طارق شاہ
محفلین
غزل
نجمہ انصار نجمہ
اے دِل ! یہ تِری شورشِ جذبات کہاں تک
اے دِیدۂ نم اشکوں کی برسات کہاں تک
برہَم نہیں ہم، آپ کی بیگانہ روِی سے !
اپنوں سے مگر ترکِ مُلاقات کہاں تک
آخر کوئی مہتاب تو ہو اِس کا مُقدّر
بھٹکے گی سِتاروں کی یہ بارات کہاں تک
ہو جاتا ہے آنکھوں سے عیاں جُرمِ محبّت
پوشِیدہ رہے دِل کی ہر اِک بات کہاں تک
نِکلو جو کبھی ذات کے زِنداں سے تو دیکھو
آباد ہیں عِبرت کے مقامات کہاں تک
راسخ ہو اگر عزم، تو ہر شے ہے مسخر
اے اہلِ نظر، شِکوۂ حالات کہاں تک
سوُرج کو نِکلنا ہے، نِکل کر ہی رہے گا
پَھیلائے گی دام اپنا سیہ رات کہاں تک
کِس راہ میں ہے موسمِ گُل، ڈھونڈ کے لاﺅ
زخموں سے مِرے ہوگی مدارات کہاں تک
احساس سے، ہرشخص ہوعاری جہاں نجمہ
بانٹوں گی وہاں درد کی سوغات کہاں تک
نجمہ انصار نجمہ
نجمہ انصار نجمہ
اے دِل ! یہ تِری شورشِ جذبات کہاں تک
اے دِیدۂ نم اشکوں کی برسات کہاں تک
برہَم نہیں ہم، آپ کی بیگانہ روِی سے !
اپنوں سے مگر ترکِ مُلاقات کہاں تک
آخر کوئی مہتاب تو ہو اِس کا مُقدّر
بھٹکے گی سِتاروں کی یہ بارات کہاں تک
ہو جاتا ہے آنکھوں سے عیاں جُرمِ محبّت
پوشِیدہ رہے دِل کی ہر اِک بات کہاں تک
نِکلو جو کبھی ذات کے زِنداں سے تو دیکھو
آباد ہیں عِبرت کے مقامات کہاں تک
راسخ ہو اگر عزم، تو ہر شے ہے مسخر
اے اہلِ نظر، شِکوۂ حالات کہاں تک
سوُرج کو نِکلنا ہے، نِکل کر ہی رہے گا
پَھیلائے گی دام اپنا سیہ رات کہاں تک
کِس راہ میں ہے موسمِ گُل، ڈھونڈ کے لاﺅ
زخموں سے مِرے ہوگی مدارات کہاں تک
احساس سے، ہرشخص ہوعاری جہاں نجمہ
بانٹوں گی وہاں درد کی سوغات کہاں تک
نجمہ انصار نجمہ