نصف قلندر: ایک نثری نظم پیش کرنے کی جسارت

’نصف قلندر۔۔۔‘
___________________________
کہنے کو نصف قلندر ہے،
فطرت میں کتنی سندر ہے،
وسعت میں ایک سمندر ہے،
اک فصلِ بہاراں ہے عورت،
پر اپنی خاطر بنجر ہے،
یہ دنیا ایک چوراہا ہے،
اور آدم ایک مداری ہے،
اس دنیا کے چوراہے میں،
آدم کے روپ ہزاروں ہیں،
یہ باپ بھی ہے اور بیٹا بھی،
یہ شوہر بھی ہے بھائی بھی ہے،
یہ حاکم ہے اور ملّا بھی،
یہ عاشق بھی ہرجائی بھی ہے،
دنیا میں صدیاں بیت گئیں،
آدم کا روپ نہیں بدلا،
کہ آج بھی اس کے ہاتھوں میں،
عورت زنجیر میں رہتی ہے،
اس دنیا کے چوراہے پر،
ہر روز تماشا لگتا ہے،
حوّا کی پاکیزہ بیٹی،
ہر پل نچوائی جاتی ہے،
دے دے کر مجبوری کی بولی،
اس نور کو بیچا جاتا ہے،
یا شیش محل کی اینٹوں میں،
زندہ چنوائی جاتی ہے،
بیٹی کے روپ میں تم دیکھو،
مٹی میں گاڑا جاتا ہے،
بیٹوں کا بدلہ لینے کو،
اک ماں کو مارا جاتا ہے،
ہمشیر کی جاں کے صدقے میں،
بہنوں کو وارا جاتا ہے،
بیوی گھر بھر کی جوتی ہے،
تا عمر چتا میں جلتی ہے،
یا پھر چند گہنوں کی خاطر،
زندہ جلوائی جاتی ہے،
اک فصلِ بہاراں ہے عورت،
پر اپنی خاطر بنجر ہے،
کہنے کو نصف قلندر ہے،
اے ابنِ آدم ہوش میں آ،
اتنا بھی تجھے ادراک نہیں،
مہلت کے چند پل باقی ہیں،
اور اب بھی تجھے احساس نہیں،
ہر ایک مقدّس ہستی کو،
عورت نے دودھ پلایا ہے،
کہ دو عالم کی رحمتؐ نے،
آمد پہ دائی حلیمہ کی،
چادر کو اپنی پھیلایا ہے،
جان و دل صدقے انؐ پر،
اے ابنِ آدم سوچ ذرا،
وہ وقت ذرا بھی دور نہیں،
جب صور کو پھونکا جائے گا،
تجھ جیسے مردہ ابلیسوں کو،
قبروں سے کھینچا جائے گا،
جب نسب و نسل کے سارے بت،
مٹی میں ملائے جائیں گے،
میزانِ عدل کے پلڑوں میں،
انساں تُلوائے جائیں گے،
جب قہرِ خدا کی ہیبت سے،
یہ دھرتی تھر تھر کانپے گی،
دہشت اس درجے کو پہنچے گی،
دنیا ہاتھوں کو کاٹے گی،
اور غیض کا عالَم یہ ہو گا،
مجرم سے بات نہیں ہو گی،
بس زندہ گاڑی لڑکی سے،
دھیرے سے پوچھا جائے گا،
کس جرم کے بدلے میں تجھ کو،
دفنایا گیا تھا مٹی میں؟
اُس وقت خدا کے غصے سے،
دو عالم مٹی ہو جائیں گے،
ان چھوٹی سی پریوں کی خاطر،
جبرئیلؑ زمیں پہ آئیں گے،
دروازہ خدا کی جنت کا،
اہلِ حق پہ کُھل جائے گا،
ہر زندہ دفنائی بیٹی کو،
تختوں پہ بٹھایا جائے گا،
اور نورِ خدا کی رحمت سے،
ہر زخم مٹایا جائے گا،
ہر اہلِ ستم مردودِ زماں،
آتش پہ لٹایا جائے گا،
اے ابنِ آدم ہوش میں آ،
تخلیق خدا کے روپ کئی،
اک روپ ان ہی میں عورت ہے،
یہ روپ خدا کو پیارا ہے،
یہ روپ خدا کی رحمت ہے،
اس روپ کو ابنِ آدم نے،
کانٹوں پہ چلوایا ہے،
ہر روپ میں اذیت دے دے کر،
تا عمر اسے رُلوایا ہے،
وہ دن لیکن اب دور نہیں،
منصف جب خود خالق ہو گا،
جو حاضر ہے اور ناظر بھی،
سو جو ہو گا بر حق ہو گا،
ہر سر کش شیطاں کو دوزخ،
جب آگ کے پھول چٹائے گی،
ہر طاہر پاکیزہ عورت،
ہر پل ہر دم مسکائے گی،
جو اپنی ذات میں سندر ہے،
وسعت میں ایک سمندر ہے،
اور اہلِ نظر کی نظروں میں،
جو اب بھی نصف قلندر ہے۔۔۔‘

عاصمؔ شمس
2 Mar,2015
 

نایاب

لائبریرین
جو اپنی ذات میں سندر ہے،
وسعت میں ایک سمندر ہے،
اور اہلِ نظر کی نظروں میں،
جو اب بھی نصف قلندر ہے۔۔۔‘
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا خوب کہی ہے نظم
بھونچال سا برپا کر دیتی ہے ۔۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
’نصف قلندر۔۔۔‘
___________________________
کہنے کو نصف قلندر ہے،
فطرت میں کتنی سندر ہے،
وسعت میں ایک سمندر ہے،
اک فصلِ بہاراں ہے عورت،
پر اپنی خاطر بنجر ہے،
یہ دنیا ایک چوراہا ہے،
اور آدم ایک مداری ہے،
اس دنیا کے چوراہے میں،
آدم کے روپ ہزاروں ہیں،
یہ باپ بھی ہے اور بیٹا بھی،
یہ شوہر بھی ہے بھائی بھی ہے،
یہ حاکم ہے اور ملّا بھی،
یہ عاشق بھی ہرجائی بھی ہے،
دنیا میں صدیاں بیت گئیں،
آدم کا روپ نہیں بدلا،
کہ آج بھی اس کے ہاتھوں میں،
عورت زنجیر میں رہتی ہے،
اس دنیا کے چوراہے پر،
ہر روز تماشا لگتا ہے،
حوّا کی پاکیزہ بیٹی،
ہر پل نچوائی جاتی ہے،
دے دے کر مجبوری کی بولی،
اس نور کو بیچا جاتا ہے،
یا شیش محل کی اینٹوں میں،
زندہ چنوائی جاتی ہے،
بیٹی کے روپ میں تم دیکھو،
مٹی میں گاڑا جاتا ہے،
بیٹوں کا بدلہ لینے کو،
اک ماں کو مارا جاتا ہے،
ہمشیر کی جاں کے صدقے میں،
بہنوں کو وارا جاتا ہے،
بیوی گھر بھر کی جوتی ہے،
تا عمر چتا میں جلتی ہے،
یا پھر چند گہنوں کی خاطر،
زندہ جلوائی جاتی ہے،
اک فصلِ بہاراں ہے عورت،
پر اپنی خاطر بنجر ہے،
کہنے کو نصف قلندر ہے،
اے ابنِ آدم ہوش میں آ،
اتنا بھی تجھے ادراک نہیں،
مہلت کے چند پل باقی ہیں،
اور اب بھی تجھے احساس نہیں،
ہر ایک مقدّس ہستی کو،
عورت نے دودھ پلایا ہے،
کہ دو عالم کی رحمتؐ نے،
آمد پہ دائی حلیمہ کی،
چادر کو اپنی پھیلایا ہے،
جان و دل صدقے انؐ پر،
اے ابنِ آدم سوچ ذرا،
وہ وقت ذرا بھی دور نہیں،
جب صور کو پھونکا جائے گا،
تجھ جیسے مردہ ابلیسوں کو،
قبروں سے کھینچا جائے گا،
جب نسب و نسل کے سارے بت،
مٹی میں ملائے جائیں گے،
میزانِ عدل کے پلڑوں میں،
انساں تُلوائے جائیں گے،
جب قہرِ خدا کی ہیبت سے،
یہ دھرتی تھر تھر کانپے گی،
دہشت اس درجے کو پہنچے گی،
دنیا ہاتھوں کو کاٹے گی،
اور غیض کا عالَم یہ ہو گا،
مجرم سے بات نہیں ہو گی،
بس زندہ گاڑی لڑکی سے،
دھیرے سے پوچھا جائے گا،
کس جرم کے بدلے میں تجھ کو،
دفنایا گیا تھا مٹی میں؟
اُس وقت خدا کے غصے سے،
دو عالم مٹی ہو جائیں گے،
ان چھوٹی سی پریوں کی خاطر،
جبرئیلؑ زمیں پہ آئیں گے،
دروازہ خدا کی جنت کا،
اہلِ حق پہ کُھل جائے گا،
ہر زندہ دفنائی بیٹی کو،
تختوں پہ بٹھایا جائے گا،
اور نورِ خدا کی رحمت سے،
ہر زخم مٹایا جائے گا،
ہر اہلِ ستم مردودِ زماں،
آتش پہ لٹایا جائے گا،
اے ابنِ آدم ہوش میں آ،
تخلیق خدا کے روپ کئی،
اک روپ ان ہی میں عورت ہے،
یہ روپ خدا کو پیارا ہے،
یہ روپ خدا کی رحمت ہے،
اس روپ کو ابنِ آدم نے،
کانٹوں پہ چلوایا ہے،
ہر روپ میں اذیت دے دے کر،
تا عمر اسے رُلوایا ہے،
وہ دن لیکن اب دور نہیں،
منصف جب خود خالق ہو گا،
جو حاضر ہے اور ناظر بھی،
سو جو ہو گا بر حق ہو گا،
ہر سر کش شیطاں کو دوزخ،
جب آگ کے پھول چٹائے گی،
ہر طاہر پاکیزہ عورت،
ہر پل ہر دم مسکائے گی،
جو اپنی ذات میں سندر ہے،
وسعت میں ایک سمندر ہے،
اور اہلِ نظر کی نظروں میں،
جو اب بھی نصف قلندر ہے۔۔۔‘


عاصمؔ شمس
2 Mar,2015

میرے پاس اس نظم کی تعریف کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔آنکھ نم کرادی ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اس نظم کا عنوان اور مصرعہ۔۔۔۔۔نصف قلندر دہرایا جانا آپ کی منشاء یا کوئی اشارہ کرنا چاہ رہے ہیں ؟
 
اس نظم کا عنوان اور مصرعہ۔۔۔۔۔نصف قلندر دہرایا جانا آپ کی منشاء یا کوئی اشارہ کرنا چاہ رہے ہیں ؟
جی: تصوف کے مطابق دنیا میں ڈھائی قلندر گزرے ہیں۔ دو مرد اور آدھی عورت یعنی حضرت رابعہ بصری۔ اس طرح وہ نصف قلندر کہلاتی ہیں۔ میرا اشارہ اسی طرف ہے۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
جی: تصوف کے مطابق دنیا میں دو ڈھائی قلندر گزرے ہیں۔ دو مرد اور آدھی عورت یعنی حضرت رابعہ بصری۔ اس طرح وہ نصف قلندر کہلاتی ہیں۔ میرا اشارہ اسی طرف ہے۔

اچھی معلومات دی ہے ۔۔۔۔ تصوف کے مطابق قلندری کسے کہتے ہیں اگر مناسب سمجھیں تو کچھ بتائیں ۔ ڈھائی قلندر۔۔۔ ؟ باقی دو کون ہیں؟
 
اچھی معلومات دی ہے ۔۔۔۔ تصوف کے مطابق قلندری کسے کہتے ہیں اگر مناسب سمجھیں تو کچھ بتائیں ۔ ڈھائی قلندر۔۔۔ ؟ باقی دو کون ہیں؟

