اور جب کاغذ کو خوشبو نے چھوا، وہ لطافت کا حامل ہوتا گیا اور جب چھونے والے نے چھُوا، اس کا لگا گلاب ہی اصل شے ہے اور وہ مرکز تک پہنچ نہ پایا ۔ دکھ کی بات ہے سامنے والا دکھ جاتا ہے اور اندر دفینہ ء دل کیا، یہ دیکھا نَہیں جاتا ۔ ان کی مہک کی جاودانی ہے کہ دل میں ان کی کہانی ہے، یہ دل بڑا داستانی ہے اور کہنے والے نے کہاں سنانی ہے کہ بات بھی پُرانی ہے ۔ یہ پرانی بات نئی ہوکے چل کے کسی کسی بشر کے پاس آجاتی، کسی نے کہا ان کو دیکھا اور پھر ان کو دیکھنے والے نے جہاں کو دیکھا ۔ جدھر جدھر دیکھا وہی نظارہ مکمل ہوا ۔ کسی نے کہا اللہ مگر جس نے سنا تو اس نے کہا یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پائے مبارک کو مٹی نے ادب سے چھوا تو وہ صحرا سے گلستان بن گئی ۔ شاہ کے جلوے سے مٹی کو زینت دے دی گئی اور مٹی نے فخر سے نقش نقش دل میں اتار کے کہا "یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔ آپ سا کہاں؟ کہاں آپ سا؟ کہاں آپ سا؟
 

سیما علی

لائبریرین
سبحان اللّہ سبحان اللّہ

الَّلھُمَّ صَلي علي مُحَمَّدٍ وَعَلي آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ صَلَّيتَ عَلي اِبْرَاھِيمَ وَعَلي آلِ اِبْرَاھِيمَ اِنَّکَ حَمِيدُ مَجِيد, اَلَّلھُمَّ بَارِک عَلي مُحَمَّدٍ وَّ عَلي آل ِمُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکتَ عَلي اِبرَا ھِيمَ وَعَلي آلِ اِبرَاھِيمَ اِنّکَ حَمِيدُ مَّجِيد
درود اُن :pbuh: پر جن پہ ہمارا سب کچھ قربان ہو

عالم ہے فقط مؤمنِ جانباز کی میراث!!!
مؤمن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے
علامہ اقبال رح

یہ کائنات تو محض ایسے مومن کی میراث ہے جو اپنی جان پر کھیل جانے کا حوصلہ رکھتا ہے اور مومن کی تعریف یہ ہے کہ جو حضورؐ پیغمبرِ اسلام کے اسوہ حسنہ سے قلب و روح کو منور کرے اور اس طرح وہ مقام لولاک کا فیضان حاصل کرلے۔ وضاحت کےلیے یہاں حدیث قدسی کا ذکر ناگزیر ہے جس کے مطابق ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اے محمد ؐ اگر تو نہ ہوتا تو میں یہ آسمان ہی پیدا نہ کرتا۔
اس شعر میں جو پسِ منظر ہے وہ عملاً مؤمن کی تعریف اور اس کے مقام سے مطابقت رکھتا ہے۔ مراد یہ کہ مومن نہ صرف یہ کہ جانباز و حوصلہ مند ہوتا ہے بلکہ رسول مقبول ؐ کی تعلیمات سے اس کا سینہ بھی روشن ہوتا ہے۔
نور بٹیا آپ واقعی مومنہ ہیں۔سلامت رہیں وہ ہاتھ جو آپ :pbuh: کی شان میں قصیدے لکھتے ہیں ۔اللّہ اپنی حفظ و امان میں رکھے آپکو آمین۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
آپ نے جس طریق سے مومن ہونے کا نقشہ کھینچا ہے مجھے دکھ ہے کہ میں ان خطوط پر عبور نہیں رکھتی اور نہ پورا اترتی ہوں، مابدولت اسکو حسن ظن قرار دیتے آپ کو عاجزانہ سلام پیش کیے دیتی ہوں کہ خدا کا احسان یہی ہے کہ اس نے نعت کہنے کا سلیقہ و طریقہ دیا وگرنہ یہ قلق ہے کہ کچھ کہنا، لکھنا آتا نہیں ہے. خدا مجھے نعت کہنے کا قرینہ دے آمین اور آپ کے حسن ظن کو کار خیر میں شامل کرتے حسنات بلند کرے، آمین
 

