محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
’’ٹھیک ہے، چلے جاؤ۔‘‘ بالآخر ابو نے اجازت دے ہی دی۔
اجازت ملنے کی دیر تھی، ہم اتنی تیزی سے گھر سے نکلے کہ دروازے سے ٹکراکر گرتے گرتے بچے۔
’’ارے ارے، سنبھل کرجائو بیٹا! دعائیں پڑھ لو۔‘‘ امی نے گھبرا کر کہا۔
’’جی امی! پڑھ لیں۔‘‘ ہم نے جھٹ کہا اور گھر سے باہر آکر اچھل کر اپنی اسکوٹر پر براجمان ہوگئے۔
چابی گھمائی، کک ماری، کلچ دبایا، گئیر ڈالا، کلچ چھوڑا، رفتار بڑھائی… اور یہ ہوگئی ہماری اسکوٹر بکرامنڈی کی جانب رواں دواں۔
ہمیں بکرا منڈی کی سیر کا بہت شوق تھا اور وہ بھی اکیلے، دوستوں کے ساتھ پہلے جاتے تھے، مگر ان کی شرارتوں سے طبیعت مکدر ہوجاتی تھی، اس لیے اب کی بار ہم اکیلے ہی منڈی کی جانب جارہے تھے۔
چار دن سے ابو سے اجازت مانگنے میں مصروف تھے، مگر ابو ٹس سے مس نہیں ہورہے تھے، ایک دفعہ زیادہ اصرار کیا تو کہنے لگے:
’’وقت ضائع کرنا اچھی بات نہیں۔‘‘
’’مگر ابو قربانی کرنا تو اتنی اہم عبادت ہے، میں منڈی جائوں گا تو میرا بھی شوق بڑھے گا۔‘‘ ہم نے دبے دبے لفظوں میں دلیل دی۔
’’تمھارا شوق بڑھنے کے بعد کیا ہوگا؟ کیا تمھارے پاس اتنی رقم ہے کہ کوئی جانور ، کوئی چھوٹا بکرا یا دنبا ہی خرید سکو؟‘‘ ابو نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
ہم سر کھجانے لگے، پھر کچھ سوچ کر ہم نے کہا:
’’ابھی رقم نہیں ہے تو کیا ہوا، ابھی شوق بڑھے گا، بعد میں جب ان شاء اﷲ رقم کا بندوبست ہوگا تو جانور بھی خرید لیں گے۔‘‘
مگر ابو تھے کہ مان کر ہی نہیں دے رہے تھے، کہنے لگے:
’’یہ رات بھر منڈی میں گھومنا اور شرارتی دوستوں کے ساتھ مل کر لوگوں کو تنگ کرنا بالکل نامناسب بات ہے، لہٰذا گھر میں رہو، اچھی اچھی کتابوں کا مطالعہ کرو۔‘‘
’’ابو…! اس بار ہم اپنے شرارتی دوستوں کے ساتھ نہیں جارہے، اکیلے جارہے ہیں۔‘‘ ہم نے اس دلیل کو بھی توڑا۔
’’نہیں، اکیلے جانا تو اور خطرناک ہے۔‘‘
’’ابو…! پلیز، دے دیں نا اجازت۔‘‘ ہم نے لجاجت کے ساتھ کہا، مگر وہ ابو ہی کیا جو امی کی طرح پسیج جائیں۔
’’ابو! جب ہم پر نماز فرض نہیں ہوئی تھی تو آپ ہمیں پھر بھی مصلے پر کھڑا کرکے نماز پڑھواتے تھے، کبھی کبھار مسجد لے جایا کرتے تھے، تاکہ جب فرض ہوجائے تو پہلے سے بنا ہوا شوق کام آئے، یہ قربانی کا شوق بھی تو آگے چل کر کام ہی آئے گانا؟‘‘
شاید اس دلیل سے ابو کچھ متاثر ہوتے نظر آئے، ہمارے لیے یہی کافی تھا، پھر ہم نے اتنی ضد کی کہ بے اختیار ابو کے منہ سے نکلا:
’’ٹھیک ہے، چلے جائو۔‘‘
