نذرِ امام حُسین رضی اللہ عنہ ۔ افق شفق میں ہے ظاہر وہی لہو اب تک

نذر حسین رضی اللہ عنہ
افق شفق میں ہے ظاہر وہی لہو اب تک
مہک رہی ہے جہاں میں وہ مشک بو اب تک

حسین نے جوکیا تھا وہ آخری سجدہ
فضا میں گونج رہی ہے صدائے ھُو اب تک

جو خوں بہا تھا گلوئے امام سے اس دن
شفق کے روپ میں چمکے ہے وہ لہو اب تک

زمین مشہد اقدس ہنوز گریہ کناں
ہے ذرہ ذرہ میں خون نبی کی بو اب تک

وہ ہات جس کو یزیدی اسیر کر نہ سکے
وہ ہات سبط نبی کا ہے باوضو اب تک

وَلاَتَقُوْلُوا لِمَنْ یُّقْتَلُ کی آیت سے
چلی حیات شہیداں کی گفتگو اب تک

گریباں چاک ہیں جن کے وہی تو قاتل ہیں
ہے کوفیوں کو حسینوں کی جستجو اب تک

حسینیو اٹھوکہہ دو ذرا زمانے سے
ہماری قوم میں باقی ہیں جنگجو اب تک

ہمیں نہ چھیڑوکہ ہم کربلا سے آتے ہیں
رگوں میں دوڑ رہا ہے وہی لہو اب تک

تمھیں ہے نظمی تعلق شہید اعظم سے
سنبھالے بیٹھے ہو دادا کی آبرو اب تک

ازسید آل رسول حسنین میاں نظمیؔ مارہروی رحمۃ اللہ علیہ​
 
Top