سیما علی

لائبریرین
آپ نے جس طریق سے مومن ہونے کا نقشہ کھینچا ہے مجھے دکھ ہے کہ میں ان خطوط پر عبور نہیں رکھتی اور نہ پورا اترتی ہوں، مابدولت اسکو حسن ظن قرار دیتے آپ کو عاجزانہ سلام پیش کیے دیتی ہوں کہ خدا کا احسان یہی ہے کہ اس نے نعت کہنے کا سلیقہ و طریقہ دیا وگرنہ یہ قلق ہے کہ کچھ کہنا، لکھنا آتا نہیں ہے. خدا مجھے نعت کہنے کا قرینہ دے آمین اور آپ کے حسن ظن کو کار خیر میں شامل کرتے حسنات بلند کرے، آمین
آمین الہی آمین
میرے پروردگار کو عاجزی بے حد پسند ہے وہ سلیقہ آپ میں خوب ہے اللّہ سلامت رکھے :in-love::in-love::in-love::in-love::in-love:
 

فہد مقصود

محفلین
شہِ دو جَہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم

املا درست فرما لیجئے، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کسی نے کہا اللہ مگر جس نے سنا تو اس نے کہا یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔۔۔۔

اس جملے کی وضاحت مطلوب ہے!!! آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں؟؟؟ خدائے رب العزت کا نام لینا درِ حقیقت نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سنائی دیتا ہے؟؟؟
 

فہد مقصود

محفلین
قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ترجمہ: آپ کہہ دیں: میں اپنے لیے کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں، ما سوائے اس کے جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں بہت سے مفادات جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو صرف ایمان لانے والی قوم کو ڈرانے اور خوش خبری دینے والا ہوں۔ [الأعراف:188]


قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں ۔[الأنعام:50]


يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
ترجمہ: اے ایمان والو! تم سب اللہ تعالی کے محتاج ہو، اور اللہ تعالی ہی غنی اور تعریف کے لائق ہے۔[فاطر:15]


إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَ۔ٰكِنَّ اللَّ۔هَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ} (القصص: ۵۶)
"اے نبی جسے آپ چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے۔ یہ اللہ ہی ہے کہ جو جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔"

وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ} (یوسف:۱۰۳)
"اور آپ خواہ کتنا ہی چاہیں ان میں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔"

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ
ترجمہ: بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے اور (کون ہے جو) تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ [النمل:62]"


وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّ۔هِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ
’’ اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو جو نہ تجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر تو نے یہ کام کیا تو ظالموں میں شمار ہو گا۔ “ [ 10-يونس:106]

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّ۔هُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ
’’ اگر اللہ تعالیٰ تجھ کو کسی مصیبت میں مبتلا کر دے تو اس مصیبت کو دور کر نے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ “ [ 10-يونس:108]

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ
’’ مجبور و بے بس شخص کی دعا کو قبول کرنے والا اور مشکل کو حل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے ؟ [27-النمل:62]

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴿٦٠﴾) (المومن: 60)
"اور تمہارے رب نے فرمایا: "مجھے پکارو! میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا، بلاشبہ جو لوگ میری عبادت (یعنی مجھے پکارنے اور مجھ سے دعائیں کرنے) سے انکار کرتے ہیں، عنقریب وہ جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوں گے۔"


(الدعا هو العبادة) (جامع الترمذي' الدعوات' باب منه "الدعاء مخ العبادة" ح: 3372)
"پکارنا (دعا کرنا) عبادت ہی ہے۔"

(الدعا مخ العبادة) (جامع الترمذي' الدعوات' باب منه "الدعاء مخ العبادة" ح: 3371)
"دُعا (پکارنا) عبادت کا مغز ہے۔"

واعلم ان الامة لو اجتمعت على ان ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك
’’ جان لو ! اگر ساری امت تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو نفع نہیں پہنچا سکتی مگر وہ جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔ “ [ترمذي، كتاب صفةالقيامة : باب منه 2016]

صحیح مسلم : (2577) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ: (میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں ، اس لیے مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں ، اس لیے مجھ سے رزق مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو!تم سب کے سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں پہننے کیلیے دوں ، اس لیے مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس دوں گا۔ میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو، اور میں سب گناہ معاف کرتا ہوں، اس لیے مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔)

اذا سالت فاسال الله واذا استعنت فاستعن بالله) (جامع الترمذي' صفة القيامة' باب حديث حنظلة' ح: 5216 )
"جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ۔"

طبرانی نے اپنی کتاب معجم میں روایت کی ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک منافق مومنوں کو تکلیف دیا کرتا تھا، تو صحابہ کرام نے کہا: کہ چلو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس منافق کے مقابلے میں مدد مانگتے ہیں، تو صحابہ کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے غوث نہیں بنایا جا سکتا، غوث تو صرف اللہ ہے)"

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: (( ما شاء اللّٰہ و شئت)) جو اللہ اور آپ چاہیں (وہی ہوتا ہے)۔ آپ نے فرمایا: "تو نے مجھے اللہ کے برابر کر دیا۔ بلکہ کہو جو اللہ اکیلا چاہے۔ (وہی ہوتا ہے)" (مسند احمد ۱۸۳۹،۱؍۲۱۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ} (المائدہ:۷۷)
"کہہ دیجئے اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو۔"


لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاری نے ابن مریم i کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔
البخاري أحاديث الأنبياء (3261).

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ (صحيح بخاري: 3445)


امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"تم لوگ میری مداح سرائی اور تعریف میں حد سے تجاوز نہ کرو جیسے عیسائیوں نے عیسی ابن مریم علیہما السلام کی تعریف میں مبالغہ سے کام لیا (اور انہیں اللہ کے برابر لاکھڑا کر دیا) بلاشبہ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں اس لئے مجھے اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو۔"
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
اے محمد ؐ اگر تو نہ ہوتا تو میں یہ آسمان ہی پیدا نہ کرتا۔

یہ موضوع حدیث ہے۔ علم حدیث میں موضوع سے مراد وہ حدیث ہے جس کے بارے میں یقین کے ساتھ معلوم ہو جائے کہ وہ وضع کی ہوئی، جھوٹی اور بناوٹی ہے۔

لولاک لما خلقت الافلاک"کو مولانا تھانویؒ نے "امداد الفتاوی" میں اور مولانا شاہ عبدالعزیزدہلوی نے "فتاویٰ عزیزی "میں موضوع لکھا ہے ،علامہ شوکانی ؒنے "الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ" میں موضوع بتایا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، رقم 282)

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (سورۃ الذاریات، 56)
اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔

اسی طرح کی مزید موضوع احادیث کے بارے میں جاننے کے لئے یہاں تفصیل سے پڑھا جا سکتا ہے۔

کیا تمام کائنات نبی کریم ﷺ کے لیے معرض الوجود میں آئی ہے؟آپ ﷺ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا!

Questions | Al-Mawrid
 

نور وجدان

لائبریرین
املا درست فرما لیجئے، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم



اس جملے کی وضاحت مطلوب ہے!!! آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں؟؟؟ خدائے رب العزت کا نام لینا درِ حقیقت نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سنائی دیتا ہے؟؟؟

آپ نے اس لڑی کے حوالہ جات دوبارہ دوسری لڑی میں پوسٹ کردیے ہیں، کوشش کیا کیجیے اک جگہ کی بات اسی جگہ پر ہو، ہر لڑی میں نہ ہو

اس جملے میں آپ کو جیسا قابل اعتراض لگا، ویسا کچھ نَہیں ہے ....، اللہ نے کہا قران پاک میں، ورفعنا لک ذکرک .... اللہ ہی ہے جس نے ذکر کو بلند کرنا ہے اور اس ذکر کو بلند کرنے والے انسان ہیں. سورہ الاحزاب میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں .... درود اس زبان پر جاری ہوتا ہے، جس کا دل شفاف ہو ... ہمیں درود پڑھنے کی استطاعت نصیب ہوتی ہے اور یہ نصیب تب ہوتی ہے جب ہم اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں، سجدہ کرتے ہیں ... جب مکمل اس کے آگے اپنی ذات کی نفی ہوجاتی ہے تو پھر ہم اسکا ذکر اللہ اللہ کرتے ہیں، یہ ذکر زبان سے نہیں ہوتا، نیت سے بھی ہوتا، اعمال سے بھی ہوتا ہے، خدمت سے بھی ہوتا ہے، ہر وقت دھیان سے ہوتا ہے .. اس ذکر سے بڑی نعمت نہیں کوئی ہوتی. جب ہمارا دھیان مستقل ہوجاتا ہے اور دل پاک صاف تو ہم درود پڑھتے ہیں. یہ درود پڑھنا بھی زبان سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اسوہ ء حسنہ پر عمل ہے. صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. اب کسی نے کہا " اللہ " ... اس نے سنا "محمد " صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم . یہ اک مستقل عمل تھا، سننے کا عمل اک توفیق کی صورت ہے جتنا اللہ کا ذکر نصیب ہوگا، اتنا ہی عمل ہمیں اسوہ ء حسنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب لیجائے گا اور یہ سننے والی صدا "دل " سے ابھرتی ہے جب دل پاک صاف، مصفی ہو تو ... یہاں اللہ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مراتب کی بات نہیں ہے نہ کبھی ہوگی بلکہ عمل کی توفیق کی بات ہے.