صوفیوں کی دنیا میں قلندر ایک اہم رتبہ ہے۔ اس کے علاوہ ولی، ابدال اور قطب وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ حضرت رابعہ بصری صوفیوں کے مطابق قلندر کے مقام پر فائض ہیں، اسی وجہ سے عوام و ناس میں ڈھائی قلندر مشہور ہیں۔ یعنی کہ دو مرد حضرات سخی شہباز قلندرؒ اور حضرت بو علی قلندرؒ اور ایک عورت یعنی کہ آپؒ ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اسلام میں عورت کی گواہی نصف ہے یعنی دو عورتیں برابر ہیں ایک مرد کے یا ایک مرد سے تقابل میں عورت کا درجہ نصف ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
صوفیوں کی دنیا میں قلندر ایک اہم رتبہ ہے۔ اس کے علاوہ ولی، ابدال اور قطب وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ حضرت رابعہ بصری صوفیوں کے مطابق قلندر کے مقام پر فائض ہیں، اسی وجہ سے عوام و ناس میں ڈھائی قلندر مشہور ہیں۔ یعنی کہ دو مرد حضرات سخی شہباز قلندرؒ اور حضرت بو علی قلندرؒ اور ایک عورت یعنی کہ آپؒ ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اسلام میں عورت کی گواہی نصف ہے یعنی دو عورتیں برابر ہیں ایک مرد کے یا ایک مرد سے تقابل میں عورت کا درجہ نصف ہے۔
آپ کا تصوف میں خاصا لگاؤ ہے ۔ ابھی آئے کچھ دن ہوئے ہیں اور بہت اچھی شاعری پیش کیے جارہے ہیں ۔۔۔ایسے ہی ہمیں اپنی شاعری پڑھواتے رہیں ۔۔ قلندر، ولی ، قطب اور ابدال میں کوئی خاص فرق ہے ؟
 
آپ کا تصوف میں خاصا لگاؤ ہے ۔ ابھی آئے کچھ دن ہوئے ہیں اور بہت اچھی شاعری پیش کیے جارہے ہیں ۔۔۔ایسے ہی ہمیں اپنی شاعری پڑھواتے رہیں ۔۔ قلندر، ولی ، قطب اور ابدال میں کوئی خاص فرق ہے ؟

جی ہاں میں نے اردو شاعری صرف دو سال قبل شروع کی ہے۔ تصوف میں لگائو تھا مگر قریب 30 سال پہلے۔ اس وقت خواجہ شمس الدین عظیمی وغیرہ کو بہت پڑھا۔ میں جب میٹرک میں تھا۔ اس کے بعد کالج اور پھر انکار حدیث سے الحاد کا ایک طویل دور۔ پھر اللہ نے آنکھیں کھول دیں اس ذات پاک کی مہربانی تھی مجھ جیسے گنہ گار پر۔ بس اب تو جب کوئی دنیاوی ضرورت ہوتی ہے تو کچھ نا کچھ پڑھ لیتے ہیں۔ کام مالک فوراً پورا کر دیتا ہے۔ یہ صحافت کی دنیا بہت مصروف ہے۔ جتنا بڑا عہدہ اتنی ہی کم مصروفیت۔
قلندر، ولی ، قطب اور ابدال میں کوئی خاص فرق ہے ؟ جی ہاں بہت فرق ہے۔ مگر اس کے لیے آپ کو معلومات بہت آسانی سے نیٹ پر مل جائیں گی۔​
 
صوفیوں کی دنیا میں قلندر ایک اہم رتبہ ہے۔ اس کے علاوہ ولی، ابدال اور قطب وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ حضرت رابعہ بصری صوفیوں کے مطابق قلندر کے مقام پر فائض ہیں، اسی وجہ سے عوام و ناس میں ڈھائی قلندر مشہور ہیں۔ یعنی کہ دو مرد حضرات سخی شہباز قلندرؒ اور حضرت بو علی قلندرؒ اور ایک عورت یعنی کہ آپؒ ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اسلام میں عورت کی گواہی نصف ہے یعنی دو عورتیں برابر ہیں ایک مرد کے یا ایک مرد سے تقابل میں عورت کا درجہ نصف ہے۔


السلام علیکم میں دو باتوں کا مزید اضافہ کرنا چاہوں گا

اول: یہ کہ ہر قسم کے معاملے میں نہیں بلکہ صرف چند معاملات میں عورت کی گواہی آدھی تسلیم کی گئی ہے باقی سب میں اس کی گواہی مرد کے برابر ہی ہے
دوم: اس بات کا تعین کس طرح کیاجائے گا کہ دنیا میں رہتی دنیا تک صرف ڈھائی قلندر ہی رہیں گے؟ کیا دنیا میں تصوف اختتام پذیر ہو چکاہے ؟ بندہ ناچیز نے ابھی چند دن پہلے این میری شمل کی کتاب مائی سول از ا وومن کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ تصوف پر لکھی گئی کتاب ہے۔ ہمارے ڈھائی قلندر کے نظریے سے یقینا کبھی بھی مہذب دنیا کو یہ پیغام نہیں دے سکتے کہ دنیا میں اب قلند نہیں ہوسکتے۔
 
Top