Aasim Shams Aasim
معطل
’نصف قلندر۔۔۔‘
___________________________
کہنے کو نصف قلندر ہے،
فطرت میں کتنی سندر ہے،
وسعت میں ایک سمندر ہے،
اک فصلِ بہاراں ہے عورت،
پر اپنی خاطر بنجر ہے،
یہ دنیا ایک چوراہا ہے،
اور آدم ایک مداری ہے،
اس دنیا کے چوراہے میں،
آدم کے روپ ہزاروں ہیں،
یہ باپ بھی ہے اور بیٹا بھی،
یہ شوہر بھی ہے بھائی بھی ہے،
یہ حاکم ہے اور ملّا بھی،
یہ عاشق بھی ہرجائی بھی ہے،
دنیا میں صدیاں بیت گئیں،
آدم کا روپ نہیں بدلا،
کہ آج بھی اس کے ہاتھوں میں،
عورت زنجیر میں رہتی ہے،
اس دنیا کے چوراہے پر،
ہر روز تماشا لگتا ہے،
حوّا کی پاکیزہ بیٹی،
ہر پل نچوائی جاتی ہے،
دے دے کر مجبوری کی بولی،
اس نور کو بیچا جاتا ہے،
یا شیش محل کی اینٹوں میں،
زندہ چنوائی جاتی ہے،
بیٹی کے روپ میں تم دیکھو،
مٹی میں گاڑا جاتا ہے،
بیٹوں کا بدلہ لینے کو،
اک ماں کو مارا جاتا ہے،
ہمشیر کی جاں کے صدقے میں،
بہنوں کو وارا جاتا ہے،
بیوی گھر بھر کی جوتی ہے،
تا عمر چتا میں جلتی ہے،
یا پھر چند گہنوں کی خاطر،
زندہ جلوائی جاتی ہے،
اک فصلِ بہاراں ہے عورت،
پر اپنی خاطر بنجر ہے،
کہنے کو نصف قلندر ہے،
اے ابنِ آدم ہوش میں آ،
اتنا بھی تجھے ادراک نہیں،
مہلت کے چند پل باقی ہیں،
اور اب بھی تجھے احساس نہیں،
ہر ایک مقدّس ہستی کو،
عورت نے دودھ پلایا ہے،
کہ دو عالم کی رحمتؐ نے،
آمد پہ دائی حلیمہ کی،
چادر کو اپنی پھیلایا ہے،
جان و دل صدقے انؐ پر،
اے ابنِ آدم سوچ ذرا،
وہ وقت ذرا بھی دور نہیں،
جب صور کو پھونکا جائے گا،
تجھ جیسے مردہ ابلیسوں کو،
قبروں سے کھینچا جائے گا،
جب نسب و نسل کے سارے بت،
مٹی میں ملائے جائیں گے،
میزانِ عدل کے پلڑوں میں،
انساں تُلوائے جائیں گے،
جب قہرِ خدا کی ہیبت سے،
یہ دھرتی تھر تھر کانپے گی،
دہشت اس درجے کو پہنچے گی،
دنیا ہاتھوں کو کاٹے گی،
اور غیض کا عالَم یہ ہو گا،
مجرم سے بات نہیں ہو گی،
بس زندہ گاڑی لڑکی سے،
دھیرے سے پوچھا جائے گا،
کس جرم کے بدلے میں تجھ کو،
دفنایا گیا تھا مٹی میں؟
اُس وقت خدا کے غصے سے،
دو عالم مٹی ہو جائیں گے،
ان چھوٹی سی پریوں کی خاطر،
جبرئیلؑ زمیں پہ آئیں گے،
دروازہ خدا کی جنت کا،
اہلِ حق پہ کُھل جائے گا،
ہر زندہ دفنائی بیٹی کو،
تختوں پہ بٹھایا جائے گا،
اور نورِ خدا کی رحمت سے،
ہر زخم مٹایا جائے گا،
ہر اہلِ ستم مردودِ زماں،
آتش پہ لٹایا جائے گا،
اے ابنِ آدم ہوش میں آ،
تخلیق خدا کے روپ کئی،
اک روپ ان ہی میں عورت ہے،
یہ روپ خدا کو پیارا ہے،
یہ روپ خدا کی رحمت ہے،
اس روپ کو ابنِ آدم نے،
کانٹوں پہ چلوایا ہے،
ہر روپ میں اذیت دے دے کر،
تا عمر اسے رُلوایا ہے،
وہ دن لیکن اب دور نہیں،
منصف جب خود خالق ہو گا،
جو حاضر ہے اور ناظر بھی،
سو جو ہو گا بر حق ہو گا،
ہر سر کش شیطاں کو دوزخ،
جب آگ کے پھول چٹائے گی،
ہر طاہر پاکیزہ عورت،
ہر پل ہر دم مسکائے گی،
جو اپنی ذات میں سندر ہے،
وسعت میں ایک سمندر ہے،
اور اہلِ نظر کی نظروں میں،
جو اب بھی نصف قلندر ہے۔۔۔‘