آپ نے بارہا اک بات کا ذکر کیا ہے، مجھے پہلے ہی آپکو واضح کر دینا چاہیے تھا. اور اگر آپ کو اس سے اختلاف بھی ہو تو آپ لوگوں کی بھلائی کے لیے ان کی اصلاح کے لیے کچھ بھی لکھنا چاہو، آپ لکھو، آپ کی بات کا مکمل احترام کیا جائے گا، مجھے آپ کی نیت و خلوص پر یقین ہے کہ قارئین نہیں بھٹکیں گے:)



.
 

فہد مقصود

محفلین
آپ نے اس لڑی کے حوالہ جات دوبارہ دوسری لڑی میں پوسٹ کردیے ہیں، کوشش کیا کیجیے اک جگہ کی بات اسی جگہ پر ہو، ہر لڑی میں نہ ہو

اس جملے میں آپ کو جیسا قابل اعتراض لگا، ویسا کچھ نَہیں ہے ....، اللہ نے کہا قران پاک میں، ورفعنا لک ذکرک .... اللہ ہی ہے جس نے ذکر کو بلند کرنا ہے اور اس ذکر کو بلند کرنے والے انسان ہیں. سورہ الاحزاب میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں .... درود اس زبان پر جاری ہوتا ہے، جس کا دل شفاف ہو ... ہمیں درود پڑھنے کی استطاعت نصیب ہوتی ہے اور یہ نصیب تب ہوتی ہے جب ہم اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں، سجدہ کرتے ہیں ... جب مکمل اس کے آگے اپنی ذات کی نفی ہوجاتی ہے تو پھر ہم اسکا ذکر اللہ اللہ کرتے ہیں، یہ ذکر زبان سے نہیں ہوتا، نیت سے بھی ہوتا، اعمال سے بھی ہوتا ہے، خدمت سے بھی ہوتا ہے، ہر وقت دھیان سے ہوتا ہے .. اس ذکر سے بڑی نعمت نہیں کوئی ہوتی. جب ہمارا دھیان مستقل ہوجاتا ہے اور دل پاک صاف تو ہم درود پڑھتے ہیں. یہ درود پڑھنا بھی زبان سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اسوہ ء حسنہ پر عمل ہے. صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. اب کسی نے کہا " اللہ " ... اس نے سنا "محمد " صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم . یہ اک مستقل عمل تھا، سننے کا عمل اک توفیق کی صورت ہے جتنا اللہ کا ذکر نصیب ہوگا، اتنا ہی عمل ہمیں اسوہ ء حسنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب لیجائے گا اور یہ سننے والی صدا "دل " سے ابھرتی ہے جب دل پاک صاف، مصفی ہو تو ... یہاں اللہ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مراتب کی بات نہیں ہے نہ کبھی ہوگی بلکہ عمل کی توفیق کی بات ہے.

آپ نے بارہا اک بات کا ذکر کیا ہے، مجھے پہلے ہی آپکو واضح کر دینا چاہیے تھا. اور اگر آپ کو اس سے اختلاف بھی ہو تو آپ لوگوں کی بھلائی کے لیے ان کی اصلاح کے لیے کچھ بھی لکھنا چاہو، آپ لکھو، آپ کی بات کا مکمل احترام کیا جائے گا، مجھے آپ کی نیت و خلوص پر یقین ہے کہ قارئین نہیں بھٹکیں گے:)

.

