نصیب

عبد الرحمن

لائبریرین
اس کے لمبے قد کے آگے جب وہ ڈیڑھ فٹیا کھڑا ہوکر اس کے کرتے کا دامن کھینچنے لگا تو یوں محسوس ہوا چیونٹی ہاتھی کی سونڈ میں چڑھنے کی کوشش کررہی ہے۔ شہزاد بس کے انتظار میں اسٹاپ پر کھڑا تھا جب وہ کالا بھجنگ بچہ بھیک مانگنے کے لیے اس کے عین سامنے پہنچ گیا۔ کتنی ہی دیر تک شہزاد کو اپنے نزدیک کسی کی موجودی کا احساس نہیں ہوا۔ چار سالہ کم زور لڑکا بنا رکے دامن کھینچنے میں مصروف تھا لیکن اس کی نظریں تو مسلسل سڑک کے دور تک کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں۔ ویسے بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ رکھنے سے اونٹ کی زبان زیرے کے ذائقہ سے آشنا تھوڑی ہوجاتی ہے۔
غیر ارادی طور پر گردن کو تھوڑا آرام دینے کے لیے جب وہ اپنی نظروں کو اپنے احاطے میں لایا تو چونک اٹھا۔ اب وہ کالا بچہ اپنے "سونے جیسے دانتوں" سے اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ چند لمحوں تک وہ بھی اس بچہ کو محویت سے دیکھتا رہا۔ بچہ واقعی بہت معصوم تھا۔ دن رات کے بھیک مانگنے کے پیشے نے بھی بچے سے اس کا بھولا پن نہیں چھینا تھا۔ شہزاد کے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ بچہ بھی کسی خوش حال گھرانے میں پیدا ہوتا تو یہی کالارنگ اس کی خصوصیت گردانا جاتا۔
بالآخر وہ بھی اسے دیکھ کر مسکرایا اور جیب سے دو روپے کا سکہ نکال کر اس کی ننھی ہتھیلی پر رکھ کے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرا۔بچہ کو سکہ کیا ملا گویا ہفت اقلیم کی سلطنت مل گئی ۔اس کی خوشی دیدنی تھی۔ سکہ کو اپنی سیدھے ہاتھ کی جیب میں ڈالا اور مسرت سے بے ہنگم اچھل کود شروع کردی۔ اتنے میں شہزاد کی بس آئی اور وہ نا چاہتے ہوئی بھی اس بچے کو وہاں اکیلا چھوڑ کر اس میں سوار ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید آیا ہی چاہتی تھی۔ پورا کراچی ہی پوش علاقوں کے شاپنگ مالز اور مشہور دکانوں میں خریداری کے لیے نکلا ہوا تھا۔ شہزاد بھی ان ہی باسیوں میں سے ایک تھا۔ وہ ہاتھوں میں دو بڑے بڑے شاپرز اٹھائے گھر کی جانب رواں دواں تھا کہ بے خیالی میں ایک شیشے کی بڑی دکان کے باہر نظر پڑتے ہی ٹھٹھک کر رک گیا۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ یہ تو وہی بچہ تھا جس سے وہ یونی ورسٹی کے سامنے والے روڈ پر مل چکا تھا۔ لیکن پھر غور سے دیکھنے پر پتا چلا کہ یہ بچہ وہ نہیں بلکہ اس سے کافی حد تک مشابہ ہے۔ اس کا رنگ بھی کالا تھا۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جب قسمت روشن ہو تو سیاہ رنگ سے بھی روشنی کی کرنیں پھوٹ پڑتی ہیں ۔
بچہ اپنے والدین سے بری طرح الجھ رہا تھا۔ وہ اپنی پسند کے جوتے دلانے کی فرمایش کررہا تھا۔ جب کہ اس کے ماں باپ اسے اس جوتے کی ناپائیداری کا زبانی ثبوت دینے کی کوشش کررہے تھے۔ مگر بچہ کسی بھی صورت میں ان جوتوں سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھا۔
Mom! please don't do this to
me. These are different and mean so much to me. I want these pair of shoes right away
مشرقی معاشرے میں پروان چڑھنے والے اس چار پانچ سالہ بچے کی انگریزی بھی کمال تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا عید کی خوشیوں پر صرف انہی لوگوں کا حق ہے جن کی دمڑی کے ساتھ گاڑھی دوستی ہے؟ کیا روڈ ماسٹروں اور سڑک چھاپوں کے نخرے اٹھانے والا بھی کوئی موجود ہے یہاں؟ لبوں پر ایک مبہم سی مسکراہٹ کے رقص کے ساتھ شہزاد نے خود سے سوال کیا اور سر ہلاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔​
 

نایاب

لائبریرین
یہ نصیب کی بات مقدر کے فیصلے ۔۔۔۔۔
ہمیں حسب استطاعت اپنے اردگرد موجود لوگوں کو خوشیوں میں دامے درمے سخنے شریک رکھنے کی یاد دہانی کراتی اک خوبصورت حسب موقع تحریر
بہت سی دعاؤں بھری داد
 

گل بانو

محفلین
یہ نصیب کی بات مقدر کے فیصلے ۔۔۔۔۔
ہمیں حسب استطاعت اپنے اردگرد موجود لوگوں کو خوشیوں میں دامے درمے سخنے شریک رکھنے کی یاد دہانی کراتی اک خوبصورت حسب موقع تحریر
بہت سی دعاؤں بھری داد
بہت خوب کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نصیب کی بات مقدر کے فیصلے ہیں ۔۔۔۔ ہم بھی کچھ یہی کہنے والے تھے ۔۔۔۔۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
یہ نصیب کی بات مقدر کے فیصلے ۔۔۔۔۔
ہمیں حسب استطاعت اپنے اردگرد موجود لوگوں کو خوشیوں میں دامے درمے سخنے شریک رکھنے کی یاد دہانی کراتی اک خوبصورت حسب موقع تحریر
بہت سی دعاؤں بھری داد
دعاؤں کے لیے بہت ممنون ہوں نایاب بھائی!

آپ کے لیے بھی فقیر کی طرف سے بہت سی دعائیں۔
 
Top