نثر پارے

نوید ناظم

محفلین
اپنے مقصد سے بے خبر آدمی ہر بات پر تنقید کر سکتا ہے، اُس کے لیے ہر موضوع ایک ' ڈسکشن' ہے. مگر وہ انسان جس کے پاس جینے کا جواز ہو، جس کے پاس کوئی مقصد ہو، وہ یہ سب نہیں کر سکتا...وقت محدود ہے. آن گراونڈ کھیلتا کھلاڑی۔۔۔۔۔۔ تماشائیوں سے الجھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان اپنے رویے سے خود اپنے دشمن پیدا کرتا ہے، ورنہ ہر آدمی میں یہ خوبی ہے کہ وہ دوسرے کا دوست بن سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان انا کے بت پر سوار ہے، اس لیے اسے دوسروں کا قد چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔ جب یہ بت ٹوٹتا ہے تو سب کندھے سا کندھا ملائے نظر آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

علم کا ایک نام اختلاف کو برداشت کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر انسان کو حق ہے کہ وہ سچ کی تلاش اُس طرح سے کر سکے جس طرح وہ چاہتا ہے۔۔۔۔ نہ کہ صرف اُس طرح کہ جیسے میں چاہتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نوید ناظم
 
آپ ابہام کی نشاندہی کیجئے تب اس کی کچھ وضاحت ہو سکے گی۔۔۔ در اصل یہاں اس جملے کی وضاحت کا مطلب اُس کنفیوژن کو ایڈریس کرنا ہو گا جو آپ میں در آئی۔۔۔۔ پہلے ذرا اُس کی وضاحت کر دیجئے۔:)
میں پوچھنا چاہ رہی تھی کس نوعیت کے اختلاف کی بات ہو رہی ؟اس پورے جملے کی ہی وضاحت کر دیں
 

نوید ناظم

محفلین
میں پوچھنا چاہ رہی تھی کس نوعیت کے اختلاف کی بات ہو رہی ؟اس پورے جملے کی ہی وضاحت کر دیں
ایک بات تو یہ کہ دنیا میں اتنے علوم ہیں کہ ایک انسان سارے علوم حاصل نہیں کر سکتا' انسان نے دیکھنا ہے کہ اسے کون سا علم چاہیے' ظاہر ہے کہ اسے وہی علم چاہیے جو اس کی زندگی آسان کرے' چونکہ ہم اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی کے قائل ہیں لہٰذا ہمیں وہ علم بھی چاہیے جو ہماری آنے والی زندگی کو بھی آسان کرے۔ مسئلہ اس وقت شروع ہو جاتا ہے جب ایک طرح کا علم دوسری طرح کے علم کے مقابل آ جائے۔ مطلب ایک نے ایک کتاب پڑھی ہے تو دوسرے نے دوسری کتاب پڑھ رکھی ہے۔ ہر بات کی ایک سے بڑھ کر ایک دلیل اور ہر حکم کی ایک سے بڑھ کر ایک تاویل مل جائے گی' یہاں جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہمی سمجھتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ ہماری بات کے علاوہ بھی کوئی بات ہو سکتی ہے اور یہی تسلیم کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ یہاں پر بتانے والے یہ بتاتے ہیں کہ علم کا مطلب یہ ہے کہ انسان الجھاؤ سے نکل آئے نہ کہ الجھاؤ کا شکار ہو جائے۔ بغیر علم کے بحث نہیں ہو سکتی حالانکہ بحث بذاتِ خود جہالت ہی کی صورت ہے۔ بات کا مقصد یہ ہے کہ جس انسان کی بات قبول نہیں اس سے جھگڑا کیسا اور جس کی بات قبول ہے اس سے کیسا جھگڑا۔ اپنے علم سے اپنی زندگی آسان بنانی چاہیے نہ کہ دوسروں کی زندگی مشکل بنانا شروع کر دیا جائے۔ ہر انسان کے لیے اُس کا نقطہءِ ںظر اہم ہوتا ہے لہٰذا اُس کا احترام ضروری ہے' ہاں اس سے اختلاف رکھنا ہمارا حق ہے جیسے کہ کسی بھی انسان کو حق ہے کہ وہ ہمارے نقطہءِ نظر سے اختلاف رکھے۔ ہم اپنی بات منوانے میں اتنی شدت اختیار کرتے ہیں کہ دوسرے کی عزتِ نفس کو روند کر آگے نکل جاتے ہیں۔ مگر یہ علم تو نہ ہوا جو دوسرے کا احترام ہی نہ سکھا سکا' جو یہ نہ سکھا سکا کہ اپنے مخالف سے ِٹریٹ کیسے کرنا ہے اور اُسے ڈیل کیسے کرنا ہے۔ یہ تو جانوروں کا طریقہ ہے کہ جہاں اپنے مخالف کو دیکھا وہاں جھپٹ پڑے۔۔۔ انسان اس لیے انسان ہے کہ اس کے پاس علم ہے' یہ اپنے دشمن کو بھی دوست بنا سکتا ہے اگر بنانا چاہے' یہ معاف بھی کر سکتا ہے' اگر کرنا چاہے۔ اس کو برداشت جیسی صلاحیت سے نوازا گیا۔ بس دعا ہونی چاہیے کہ اللہ پاک ہم کو وہ علم دے کہ جس سے ہمیں نفع ہو' ہم پر ہمارا خالق راضی رہے اور ہم لوگوں سے محض اس لیے نفرت نہ کریں کہ لوگ ہم کو یا ہماری بات کو تسلیم نہیں کرتے۔
 
ایک بات تو یہ کہ دنیا میں اتنے علوم ہیں کہ ایک انسان سارے علوم حاصل نہیں کر سکتا' انسان نے دیکھنا ہے کہ اسے کون سا علم چاہیے' ظاہر ہے کہ اسے وہی علم چاہیے جو اس کی زندگی آسان کرے' چونکہ ہم اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی کے قائل ہیں لہٰذا ہمیں وہ علم بھی چاہیے جو ہماری آنے والی زندگی کو بھی آسان کرے۔ مسئلہ اس وقت شروع ہو جاتا ہے جب ایک طرح کا علم دوسری طرح کے علم کے مقابل آ جائے۔ مطلب ایک نے ایک کتاب پڑھی ہے تو دوسرے نے دوسری کتاب پڑھ رکھی ہے۔ ہر بات کی ایک سے بڑھ کر ایک دلیل اور ہر حکم کی ایک سے بڑھ کر ایک تاویل مل جائے گی' یہاں جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہمی سمجھتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ ہماری بات کے علاوہ بھی کوئی بات ہو سکتی ہے اور یہی تسلیم کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ یہاں پر بتانے والے یہ بتاتے ہیں کہ علم کا مطلب یہ ہے کہ انسان الجھاؤ سے نکل آئے نہ کہ الجھاؤ کا شکار ہو جائے۔ بغیر علم کے بحث نہیں ہو سکتی حالانکہ بحث بذاتِ خود جہالت ہی کی صورت ہے۔ بات کا مقصد یہ ہے کہ جس انسان کی بات قبول نہیں اس سے جھگڑا کیسا اور جس کی بات قبول ہے اس سے کیسا جھگڑا۔ اپنے علم سے اپنی زندگی آسان بنانی چاہیے نہ کہ دوسروں کی زندگی مشکل بنانا شروع کر دیا جائے۔ ہر انسان کے لیے اُس کا نقطہءِ ںظر اہم ہوتا ہے لہٰذا اُس کا احترام ضروری ہے' ہاں اس سے اختلاف رکھنا ہمارا حق ہے جیسے کہ کسی بھی انسان کو حق ہے کہ وہ ہمارے نقطہءِ نظر سے اختلاف رکھے۔ ہم اپنی بات منوانے میں اتنی شدت اختیار کرتے ہیں کہ دوسرے کی عزتِ نفس کو روند کر آگے نکل جاتے ہیں۔ مگر یہ علم تو نہ ہوا جو دوسرے کا احترام ہی نہ سکھا سکا' جو یہ نہ سکھا سکا کہ اپنے مخالف سے ِٹریٹ کیسے کرنا ہے اور اُسے ڈیل کیسے کرنا ہے۔ یہ تو جانوروں کا طریقہ ہے کہ جہاں اپنے مخالف کو دیکھا وہاں جھپٹ پڑے۔۔۔ انسان اس لیے انسان ہے کہ اس کے پاس علم ہے' یہ اپنے دشمن کو بھی دوست بنا سکتا ہے اگر بنانا چاہے' یہ معاف بھی کر سکتا ہے' اگر کرنا چاہے۔ اس کو برداشت جیسی صلاحیت سے نوازا گیا۔ بس دعا ہونی چاہیے کہ اللہ پاک ہم کو وہ علم دے کہ جس سے ہمیں نفع ہو' ہم پر ہمارا خالق راضی رہے اور ہم لوگوں سے محض اس لیے نفرت نہ کریں کہ لوگ ہم کو یا ہماری بات کو تسلیم نہیں کرتے۔
بہت شکریہ
 
Top