ہماری اسکوٹر منڈی کی جانب اور دماغ جانوروں کی جانب رواں دواں تھے۔
منڈی پہنچ کر اس کی ایک مانوس سی خوش بو نے دل کو کافی سکون پہنچایا۔
ہم رات بھر منڈی میں چکر لگاتے رہے، جانوروں کا دیدار کرتے رہے، ان کے بھائو معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
کوشش اس لیے کہ ہر ایک نے پوچھنے پر فوراً بھائو نہیں بتایا، بل کہ بعض نے تو بتایا ہی نہیں، ایک سے ہم نے جب پوچھا:
’’بکرا کتنے کا ہے جی؟‘‘
تو اس نے نظر بھر کر ہمیں دیکھا، پھر کہنے لگا:
’’جائو میاں! اپنا کام کرو۔‘‘
ہم منہ بسورے آگے چل دیے۔
ایک صاحب تین گائیں لیے کھڑے تھے، ہم کافی دیر وہاں کھڑے رہے، بہت خوب صورت گائیں تھیں، اتنے میں ایک اور صاحب ہمارے برابر میں آکر ہماری طرح گائیں کا دیدار کرنے لگے۔
ہم نے ایک نظر ان صاحب پر ڈالی، دل میں خیال آیا، شاید یہ بھی ہماری طرح صرف سیر کرنے آئے ہیں، ہمارے اس خیال کی تائید فوراً ہی ہوگئی، وہ صاحب دونوں ہاتھ پیچھے باندھے گائیں کے مالک سے کہنے لگے:
’’یہ بیچ والی کو چھینکیں بہت آرہی ہیں!‘‘
’’دماغ تو ٹھیک ہے تمھارا، یہ رانی ہے رانی، بالکل صحت مند، جائو اپنی آنکھوں کا علاج کرائو۔‘‘ اس کے تیور بتارہے تھے کہ اسے گائے کی بیماری پر تبصرہ ناگوار محسوس ہوا ہے، ظاہر ہے جب جانور کو بیمار کہا جائے گا تو اس کے بھائو میں فرق آئے گا۔
’’اس کا ہدیہ کیا ہے؟‘‘ ہم نے اسے خوش کرنے کے لیے بجائے بھائو یا ریٹ کہنے کے ہدیہ کہہ دیا، مگر وہ شاید سمجھا نہیں، کہنے لگا:
’’یہ ہدیے کی نہیں ہے بھائی صاحب! یہ بیچنے کی ہے، جانور خریدنا نہیں ہے تو گھر جائو، یہاں کیوں ہمارا وقت ضائع کر رہے ہو؟‘‘
اس کی اس بات نے ہمیں تائو دلادیا، مگر ہم کچھ کہے بغیر آگے چل دیے۔
ایک صاحب چھ دنبے لیے کھڑے تھے، چھ کے چھ بالوں سے بھرپور تھے۔
ہم مسکراتے ہوئے ان دنبوں کو دیکھنے لگے، مسکرائے اس لیے تا کہ ہمارا غصہ کچھ کم ہو، کہتے ہیں مسکرانے سے غصہ دور ہوجاتا ہے، ہمارا بھی غصہ دور ہوگیا، مگر ہمارا مسکرانا دنبوں کے مالک کو شاید اچھا نہیں لگا، وہ کہنے لگا:
’’ہاں بھائی! کیوں ہنس رہے ہو؟ آپ لوگ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟‘‘اس کا غصہ دیکھ کر ہماری مسکراہٹ کافور ہوگئی۔
ہم حیرانی سے اسے دیکھنے لگے، نہ سلام، نہ دعا، صرف مسکرانے پر اتنا غصہ، حالاں کہ کراچی کا موسم بھی اتنا اچھا ہے کہ موڈ خراب رہنے کا یا چڑچڑے پن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم مسکرائے ہی تو تھے، کون سا اس کا دنبا چرارہے تھے، ارے مسکراہٹ کے تو لوگ بھوکے ہوتے ہیں، یہ عجیب آدمی تھا کہ مسکرانے پر کہہ رہا تھا کہ تم لوگ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟
’’خیریت تو ہے بھائی جان!‘‘ ہم نے اسے گھور کردیکھا۔ ’’کیوں بلاوجہ شور مچارہے ہو؟‘‘
’’بلاوجہ شور میں مچارہا ہوں یا بلاوجہ آپ لوگ میرے ان جانوروں کا مذاق اڑانے پر تلے ہوئے ہو؟‘‘ اس کا غصہ اسی طرح برقرار تھا۔
’’کیا مذاق اڑایا ہے آپ کے ان بڑے بڑے جانوروں کا؟‘‘ ہم نے بھی آستینیں چڑھالیں۔
’’دیکھا، دیکھا، آپ بھی مذاق اڑانے لگے۔‘‘
اس کے ’’بھی‘‘ کہنے پر ہم چونک گئے، بات کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی۔
’’کسی نے کچھ کہا ہے کیا آپ کو؟‘‘ ہم نے ایک دم نرم پڑتے ہوئے پوچھا۔
’’ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ یہ دنبے تو کوئی فری میں بھی نہیں لے گا۔‘‘
’’اور ہم نے کیا مذاق اڑایا، ہم تو صرف مسکرارہے تھے۔‘‘
’’تمھاری مسکراہٹ میں طنز تھا، پھر جب ہم نے کہا کہ مذاق کیوں اڑا رہے ہو تو تم نے چبا چبا کر کہا کہ کیا مذاق اڑایا ہے آپ کے ان بڑے بڑے جانوروں کا، میں پوچھتا ہوں کیا ان دنبوں کی قربانی نہیں ہوتی؟‘‘
اس کا دکھ سمجھتے ہی ہم بالکل نرم پڑ گئے، اس سے معذرت کرتے ہوئے ہم آگے چل دیے۔
یہ منڈی کے ابتدائی ایام تھے، اس لیے خریدنے والے کم اور نظارہ کرنے والے زیادہ نظر آئے، گویا ہمیں تنہائی بالکل محسوس نہیں ہوئی اور جب تنہائی محسوس نہ ہو تو وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا، وقت کا خیال آتے ہی ہم نے جوں ہی گھڑی دیکھی ہم حیرت سے اچھل پڑے، پانچ بج رہے تھے، فجر کا وقت ہوچکا تھا۔
ہم نے قریبی مسجد میں جاکر فجر کی نماز ادا کی۔
نماز سے فارغ ہوکر ہم نے سوچا کہ آج بڑے دنوں بعد موقع ملا ہے تو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
اپنے ایک اچھے دوست کو فون کر کے کہا کہ کہیں چلنا چاہیے۔
’’ساحل پر چلتے ہیں۔‘‘ اس نے فوراً کہا۔
’’ساحل پر…‘‘ ہم سوچتے ہوئے بڑبڑانے لگے۔
’’ہاں، ساحل پر چلتے ہیں، سنا ہے سورج کے نکلنے کا بڑا کیف منظر ہوتا ہے تو کیوں نہ آج نظارہ ہو ہی جائے، کب تک کیلنڈروں کے مناظر پر گزارہ کرتے رہیں گے۔‘‘
اس کی بات میں کافی وزن تھا، مگر دماغ میں خطرے کی گھنٹی بھی ہلکی سی بجنے لگی، شاید اس لیے کہ اس سے پہلے جب بھی ہم نے اپنے اس دوست کا کوئی مشورہ مانا تھا، کچھ نہ کچھ عجیب بات ضرور ہوئی تھی۔
’’ٹھیک ہے چلتے ہیں۔‘‘ ہم نے ہامی بھر کر ایک جگہ مقرر کی ، وہاں سے ہم دونوں ساحل کی طرف چل دیے۔
سمندر کی لہریں کچھ جوش اور کچھ تھکاوٹ کا مظاہرہ کر رہی تھیں، ہم ساحل پر رکھے ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گئے۔
’’کتنی دیر ہے سورج طلوع ہونے میں؟‘‘ ہم نے بے قراری سے پوچھا۔
’’بس پندرہ منٹ ہوں گے مشکل سے۔‘‘ اس نے کہا۔
ہم سوچنے لگے کہ ایسے جملوں میں لوگ ’’مشکل سے‘‘ کا استعمال کیوں کرتے ہیں، کیا سورج کے لیے طلوع ہونا مشکل ہے، یا پندرہ منٹ گزارنا۔ خیر اللہ اللہ کرکے وقت گزرنے لگا۔
ہم سمندر کی موجوں کی اٹکھیلیوں میں گم ہوگئے، اللہ کی قدرت نظر آرہی تھی، تاحد نگاہ پانی ہی پانی، ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے دنیا میں کوئی پریشانی ہے ہی نہیں، بس چاروں طرف تری ہی تری ہے۔
دماغ کو بھی کافی فرحت محسوس ہورہی تھی، ہم نے طے کرلیا کہ اتنا حسین نظارہ کرنے کے لیے آیا کریں گے، صحت کے لیے بھی کافی مفید ہے، جو لوگ آج کل کے کشیدہ حالات سے بے جا سنجیدگی کا شکار ہوگئے ہیں انھیں وقتاً فوقتاً یہاں آتے رہنا چاہیے۔
پھر جیسے جیسے روشنی ہوتی گئی نظارے کا لطف دوبالا ہوتا چلا گیا، ہم مسحور نگاہوں سے اس نظارے میں ایسے گم ہوگئے تھے کہ دل کر رہا تھا کوئی ہماری گم شدگی کا اعلان بھی نہ کرے، بس دنیا تھم جائے اور ہم یوں ہی نظارہ کرتے رہیں۔
مگر ہمارے سوچنے سے کیا ہوتا ہے، دنیا کا نظام تو چلتا رہا ہے، ابھی بھی چل ہی رہا ہے، آئندہ بھی چلتا ہی رہے گا، مگر ہم دونوں ہی کی خاموشی سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے واقعی دنیا کا نظام چلنا بند ہوگیا ہو۔
ہمیں محسوس ہورہا تھا کہ دوست نے پندرہ منٹ کا کہا تھا، جب کہ آدھے گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔
کسی کیڑے کے ٹانگ پر کاٹنے سے ہم نظارے کے اس سحر سے آزاد ہوئے تو ایک دم سے حیرت کے مارے اچھل کر کھڑے ہوگئے اور بے اختیار اپنے دوست کی گدی پر اس زور سے تھپڑ رسید کیا کہ وہ گرتے گرتے بچا۔
’’کیا ہوگیا؟‘‘ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہمیں دیکھنے لگا۔
’’کیا نہیں ہوا، پیچھے دیکھ۔‘‘ ہم نے چیخ کر کہا۔
’’اس نے پیچھے دیکھا، مگر شاید اس کی سمجھ میں اب بھی نہیں آیا کہ ہم اسے کیا دکھانا چاہ رہا ہیں، ہم نے دونوں ہاتھوں سے اس کے چہرے کو پکڑ کر اوپر آسمان کی طرف اٹھا دیا، سورج اپنی تمام جمال آرائیوں کے ساتھ ہماری پشت کی جانب کھڑا مسکرا مسکرا کر پوچھ رہا تھا:
’’میرے طلوع کا نظارہ تو کرنے آئے تھے، کسی سے پوچھ تو لیا ہوتا میں کہاں سے طلوع ہوتا ہوں۔‘‘
’’دھت تیرے کی…!!‘‘ ہم نے حسرت کے مارے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
اجازت ملنے کی دیر تھی، ہم اتنی تیزی سے گھر سے نکلے کہ دروازے سے ٹکراکر گرتے گرتے بچے۔
’’ارے ارے، سنبھل کرجائو بیٹا! دعائیں پڑھ لو۔‘‘ امی نے گھبرا کر کہا۔
’’جی امی! پڑھ لیں۔‘‘ ہم نے جھٹ کہا اور گھر سے باہر آکر اچھل کر اپنی اسکوٹر پر براجمان ہوگئے۔
چابی گھمائی، کک ماری، کلچ دبایا، گئیر ڈالا، کلچ چھوڑا، رفتار بڑھائی… اور یہ ہوگئی ہماری اسکوٹر بکرامنڈی کی جانب رواں دواں۔
ہمیں بکرا منڈی کی سیر کا بہت شوق تھا اور وہ بھی اکیلے، دوستوں کے ساتھ پہلے جاتے تھے، مگر ان کی شرارتوں سے طبیعت مکدر ہوجاتی تھی، اس لیے اب کی بار ہم اکیلے ہی منڈی کی جانب جارہے تھے۔
چار دن سے ابو سے اجازت مانگنے میں مصروف تھے، مگر ابو ٹس سے مس نہیں ہورہے تھے، ایک دفعہ زیادہ اصرار کیا تو کہنے لگے:
’’وقت ضائع کرنا اچھی بات نہیں۔‘‘
’’مگر ابو قربانی کرنا تو اتنی اہم عبادت ہے، میں منڈی جائوں گا تو میرا بھی شوق بڑھے گا۔‘‘ ہم نے دبے دبے لفظوں میں دلیل دی۔
’’تمھارا شوق بڑھنے کے بعد کیا ہوگا؟ کیا تمھارے پاس اتنی رقم ہے کہ کوئی جانور ، کوئی چھوٹا بکرا یا دنبا ہی خرید سکو؟‘‘ ابو نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
ہم سر کھجانے لگے، پھر کچھ سوچ کر ہم نے کہا:
’’ابھی رقم نہیں ہے تو کیا ہوا، ابھی شوق بڑھے گا، بعد میں جب ان شاء اﷲ رقم کا بندوبست ہوگا تو جانور بھی خرید لیں گے۔‘‘
مگر ابو تھے کہ مان کر ہی نہیں دے رہے تھے، کہنے لگے:
’’یہ رات بھر منڈی میں گھومنا اور شرارتی دوستوں کے ساتھ مل کر لوگوں کو تنگ کرنا بالکل نامناسب بات ہے، لہٰذا گھر میں رہو، اچھی اچھی کتابوں کا مطالعہ کرو۔‘‘
’’ابو…! اس بار ہم اپنے شرارتی دوستوں کے ساتھ نہیں جارہے، اکیلے جارہے ہیں۔‘‘ ہم نے اس دلیل کو بھی توڑا۔
’’نہیں، اکیلے جانا تو اور خطرناک ہے۔‘‘
’’ابو…! پلیز، دے دیں نا اجازت۔‘‘ ہم نے لجاجت کے ساتھ کہا، مگر وہ ابو ہی کیا جو امی کی طرح پسیج جائیں۔
’’ابو! جب ہم پر نماز فرض نہیں ہوئی تھی تو آپ ہمیں پھر بھی مصلے پر کھڑا کرکے نماز پڑھواتے تھے، کبھی کبھار مسجد لے جایا کرتے تھے، تاکہ جب فرض ہوجائے تو پہلے سے بنا ہوا شوق کام آئے، یہ قربانی کا شوق بھی تو آگے چل کر کام ہی آئے گانا؟‘‘
شاید اس دلیل سے ابو کچھ متاثر ہوتے نظر آئے، ہمارے لیے یہی کافی تھا، پھر ہم نے اتنی ضد کی کہ بے اختیار ابو کے منہ سے نکلا:
’’ٹھیک ہے، چلے جائو۔‘‘
ہماری اسکوٹر منڈی کی جانب اور دماغ جانوروں کی جانب رواں دواں تھے۔
منڈی پہنچ کر اس کی ایک مانوس سی خوش بو نے دل کو کافی سکون پہنچایا۔
ہم رات بھر منڈی میں چکر لگاتے رہے، جانوروں کا دیدار کرتے رہے، ان کے بھائو معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
کوشش اس لیے کہ ہر ایک نے پوچھنے پر فوراً بھائو نہیں بتایا، بل کہ بعض نے تو بتایا ہی نہیں، ایک سے ہم نے جب پوچھا:
’’بکرا کتنے کا ہے جی؟‘‘
تو اس نے نظر بھر کر ہمیں دیکھا، پھر کہنے لگا:
’’جائو میاں! اپنا کام کرو۔‘‘
ہم منہ بسورے آگے چل دیے۔
ایک صاحب تین گائیں لیے کھڑے تھے، ہم کافی دیر وہاں کھڑے رہے، بہت خوب صورت گائیں تھیں، اتنے میں ایک اور صاحب ہمارے برابر میں آکر ہماری طرح گائیں کا دیدار کرنے لگے۔
ہم نے ایک نظر ان صاحب پر ڈالی، دل میں خیال آیا، شاید یہ بھی ہماری طرح صرف سیر کرنے آئے ہیں، ہمارے اس خیال کی تائید فوراً ہی ہوگئی، وہ صاحب دونوں ہاتھ پیچھے باندھے گائیں کے مالک سے کہنے لگے:
’’یہ بیچ والی کو چھینکیں بہت آرہی ہیں!‘‘
’’دماغ تو ٹھیک ہے تمھارا، یہ رانی ہے رانی، بالکل صحت مند، جائو اپنی آنکھوں کا علاج کرائو۔‘‘ اس کے تیور بتارہے تھے کہ اسے گائے کی بیماری پر تبصرہ ناگوار محسوس ہوا ہے، ظاہر ہے جب جانور کو بیمار کہا جائے گا تو اس کے بھائو میں فرق آئے گا۔
’’اس کا ہدیہ کیا ہے؟‘‘ ہم نے اسے خوش کرنے کے لیے بجائے بھائو یا ریٹ کہنے کے ہدیہ کہہ دیا، مگر وہ شاید سمجھا نہیں، کہنے لگا:
’’یہ ہدیے کی نہیں ہے بھائی صاحب! یہ بیچنے کی ہے، جانور خریدنا نہیں ہے تو گھر جائو، یہاں کیوں ہمارا وقت ضائع کر رہے ہو؟‘‘
اس کی اس بات نے ہمیں تائو دلادیا، مگر ہم کچھ کہے بغیر آگے چل دیے۔
ایک صاحب چھ دنبے لیے کھڑے تھے، چھ کے چھ بالوں سے بھرپور تھے۔
ہم مسکراتے ہوئے ان دنبوں کو دیکھنے لگے، مسکرائے اس لیے تا کہ ہمارا غصہ کچھ کم ہو، کہتے ہیں مسکرانے سے غصہ دور ہوجاتا ہے، ہمارا بھی غصہ دور ہوگیا، مگر ہمارا مسکرانا دنبوں کے مالک کو شاید اچھا نہیں لگا، وہ کہنے لگا:
’’ہاں بھائی! کیوں ہنس رہے ہو؟ آپ لوگ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟‘‘اس کا غصہ دیکھ کر ہماری مسکراہٹ کافور ہوگئی۔
ہم حیرانی سے اسے دیکھنے لگے، نہ سلام، نہ دعا، صرف مسکرانے پر اتنا غصہ، حالاں کہ کراچی کا موسم بھی اتنا اچھا ہے کہ موڈ خراب رہنے کا یا چڑچڑے پن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم مسکرائے ہی تو تھے، کون سا اس کا دنبا چرارہے تھے، ارے مسکراہٹ کے تو لوگ بھوکے ہوتے ہیں، یہ عجیب آدمی تھا کہ مسکرانے پر کہہ رہا تھا کہ تم لوگ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟
’’خیریت تو ہے بھائی جان!‘‘ ہم نے اسے گھور کردیکھا۔ ’’کیوں بلاوجہ شور مچارہے ہو؟‘‘
’’بلاوجہ شور میں مچارہا ہوں یا بلاوجہ آپ لوگ میرے ان جانوروں کا مذاق اڑانے پر تلے ہوئے ہو؟‘‘ اس کا غصہ اسی طرح برقرار تھا۔
’’کیا مذاق اڑایا ہے آپ کے ان بڑے بڑے جانوروں کا؟‘‘ ہم نے بھی آستینیں چڑھالیں۔
’’دیکھا، دیکھا، آپ بھی مذاق اڑانے لگے۔‘‘
اس کے ’’بھی‘‘ کہنے پر ہم چونک گئے، بات کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی۔
’’کسی نے کچھ کہا ہے کیا آپ کو؟‘‘ ہم نے ایک دم نرم پڑتے ہوئے پوچھا۔
’’ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ یہ دنبے تو کوئی فری میں بھی نہیں لے گا۔‘‘
’’اور ہم نے کیا مذاق اڑایا، ہم تو صرف مسکرارہے تھے۔‘‘
’’تمھاری مسکراہٹ میں طنز تھا، پھر جب ہم نے کہا کہ مذاق کیوں اڑا رہے ہو تو تم نے چبا چبا کر کہا کہ کیا مذاق اڑایا ہے آپ کے ان بڑے بڑے جانوروں کا، میں پوچھتا ہوں کیا ان دنبوں کی قربانی نہیں ہوتی؟‘‘
اس کا دکھ سمجھتے ہی ہم بالکل نرم پڑ گئے، اس سے معذرت کرتے ہوئے ہم آگے چل دیے۔
یہ منڈی کے ابتدائی ایام تھے، اس لیے خریدنے والے کم اور نظارہ کرنے والے زیادہ نظر آئے، گویا ہمیں تنہائی بالکل محسوس نہیں ہوئی اور جب تنہائی محسوس نہ ہو تو وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا، وقت کا خیال آتے ہی ہم نے جوں ہی گھڑی دیکھی ہم حیرت سے اچھل پڑے، پانچ بج رہے تھے، فجر کا وقت ہوچکا تھا۔
ہم نے قریبی مسجد میں جاکر فجر کی نماز ادا کی۔
نماز سے فارغ ہوکر ہم نے سوچا کہ آج بڑے دنوں بعد موقع ملا ہے تو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
اپنے ایک اچھے دوست کو فون کر کے کہا کہ کہیں چلنا چاہیے۔
’’ساحل پر چلتے ہیں۔‘‘ اس نے فوراً کہا۔
’’ساحل پر…‘‘ ہم سوچتے ہوئے بڑبڑانے لگے۔
’’ہاں، ساحل پر چلتے ہیں، سنا ہے سورج کے نکلنے کا بڑا کیف منظر ہوتا ہے تو کیوں نہ آج نظارہ ہو ہی جائے، کب تک کیلنڈروں کے مناظر پر گزارہ کرتے رہیں گے۔‘‘
اس کی بات میں کافی وزن تھا، مگر دماغ میں خطرے کی گھنٹی بھی ہلکی سی بجنے لگی، شاید اس لیے کہ اس سے پہلے جب بھی ہم نے اپنے اس دوست کا کوئی مشورہ مانا تھا، کچھ نہ کچھ عجیب بات ضرور ہوئی تھی۔
’’ٹھیک ہے چلتے ہیں۔‘‘ ہم نے ہامی بھر کر ایک جگہ مقرر کی ، وہاں سے ہم دونوں ساحل کی طرف چل دیے۔
سمندر کی لہریں کچھ جوش اور کچھ تھکاوٹ کا مظاہرہ کر رہی تھیں، ہم ساحل پر رکھے ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گئے۔
’’کتنی دیر ہے سورج طلوع ہونے میں؟‘‘ ہم نے بے قراری سے پوچھا۔
’’بس پندرہ منٹ ہوں گے مشکل سے۔‘‘ اس نے کہا۔
ہم سوچنے لگے کہ ایسے جملوں میں لوگ ’’مشکل سے‘‘ کا استعمال کیوں کرتے ہیں، کیا سورج کے لیے طلوع ہونا مشکل ہے، یا پندرہ منٹ گزارنا۔ خیر اللہ اللہ کرکے وقت گزرنے لگا۔
ہم سمندر کی موجوں کی اٹکھیلیوں میں گم ہوگئے، اللہ کی قدرت نظر آرہی تھی، تاحد نگاہ پانی ہی پانی، ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے دنیا میں کوئی پریشانی ہے ہی نہیں، بس چاروں طرف تری ہی تری ہے۔
دماغ کو بھی کافی فرحت محسوس ہورہی تھی، ہم نے طے کرلیا کہ اتنا حسین نظارہ کرنے کے لیے آیا کریں گے، صحت کے لیے بھی کافی مفید ہے، جو لوگ آج کل کے کشیدہ حالات سے بے جا سنجیدگی کا شکار ہوگئے ہیں انھیں وقتاً فوقتاً یہاں آتے رہنا چاہیے۔
پھر جیسے جیسے روشنی ہوتی گئی نظارے کا لطف دوبالا ہوتا چلا گیا، ہم مسحور نگاہوں سے اس نظارے میں ایسے گم ہوگئے تھے کہ دل کر رہا تھا کوئی ہماری گم شدگی کا اعلان بھی نہ کرے، بس دنیا تھم جائے اور ہم یوں ہی نظارہ کرتے رہیں۔
مگر ہمارے سوچنے سے کیا ہوتا ہے، دنیا کا نظام تو چلتا رہا ہے، ابھی بھی چل ہی رہا ہے، آئندہ بھی چلتا ہی رہے گا، مگر ہم دونوں ہی کی خاموشی سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے واقعی دنیا کا نظام چلنا بند ہوگیا ہو۔
ہمیں محسوس ہورہا تھا کہ دوست نے پندرہ منٹ کا کہا تھا، جب کہ آدھے گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔
کسی کیڑے کے ٹانگ پر کاٹنے سے ہم نظارے کے اس سحر سے آزاد ہوئے تو ایک دم سے حیرت کے مارے اچھل کر کھڑے ہوگئے اور بے اختیار اپنے دوست کی گدی پر اس زور سے تھپڑ رسید کیا کہ وہ گرتے گرتے بچا۔
’’کیا ہوگیا؟‘‘ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہمیں دیکھنے لگا۔
’’کیا نہیں ہوا، پیچھے دیکھ۔‘‘ ہم نے چیخ کر کہا۔
’’اس نے پیچھے دیکھا، مگر شاید اس کی سمجھ میں اب بھی نہیں آیا کہ ہم اسے کیا دکھانا چاہ رہا ہیں، ہم نے دونوں ہاتھوں سے اس کے چہرے کو پکڑ کر اوپر آسمان کی طرف اٹھا دیا، سورج اپنی تمام جمال آرائیوں کے ساتھ ہماری پشت کی جانب کھڑا مسکرا مسکرا کر پوچھ رہا تھا:
’’میرے طلوع کا نظارہ تو کرنے آئے تھے، کسی سے پوچھ تو لیا ہوتا میں کہاں سے طلوع ہوتا ہوں۔‘‘
’’دھت تیرے کی…!!‘‘ ہم نے حسرت کے مارے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