x boy
محفلین
کسی قوم سے تعلق رکھنا ایک فطری سی بات ہے مگر انتہا درجے کی قوم پرستی ہر قسم کے تعصب کی بنیاد ہے۔ انسان جب کسی قوم سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اس کے بارے میں ایک خاص قسم کے تعصب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ آج کے دور میں مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ جنت صرف انہی کے لئے ہے اور باقی سب قومیں جہنم میں جائیں گی۔ کچھ ایسا ہی تصور دیگر اقوام کا اپنے متعلق ہے۔
قرآن مجید کا نقطہ نظر اس سے بالکل مختلف ہے۔ اللہ تعالی کے نزدیک کسی ایک قوم کا فرد ہونے کا نجات سے کوئی تعلق نہیں۔ نجات کا معیار (Criteria) بالکل مختلف ہے۔ اللہ تعالی کے ہاں ہماری نجات اس بات پر نہیں ہو گی کہ ہم خود کو مسلمان، یہودی، عیسائی، صابی، ہندو، سکھ، یا بدھ کہتے ہیں۔ نجات اس بات پر ہو گی ہم خدا پر ایمان لائیں اور اس کے سامنے جواب دہی کو یاد رکھیں۔ دنیا میں نیک اعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی ایک خدا پرست انسان کے طور پر بسر کریں۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ (البقرۃ 2: 62)
یقین جانو کہ جو لوگ اب ایمان لائے (یعنی مسلمان) یا وہ جو یہودی، عیسائی یا صابی ہوئے، جو بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ اسے نہ تو (مستقبل کے) اندیشے لاحق ہوں گے اور نہ ہی (ماضی کے) پچھتاوے۔
بعض لوگوں نے اس آیت سے ایک غلط فلسفہ اخذ کیا ہے کہ چونکہ یہاں اللہ کے پیغمبروں پر ایمان لانے کا ذکر نہیں ہے اس لئے یہ کچھ ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے۔ اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا اور جانتے بوجھتے ان کا انکار نہ کرنا اللہ پر ایمان لانے اور نیک عمل کرنے کا ہی ایک حصہ ہے۔
جیسے کوئی شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے تو وہ سزا کا مستحق ہے اسی طرح جو شخص جانتے بوجھتے اللہ کے کسی ایک پیغمبر کا بھی انکار کر دے، وہ بھی اسی طرح ایک بڑے جرم کا مرتکب ہوتا ہے جس کی سزا اسے بھگتنا ہو گی۔
اللہ کے رسول جب بھی اس کے دین کی دعوت دیتے رہے، اس کے نتیجے میں جو لوگ ان پر ایمان لائے، وہ ہر طرح کے تعصب سے پاک ہو کر خالص ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر اپنی شخصیت کی تعمیر کرتے رہے۔ چند نسلوں کے بعد یہ لوگ قوم کی شکل اختیار کر جاتے۔ قرآن مجید ان گروہ بندیوں سے بالاتر ہو کر خالص ایمان اور عمل صالح ہی کو نجات کا معیار قرار دیتا ہے۔
نجات کیا ہے؟ اس دنیا کی زندگی میں انسان کو کتنی ہی نعمتیں میسر کیوں نہ ہوں، اس کا پیچھا دو چیزوں سے نہیں چھوٹ سکتا: ایک ماضی کے پچھتاوے اور دوسرا مستقبل کے اندیشے۔ اللہ تعالی یہ بیان کرتا ہے کہ آخرت کی زندگی میں نجات پانے کے بعد انسان کو ان دونوں سے نجات مل جائے گی۔ کتنا خوش نصیب ہے وہ شخص جسے یہ نعمت حاصل ہو گئی اور کتنا بدنصیب ہو گا وہ شخص جسے ابدی زندگی میں بھی ماضی کے پچھتاوے اور مستقبل کے اندیشے گھیرے رہیں گے!!!!
(مصنف: محترم محمد مبشر نذیر صاحب)
جو شخص زیادہ دولت اور لمبی عمر کا خواہش مند ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے رشتے داروں سے تعلقات اچھے رکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بخاری، کتاب الادب)
قرآن مجید کا نقطہ نظر اس سے بالکل مختلف ہے۔ اللہ تعالی کے نزدیک کسی ایک قوم کا فرد ہونے کا نجات سے کوئی تعلق نہیں۔ نجات کا معیار (Criteria) بالکل مختلف ہے۔ اللہ تعالی کے ہاں ہماری نجات اس بات پر نہیں ہو گی کہ ہم خود کو مسلمان، یہودی، عیسائی، صابی، ہندو، سکھ، یا بدھ کہتے ہیں۔ نجات اس بات پر ہو گی ہم خدا پر ایمان لائیں اور اس کے سامنے جواب دہی کو یاد رکھیں۔ دنیا میں نیک اعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی ایک خدا پرست انسان کے طور پر بسر کریں۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ (البقرۃ 2: 62)
یقین جانو کہ جو لوگ اب ایمان لائے (یعنی مسلمان) یا وہ جو یہودی، عیسائی یا صابی ہوئے، جو بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ اسے نہ تو (مستقبل کے) اندیشے لاحق ہوں گے اور نہ ہی (ماضی کے) پچھتاوے۔
بعض لوگوں نے اس آیت سے ایک غلط فلسفہ اخذ کیا ہے کہ چونکہ یہاں اللہ کے پیغمبروں پر ایمان لانے کا ذکر نہیں ہے اس لئے یہ کچھ ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے۔ اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا اور جانتے بوجھتے ان کا انکار نہ کرنا اللہ پر ایمان لانے اور نیک عمل کرنے کا ہی ایک حصہ ہے۔
جیسے کوئی شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے تو وہ سزا کا مستحق ہے اسی طرح جو شخص جانتے بوجھتے اللہ کے کسی ایک پیغمبر کا بھی انکار کر دے، وہ بھی اسی طرح ایک بڑے جرم کا مرتکب ہوتا ہے جس کی سزا اسے بھگتنا ہو گی۔
اللہ کے رسول جب بھی اس کے دین کی دعوت دیتے رہے، اس کے نتیجے میں جو لوگ ان پر ایمان لائے، وہ ہر طرح کے تعصب سے پاک ہو کر خالص ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر اپنی شخصیت کی تعمیر کرتے رہے۔ چند نسلوں کے بعد یہ لوگ قوم کی شکل اختیار کر جاتے۔ قرآن مجید ان گروہ بندیوں سے بالاتر ہو کر خالص ایمان اور عمل صالح ہی کو نجات کا معیار قرار دیتا ہے۔
نجات کیا ہے؟ اس دنیا کی زندگی میں انسان کو کتنی ہی نعمتیں میسر کیوں نہ ہوں، اس کا پیچھا دو چیزوں سے نہیں چھوٹ سکتا: ایک ماضی کے پچھتاوے اور دوسرا مستقبل کے اندیشے۔ اللہ تعالی یہ بیان کرتا ہے کہ آخرت کی زندگی میں نجات پانے کے بعد انسان کو ان دونوں سے نجات مل جائے گی۔ کتنا خوش نصیب ہے وہ شخص جسے یہ نعمت حاصل ہو گئی اور کتنا بدنصیب ہو گا وہ شخص جسے ابدی زندگی میں بھی ماضی کے پچھتاوے اور مستقبل کے اندیشے گھیرے رہیں گے!!!!
(مصنف: محترم محمد مبشر نذیر صاحب)
جو شخص زیادہ دولت اور لمبی عمر کا خواہش مند ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے رشتے داروں سے تعلقات اچھے رکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بخاری، کتاب الادب)