نرگَس کے پھول از محمد خلیل الرحمٰن

شاید میٹرک کے کورس میں ولیم ورڈزورتھ کی نظم دی ڈیفوڈلز پڑھی تو فورآ اس کا منظوم ترجمہ کرڈالا۔ آج محفلین کی خدمت میں وہی نظم پیشِ خدمت ہے۔ جو مزاجِ یار میں آئے

نرگس کے پھول​
محمد خلیل الرحمٰن​
میں پھرتا تھا جنگل کی تنہائیوں میں​
کبھی وادیوں میں کبھی کھائیوں میں​
اچانک مری آنکھ میں جگمگایا​
وہ نرگِس کے پھولوں کا رنگین سایا​
درختوں کے سائے میں دھومیں مچاتے​
کبھی ناچتے، موج میں آکے گاتے​
چمکدار تاروں کی مانند روشن​
قیامت تھا نرگِس کے پھولوں پہ جوبن​
وہ چشمے کے دامن پہ پھیلے ہوئے تھے​
وہ ہاتھوں پہ مالن کے پھیلے ہوئے تھے​
بہت مجھ کو مشکل ہوئی گل شماری​
مزے جن سے لیتی تھی بادِ بہاری​
ندی میں جو موجیں تھیں لہرارہی تھیں​
مزے وہ بھی پھولوں سے ہی پارہی تھیں​
مگر مال و دولت سے بڑھکر یہ دولت​
جو پھولوں نے شاعر کو کی تھی عنایت​
بہت میں نے سوچا مگر کچھ نہ پایا​
کہ اس لعل سے قیمتی شے ہے کیا کیا​
ذہن کے دھندلکوں میں وہ جھانکتے ہیں​
خوشی سے وہ تنہائی کو ڈھانپتے ہیں​
زمانے کے غم سے میں اکتا گیا ہوں​
مگر جب بھی پھولوں کو میں دیکھتا ہوں​
تو قلب و نظر میں سماتی ہے وسعت​
خیالات میں سر چھپاتی ہے رفعت​
خوشی کی پری کا میں منہ چومتا ہوں​
تو پھولوں کے ہمراہ میں جھومتا ہوں​
خلیل ؔ آج خوشیوں کا کیا ہے ٹھکانا​
گلستاں میں گاؤ خوشی کا ترانا​
ولیم ورڈزورتھ کی نظم دی ڈیفوڈلز کا آزاد منظوم ترجمہ​
نوٹ: اصل نظم یہاں پڑھیے
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ خلیل بھائی !

بہت ہی خوب ترجمہ کیا ہے آپ نے۔ واہ واہ۔

پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔ خاکسار کی جانب سے ڈھیروں داد قبول کیجے۔ :)
 
دوبارہ پڑھی سہ بار پڑھی
ہر بار نیا لطف پایا
آپ کے یاد دلانے پر مجھے بھی یاد آ گیا
میں نے بھی میٹرک میں یہ نظم پڑھی تھی شاید 1980 کے آس پاس :)
 
بہت عمدہ ترجمہ۔
بس ایک خیال تھا میرا جو کہنا چاہوں گا، میں نے جب اسکول کے دور میں پڑھی تھی تب بھی متفق نہیں تھا شاعر سے پاکستانی نرگس کے خیال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے۔
پاکستان میں پایا جانے والا نرگس کا پھول سفیدی مائل ہوتا ہے پر سفید نہیں ہوتا۔ اور پھر بیچ میں پیلی کٹوری، خوشبو ایسی کہ پتہ نہیں کیوں دل ہر بار ایک اداسی میں ڈوب جاتا ہے۔اور پاکستان میں تو یہ یخ کورے کے دنوں میں کھلتا ہے۔ اور ستم ظریفی یہ قبروں پہ بہت پایا جاتا ہے شاید اس لیئے کہ توجہ اور پانی نہ دینے کے باوجود یہ قبروں کو مہکائے رکھتا ہے۔ لوگ اسے قبروں کے بیچ لگا کر ایسے بھول جاتے ہیں جیسے دفن ہونے والے کو اور پھر اس پھول کی قسمت یاوری بارش یا شبِ بارات کو ہی ہوتی ہے۔ مجھے تو یہ پھول سر تاپا افسردہ افسردہ اور کھویا کھویا لگا ہمیشہ اور میں کبھی بھی خود کو اس کی اداسی سے نہیں بچا پایا۔
 

شوکت پرویز

محفلین
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب!
بہت اچّھا ترجمہ کیا ہے آپ نے پوری نظم کا، مجھ سے تو ایک جملہ صحیح سے ترجمہ نہیں ہو پاتا۔

ًمیری رہنمائی کیجئے کہ لفظ "ذہن" "ذ+ہن" ہے یا "ذہ+ن"۔ آپ کو تکلیف دینے کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
ذہن کے دھندلکوں میں وہ جھانکتے ہیں​
خوشی سے وہ تنہائی کو ڈھانپتے ہیں​
 
Top