معذرت کے ساتھ آپ سے اختلاف کی جسارت کروں گا۔ مذہب کی بنیاد قرآن اور حدیث ہے فلسفہ نہیں! کس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب دل صاف شفاف ہوگا تو انسان درود پڑھ سکے گا؟

نماز بنیادی ارکان اور عبادات میں سے ہے۔ مثال کے طور پر کوئی اللہ کا ذکر کرنے کا خاص اہتمام نہیں کرتا ہے لیکن نماز پڑھ لیتا ہے۔ نماز میں درود پڑھنا لازمی ہے۔ یہ بات کہاں سے ثابت ہوتی ہے کہ پہلے دل صاف شفاف کرو تو درود پڑھ سکو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منافق تھے۔ جن کا نفاق پوشیدہ تھا وہ باجماعت نماز پڑھتے تھے۔

ابوالاحوصؓ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایاکہ ''ہم نے دیکھا کہ نماز باجماعت سے صرف وہی منافق پیچھے رہ جاتے تھے جن کا نفاق معلوم اور کھلا ہوتا تھا (یعنی جن لوگوں کا نفاق پوشیدہ تھا، وہ بھی جماعت سے نماز پڑھتے تھے) یا بیمار رہ جاتے تھے۔ اور ان میں سے بھی جوچلنے کی طاقت رکھتا، وہ دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر آتا اور نماز میں ملتا تھا۔'' ا س کے بعد ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ ''بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے ہیں اور ہدایت کے ان طریقوں میں سے ایک طریقہ اس مسجد میں(جماعت سے) نماز پڑھنا ہے جس میں اذان دی جاتی ہو۔''

(صحیح مسلم، کتاب المساجد: باب فضل صلاة الجماعة)

اب ان کے دلوں کے حال سے تو صرف اللہ رب العزت ہی واقف تھا۔

اس کے علاوہ بہت سارے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ اگر درود پڑھنا بھول جاتے ہیں یا نہیں پڑھتے ہیں تو ان کے دل کتنے صاف شفاف ہیں یہ تو خدائے رب العزت ہی جانتا ہے۔ ہم فیصلہ کرنے والے کوئی نہیں ہوتے ہیں۔

اِنَّ اللّ۔ٰهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ اِنَّهٝ عَلِيْ۔مٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (38 )

بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کے غیب جانتا ہے، بے شک وہ سینوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ سورۃ فاطر

یہ بات کہنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر کسی سے بھول ہوئی اور درود نہیں پڑھا یا کثرت سے درود پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گیا کہ اس کا دل صاف شفاف نہیں ہے۔

جہاں تک دوسری لڑی میں اسی مراسلے کو دوبارہ نقل کرنے کا تعلق ہے تو وہ اس لئے کیا گیا ہے کہ آپ کی بہت ساری تحاریر کے موضوع کے اعتبار سے یہ مراسلہ مطابقت رکھتا ہے۔ میں نے عمومی طور پر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر آپ کی ساری تحاریر میں سے متعلقہ اقتباسات جمع کرنا شروع کرتا تو بہت سارے جمع ہو جاتے۔ کوشش کی ہے کہ معاملہ کم پر ہی رہے!!!
 

نور وجدان

لائبریرین
معذرت کے ساتھ آپ سے اختلاف کی جسارت کروں گا۔ مذہب کی بنیاد قرآن اور حدیث ہے فلسفہ نہیں! کس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب دل صاف شفاف ہوگا تو انسان درود پڑھ سکے گا؟

نماز بنیادی ارکان اور عبادات میں سے ہے۔ مثال کے طور پر کوئی اللہ کا ذکر کرنے کا خاص اہتمام نہیں کرتا ہے لیکن نماز پڑھ لیتا ہے۔ نماز میں درود پڑھنا لازمی ہے۔ یہ بات کہاں سے ثابت ہوتی ہے کہ پہلے دل صاف شفاف کرو تو درود پڑھ سکو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منافق تھے۔ جن کا نفاق پوشیدہ تھا وہ باجماعت نماز پڑھتے تھے۔

ابوالاحوصؓ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایاکہ ''ہم نے دیکھا کہ نماز باجماعت سے صرف وہی منافق پیچھے رہ جاتے تھے جن کا نفاق معلوم اور کھلا ہوتا تھا (یعنی جن لوگوں کا نفاق پوشیدہ تھا، وہ بھی جماعت سے نماز پڑھتے تھے) یا بیمار رہ جاتے تھے۔ اور ان میں سے بھی جوچلنے کی طاقت رکھتا، وہ دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر آتا اور نماز میں ملتا تھا۔'' ا س کے بعد ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ ''بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے ہیں اور ہدایت کے ان طریقوں میں سے ایک طریقہ اس مسجد میں(جماعت سے) نماز پڑھنا ہے جس میں اذان دی جاتی ہو۔''

(صحیح مسلم، کتاب المساجد: باب فضل صلاة الجماعة)

اب ان کے دلوں کے حال سے تو صرف اللہ رب العزت ہی واقف تھا۔

اس کے علاوہ بہت سارے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ اگر درود پڑھنا بھول جاتے ہیں یا نہیں پڑھتے ہیں تو ان کے دل کتنے صاف شفاف ہیں یہ تو خدائے رب العزت ہی جانتا ہے۔ ہم فیصلہ کرنے والے کوئی نہیں ہوتے ہیں۔

اِنَّ اللّ۔ٰهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ اِنَّهٝ عَلِيْ۔مٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (38 )

بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کے غیب جانتا ہے، بے شک وہ سینوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ سورۃ فاطر

یہ بات کہنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر کسی سے بھول ہوئی اور درود نہیں پڑھا یا کثرت سے درود پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گیا کہ اس کا دل صاف شفاف نہیں ہے۔

جہاں تک دوسری لڑی میں اسی مراسلے کو دوبارہ نقل کرنے کا تعلق ہے تو وہ اس لئے کیا گیا ہے کہ آپ کی بہت ساری تحاریر کے موضوع کے اعتبار سے یہ مراسلہ مطابقت رکھتا ہے۔ میں نے عمومی طور پر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر آپ کی ساری تحاریر میں سے متعلقہ اقتباسات جمع کرنا شروع کرتا تو بہت سارے جمع ہو جاتے۔ کوشش کی ہے کہ معاملہ کم پر ہی رہے!!!
مذہب کی تبلیغ آپ کر رہے، یہ تو نثری نعت ہے! نعت میرے جذبات ہیں. آپ کو اس نعت میں کچھ اچھا بھی لگا ہے؟ آپ کے پاس بہت علم ہے اور میں کم علم ہوں. میرے پاس احساسات و جذبات ہیں. آپ علم اسے دیجیے گا جو لینا چاہے گا.آپ کا بہت شکریہ
 

فہد مقصود

محفلین
مذہب کی تبلیغ آپ کر رہے، یہ تو نثری نعت ہے! نعت میرے جذبات ہیں. آپ کو اس نعت میں کچھ اچھا بھی لگا ہے؟ آپ کے پاس بہت علم ہے اور میں کم علم ہوں. میرے پاس احساسات و جذبات ہیں. آپ علم اسے دیجیے گا جو لینا چاہے گا.آپ کا بہت شکریہ

جی جذبات کے اظہار کے لئے ہی حدیث نقل کی ہے کہ غلو نہ کرنا۔ آپ نہیں سمجھنا چاہتی ہیں تو نہ سمجھیں لیکن یہ تو ممکن نہیں ہے کہ آپ مذہب کے بارے میں بات کریں چاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جذبات کے اظہار کی صورت میں ہی کیوں نہ کریں اور کوئی جواب نہ دے۔ کیا آپ یہ چاہتی ہیں کہ ہر کوئی آپ کی صرف تعریف ہی کرتا رہے اور آپ اس پر خوش ہوتی رہیں؟ اختلاف برداشت کرنے کی ہمت پیدا کیجئے۔ تحمل سے کام لیں۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہی بات کی گئی ہے اگر آپ پر کوئی الزامات لگائے گئے ہوتے تو آپ کا جذباتی ہونا سمجھ میں آتا۔ اس پر اتنا غصہ کرنے والی کیا بات ہے؟

اور جی ہاں، میں تو قرآن اور حدیث کے علم کی ترویج کر ہی رہا ہوں۔ قرآن اور حدیث کی بات کرنے میں برائی کیا ہے؟ اگر آپ کو قرآن اور حدیث مخالف میری کوئی بات لگے تو ضرور نشاندہی کریں۔ میں خوشی سے سنوں گا۔
 
آخری تدوین:
Top