عاصمؔ شمس
2 Mar,2015
___________________________
کہنے کو نصف قلندر ہے،
فطرت میں کتنی سندر ہے،
وسعت میں ایک سمندر ہے،
اک فصلِ بہاراں ہے عورت،
پر اپنی خاطر بنجر ہے،
یہ دنیا ایک چوراہا ہے،
اور آدم ایک مداری ہے،
اس دنیا کے چوراہے میں،
آدم کے روپ ہزاروں ہیں،
یہ باپ بھی ہے اور بیٹا بھی،
یہ شوہر بھی ہے بھائی بھی ہے،
یہ حاکم ہے اور ملّا بھی،
یہ عاشق بھی ہرجائی بھی ہے،
دنیا میں صدیاں بیت گئیں،
آدم کا روپ نہیں بدلا،
کہ آج بھی اس کے ہاتھوں میں،
عورت زنجیر میں رہتی ہے،
اس دنیا کے چوراہے پر،
ہر روز تماشا لگتا ہے،
حوّا کی پاکیزہ بیٹی،
ہر پل نچوائی جاتی ہے،
دے دے کر مجبوری کی بولی،
اس نور کو بیچا جاتا ہے،
یا شیش محل کی اینٹوں میں،
زندہ چنوائی جاتی ہے،
بیٹی کے روپ میں تم دیکھو،
مٹی میں گاڑا جاتا ہے،
بیٹوں کا بدلہ لینے کو،
اک ماں کو مارا جاتا ہے،
ہمشیر کی جاں کے صدقے میں،
بہنوں کو وارا جاتا ہے،
بیوی گھر بھر کی جوتی ہے،
تا عمر چتا میں جلتی ہے،
یا پھر چند گہنوں کی خاطر،
زندہ جلوائی جاتی ہے،
اک فصلِ بہاراں ہے عورت،
پر اپنی خاطر بنجر ہے،
کہنے کو نصف قلندر ہے،
اے ابنِ آدم ہوش میں آ،
اتنا بھی تجھے ادراک نہیں،
مہلت کے چند پل باقی ہیں،
اور اب بھی تجھے احساس نہیں،
ہر ایک مقدّس ہستی کو،
عورت نے دودھ پلایا ہے،
کہ دو عالم کی رحمتؐ نے،
آمد پہ دائی حلیمہ کی،
چادر کو اپنی پھیلایا ہے،
جان و دل صدقے انؐ پر،
اے ابنِ آدم سوچ ذرا،
وہ وقت ذرا بھی دور نہیں،
جب صور کو پھونکا جائے گا،
تجھ جیسے مردہ ابلیسوں کو،
قبروں سے کھینچا جائے گا،
جب نسب و نسل کے سارے بت،
مٹی میں ملائے جائیں گے،
میزانِ عدل کے پلڑوں میں،
انساں تُلوائے جائیں گے،
جب قہرِ خدا کی ہیبت سے،
یہ دھرتی تھر تھر کانپے گی،
دہشت اس درجے کو پہنچے گی،
دنیا ہاتھوں کو کاٹے گی،
اور غیض کا عالَم یہ ہو گا،
مجرم سے بات نہیں ہو گی،
بس زندہ گاڑی لڑکی سے،
دھیرے سے پوچھا جائے گا،
کس جرم کے بدلے میں تجھ کو،
دفنایا گیا تھا مٹی میں؟
اُس وقت خدا کے غصے سے،
دو عالم مٹی ہو جائیں گے،
ان چھوٹی سی پریوں کی خاطر،
جبرئیلؑ زمیں پہ آئیں گے،
دروازہ خدا کی جنت کا،
اہلِ حق پہ کُھل جائے گا،
ہر زندہ دفنائی بیٹی کو،
تختوں پہ بٹھایا جائے گا،
اور نورِ خدا کی رحمت سے،
ہر زخم مٹایا جائے گا،
ہر اہلِ ستم مردودِ زماں،
آتش پہ لٹایا جائے گا،
اے ابنِ آدم ہوش میں آ،
تخلیق خدا کے روپ کئی،
اک روپ ان ہی میں عورت ہے،
یہ روپ خدا کو پیارا ہے،
یہ روپ خدا کی رحمت ہے،
اس روپ کو ابنِ آدم نے،
کانٹوں پہ چلوایا ہے،
ہر روپ میں اذیت دے دے کر،
تا عمر اسے رُلوایا ہے،
وہ دن لیکن اب دور نہیں،
منصف جب خود خالق ہو گا،
جو حاضر ہے اور ناظر بھی،
سو جو ہو گا بر حق ہو گا،
ہر سر کش شیطاں کو دوزخ،
جب آگ کے پھول چٹائے گی،
ہر طاہر پاکیزہ عورت،
ہر پل ہر دم مسکائے گی،
جو اپنی ذات میں سندر ہے،
وسعت میں ایک سمندر ہے،
اور اہلِ نظر کی نظروں میں،
جو اب بھی نصف قلندر ہے۔۔۔‘
عاصمؔ شمس
2 Mar,2015