نشترِ یاس - پنڈت برج نرائن چکبست

حسان خان

لائبریرین
مصنف کے ایک نوجوان عزیز نے، جس کا نام تیج نرائن چکبست تھا، عالمِ جنون میں خودکشی کر لی تھی۔ اُس کی وفات پر یہ نظم کہی گئی تھی۔
نہ اعتبار سہی اس حیاتِ فانی کا
مگر امید سے ہے لطف زندگانی کا
پیامِ مرگ ہے غم یاسِ جاودانی کا
شباب روح کا ہے حوصلہ جوانی کا
بشر کا دل نہ ہو زندہ تو آب و گل کیا ہے
فقط طلسم امیدوں کا ہے یہ دل کیا ہے
شہیدِ یاس چلا دل پہ تیرے کون خدنگ
تڑپ کے خاک ہوئی دل میں کون دل کی امنگ
کہ جس سے رنگ طبیعت کا ہو گیا بے رنگ
ہوا ترانۂ ہستی کا ساز بے آہنگ
بنا حیات کا ارمان آبلہ دل کا
لٹا شباب کی منزل میں قافلہ دل کا
کھلا نہ راز طبیعت کی بے قراری کا
زباں کو پاس رہا دل کی پردہ داری کا
جنوں میں ہوش رہا ضبطِ آہ و زاری کا
نشاں طبیب نے پایا نہ زخمِ کاری کا
کسی نے بھی نہ طبیعت کا یہ فسوں سمجھا
کوئی سَنَک کوئی سودا کوئی جنوں سمجھا
زباں کی طرح ہے رگ رگ سے یہ صدا جاری
طبیب کھو نہ سکا زندگی کی بیماری
ہے تیری نعش پہ بھی عالمِ جنوں طاری
کفن پہ چار طرف ہے لہو سے گُل کاری
ستم کشوں کے لیے طرفہ یادگار ہے یہ
ترے شباب کی بس آخری بہار ہے یہ
جب اپنی جا سے ابلتا ہے چشمۂ کہسار
قدم قدم پہ دکھاتا ہے جوش کی رفتار
مگر جو راہ میں حائل ہو پتھروں کا فشار
تو یوں بکھرتا ہے قطروں میں جیسے اشک کا تار
شباب یوں ہی لٹا بے کسی کے بسمل کا
ستم ہے جوشِ جوانی میں ٹوٹنا دل کا
دعائیں دیتے تھے جس گود میں کھلا کے تجھے
اُسی میں آج سلایا کفن پنھا کے تجھے
گناہگار ہوئے لکھنؤ میں لا کے تجھے
خموش بیٹھے ہیں اب خاک میں ملا کے تجھے
دعا کا غم نہ دوا کی ہے جستجو باقی
جو دل میں ہے تو ہے مرنے کی آرزو باقی
جو دل کو توڑ دے وہ ماتمِ شباب ہے یہ
جو اپنی جان پہ رہتا ہے وہ عتاب ہے یہ
جو عمر بھر رہے وہ بے کسی کا خواب ہے یہ
کسی غریب کی ہستی کا انقلاب ہے یہ
جو دل میں دردِ محبت تھا آج داغ ہوا
چِتا کی آگ سے روشن یہی چراغ ہوا
جہاں میں دیکھے ہیں ایسے بھی خوش نصیب شجر
سِدھارتے ہیں جو گلشن سے پھول کر، پھل کر
نظر سے گذرے ہیں ایسے بھی نخل بار آور
جو سوکھ جاتے ہیں فصلِ بہار میں آ کر
مگر بہار و خزاں تھی نہ اس شجر کے لیے
زمیں سے اس نے اٹھایا تھا سر تبر کے لیے
(پنڈت برج نرائن چکبست)
۱۹۱۵ء
 
Top