سلمان حمید
محفلین
"آپ پاکستان سے ہو یا انڈیا سے؟" میں نے ریلوے اسٹیشن پر کھڑے اس نوعمر لڑکے کو پتلی سی جیکٹ پہنے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے پانچ منٹ تک دیکھا اور بالآخر پوچھ ہی لیا۔
وہ پاکستان سے تھا۔ ٹرین آنے میں پانچ منٹ مزید تھے اور ٹرین میں میرا اور اس کا ساتھ دس منٹ کا۔ پندرہ منٹ کی اس سنگت میں، اسے پانچ سے چھ منٹ لگے اپنے خوفزدہ لہجے کو نارمل کرنے اور مجھ سے مسکرا کر بات کرنے میں۔
اس نے نارمل ہوتے ہی مجھ سے پوچھا۔ "آپ کے کاغذ بن گئے؟" میرے لیے یہ سوال عجیب تھا۔
میں چودہ سال کا تھا جب چار ہزار یورو ایجنٹ کو دے کر "ڈنکی" لگا کرایک مہینے میں یونان پہنچا۔ اس نے بتانا شروع کیا۔
ڈنکی؟ میرے لیے یہ لفظ نیا تھا۔
پیدل۔ کئی ملکوں سے ہوتے ہوئے۔ اس کے لہجے میں جیسے صدیوں کی تھکن عود آئی تھی۔
یونان میں میرا بڑا بھائی ہوتا ہے، پچھلے آٹھ سال سے۔ اس کے ابھی تک کاغذ نہیں بنے۔ اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی پاکستان میں ہیں جو اب بالترتیب آٹھ اور دس سال کے ہیں۔ وہ مزید بتاتا گیا۔
کاغذ نہیں بنے مطلب وہ پاکستان بھی نہیں جا سکا آٹھ سالوں سے؟ میں نے کنفرم کرنا چاہا تھا اور جواب وہی تھا جس کی مجھے امید بھی تھی اور جو مجھے ہمیشہ اداس کر دیتا ہے۔
جب بھائی یہاں اس حال میں ہے تو اس نے تم کو نہیں منع کیا؟ تم اپنی جان خطرے میں ڈال کر کیوں آئے؟ میں حیران تھا۔
بہت روکا اس نے، لیکن میں نے کہا کہ یہاں جو آم پکے ہیں میں بھی آ کر توڑ لوں۔ کئی لڑکوں کا راستے میں ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے اور وہ مر جاتے ہیں۔ اس کی مسکراہٹ بہت اداس تھی۔
میں یونان میں تین سال رہا، وہاں سے بھائی نے ایجنٹ کو گیارہ سو یورو دیے اور میں اٹھائیس دن میں پیدل براستہ آسٹریا، جرمنی پہنچا۔ ٹرین میں پولیس نے پکڑا، میں نے اسائیلم کے لیے اپلائ کر دیا اور اب ایک سال سے یہاں ہوں۔ جرمنی والے تو اٹھارہ بیس سال کاغذ نہیں دیتے، آپ کے کیسے بن گئے؟ اس اٹھارہ سالہ لڑکے کا یہ سوال اتنا معصومانہ تھا کہ میں بس اتنا کہہ سکا۔
"ندیم ویرے، ہم جب چھوٹے ہوتے ہیں، ہم کو پڑھنے لکھنے کے فائدے نہیں پتہ ہوتے، کوشش کرنا کہ اپنی اولاد کو پڑھانا لکھانا تاکہ وہ عزت کی روٹی کما سکیں۔" میرا اسٹاپ آگیا تھا، میں اس کے کندھے پر تھپکی دے کر ٹرین سے اتر گیا اور تھکے تھکے قدموں سے دفتر کی جانب چلنے لگا تھا۔
نوٹ: ندیم سے میری ملاقات ابھی ایک گھنٹہ پہلے ہی ہوئی تھی۔
وہ پاکستان سے تھا۔ ٹرین آنے میں پانچ منٹ مزید تھے اور ٹرین میں میرا اور اس کا ساتھ دس منٹ کا۔ پندرہ منٹ کی اس سنگت میں، اسے پانچ سے چھ منٹ لگے اپنے خوفزدہ لہجے کو نارمل کرنے اور مجھ سے مسکرا کر بات کرنے میں۔
اس نے نارمل ہوتے ہی مجھ سے پوچھا۔ "آپ کے کاغذ بن گئے؟" میرے لیے یہ سوال عجیب تھا۔
میں چودہ سال کا تھا جب چار ہزار یورو ایجنٹ کو دے کر "ڈنکی" لگا کرایک مہینے میں یونان پہنچا۔ اس نے بتانا شروع کیا۔
ڈنکی؟ میرے لیے یہ لفظ نیا تھا۔
پیدل۔ کئی ملکوں سے ہوتے ہوئے۔ اس کے لہجے میں جیسے صدیوں کی تھکن عود آئی تھی۔
یونان میں میرا بڑا بھائی ہوتا ہے، پچھلے آٹھ سال سے۔ اس کے ابھی تک کاغذ نہیں بنے۔ اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی پاکستان میں ہیں جو اب بالترتیب آٹھ اور دس سال کے ہیں۔ وہ مزید بتاتا گیا۔
کاغذ نہیں بنے مطلب وہ پاکستان بھی نہیں جا سکا آٹھ سالوں سے؟ میں نے کنفرم کرنا چاہا تھا اور جواب وہی تھا جس کی مجھے امید بھی تھی اور جو مجھے ہمیشہ اداس کر دیتا ہے۔
جب بھائی یہاں اس حال میں ہے تو اس نے تم کو نہیں منع کیا؟ تم اپنی جان خطرے میں ڈال کر کیوں آئے؟ میں حیران تھا۔
بہت روکا اس نے، لیکن میں نے کہا کہ یہاں جو آم پکے ہیں میں بھی آ کر توڑ لوں۔ کئی لڑکوں کا راستے میں ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے اور وہ مر جاتے ہیں۔ اس کی مسکراہٹ بہت اداس تھی۔
میں یونان میں تین سال رہا، وہاں سے بھائی نے ایجنٹ کو گیارہ سو یورو دیے اور میں اٹھائیس دن میں پیدل براستہ آسٹریا، جرمنی پہنچا۔ ٹرین میں پولیس نے پکڑا، میں نے اسائیلم کے لیے اپلائ کر دیا اور اب ایک سال سے یہاں ہوں۔ جرمنی والے تو اٹھارہ بیس سال کاغذ نہیں دیتے، آپ کے کیسے بن گئے؟ اس اٹھارہ سالہ لڑکے کا یہ سوال اتنا معصومانہ تھا کہ میں بس اتنا کہہ سکا۔
"ندیم ویرے، ہم جب چھوٹے ہوتے ہیں، ہم کو پڑھنے لکھنے کے فائدے نہیں پتہ ہوتے، کوشش کرنا کہ اپنی اولاد کو پڑھانا لکھانا تاکہ وہ عزت کی روٹی کما سکیں۔" میرا اسٹاپ آگیا تھا، میں اس کے کندھے پر تھپکی دے کر ٹرین سے اتر گیا اور تھکے تھکے قدموں سے دفتر کی جانب چلنے لگا تھا۔
نوٹ: ندیم سے میری ملاقات ابھی ایک گھنٹہ پہلے ہی ہوئی تھی۔
آخری تدوین: