ساقی۔
محفلین
نظام عدل‘سستا انصاف ‘ پائیدار امن ‘‘ کالم ‘‘
سید احمد علی رضا
قومی اسمبلی سے متفقہ قرارداد کی منظوری کے بعد صدر آصف علی زرداری نے نظام عدل ریگولیشنز 2009 پر دستخط کردیئے ہیں اور نظام عدل ریگولیشنز پر عملدرآمد کا اختیار گورنر کو سونپ دیا ہے۔ نئے عدل ریگولیشنز میں قاضی عدالتیں قرآن و سنت، اجماع اور قیاس کے طے شدہ اسلامی اصولوں کے مطابق فیصلے کریں گی جبکہ فوجداری کیس کا فیصلہ لازما4ماہ میں کرنا ہوگا، تاخیر کی صورت میں قاضی یا جج کی باز پرس ہوگی اور پولیس انچارج ایف آئی آر کے اندراج کے 14 روز کے اندر چالان عدالت میں پیش کرنے کا پابند ہوگا، چالان بروقت پیش نہ کرنے پر متعلقہ قاضی یا جج پولیس افسر کے خلاف کارروائی کیلئے مجاز اتھارٹی کو کہے گا ،سول کیسز کا فیصلہ 6 ماہ میں ہوگا۔نظام عدل ریگولیشن کی منظوری کے بعد طالبان اپنے بڑے ہتھیار حکام کے حوالے کریں گے،ذاتی استعمال کے چھوٹے ہتھیاروں کا لائسنس حاصل کریں گے اورریاستی قوانین کی پابندی قبول کریں گے۔اس متفقہ قرارداد کی منظوری میںسوائے ایم کیو ایم کے باقی تمام جماعتوں نے رائے شماری میں حصہ لیااگر آئین اور قانون کی رو سے دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کی مخالفت درست لگتی ہے کیونکہ ایک ہی ریاست میں دو مختلف طرح کے قوانین کا کوئی جواز نہیں بنتا لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کب آئین کی پاسداری کی ہے؟
قارئین۔۔۔
نظام عدل ریگولیشن کی قومی اسمبلی سے منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد یقینا معاہدہ امن کو نتیجہ خیز بنانے میں مدد ملے گی کیونکہ وفاقی وصوبائی حکومتیں اور فوج اپنے اقدامات سے امن و امان اورلوگوں کے جان ومال کی حفاظت کا جو مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے اس معاہدہ سے وہ یقینا حاصل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں نے تعلیمی اداروں، پولیس تھانوں،نجی و سرکاری املاک، کاروباری ، تجارتی اداروں کو بم دھماکوں سے اڑانے کو معمول بنا لیا تھا۔ خواتین اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لئے بھی گھروں سے باہرنہیں نکل سکتی تھیں۔ ہزاروں بے گناہ افراد جاں بحق ہوئے اور لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے۔ دو سال کی بدامنی اور خانہ جنگی کے بعد اے این پی کی صوبائی حکومت نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے ذریعے معاہدہ امن کیا جس کی اولین شرط نفاذ عدل ریگولیشنز کی منظوری تھی تاکہ عوام کئی عشروں سے سوات میں قاضی کورٹس کے ذریعے سستے انصاف کی فراہمی کا جو جائز مطالبہ کر رہے ہیں اس کی روشنی میں اقدامات کئے جائیں اور عوام کو مطمئن کرکے قیام امن کیلئے کوششوں میں ان کی بھرپور تائید و حمائت حاصل کی جائے، مولانا صوفی محمد کے ساتھ اے این پی نے جو معاہدہ کیا اور فریقین نے اتفاق رائے سے جو نفاذ عدل ریگولیشن تیار کیا ملکی آئین اور مروجہ قوانین میں اس کی گنجائش موجود تھی کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہ تو تشکیل پا سکتا ہے اور نہ نافذ کیا جاسکتا ہے ۔ عوام فوری اور سستے انصاف کا حصول چاہتے ہیںجبکہ موجودہ عدالتی ڈھانچہ مختلف وجوہات کی بناء پر اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہے۔ نظام عدل ریگولیشن کی متفقہ طور پر توثیق کرنے والی تمام جماعتیں مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اس اہم قومی معاملے میں اپنی سیاسی دکان چمکانے کے بجائے ملکی مفاد کو مقدم رکھا اور ملک کو ایک بڑے نقصان سے بچا لیا۔ صدرآصف علی زرداری نظام عدل ریگولیشن پر اگرپہلے ہی دستخط کردیتے تو شائد امریکی دباؤ بھی نہ آتا اور اے این پی کے شکوک و شبہات میں بھی اضافہ نہ ہوتا۔ طالبان کی طرف سے معاہدہ توڑنے کی جو دھمکی ملی اس کی نوبت بھی نہ آتی ۔لیکن اب بھی غنیمت ہے کہ پارلیمنٹ کی قرارداد کے بعد ہی سہی یہ ریگولیشن نفاذ کے مرحلے میں داخل ہوگیا اس طرح صوبائی اور مرکزی حکومت نے گیند مولانا صوفی محمد اور طالبان کی کورٹ میں پھینک دی ہے کہ قاضی عدالتوں کے قیام اور مولانا صوفی محمد کے دیگر مطالبات کی منظوری کے بعد سوات اور مالا کنڈ ڈویژن میں امن قائم کرنا اور ریاستی اداروں کو سازگار ماحول فراہم کرنا حکومت کے ساتھ مولانا صوفی محمد اور تحریک طالبان کی ذمہ داری ہے۔ معاہدہ سوات پر مکمل عملدرآمد میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔امریکہ، بھارت اور ہمارے دیگر مہربان نہ صرف سوات معاہدہ کو ناکام بنانے کی سازش کرسکتے ہیں بلکہ تحریک طالبان کے پردے میں بھارتی ایجنٹ بھی یقینا سرگرم عمل ہوں گے جبکہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے برگشتہ اباحیت پسند عناصر بھی شور و غوغا کریں گے، بیرونی سفارتی دباؤ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود کرنے اور قومی مفادات کے علاوہ عوامی جذبات و احساسات کو اولیت دینے کی پالیسی پرسختی سے عمل پیرا ہوں کہ ایک آزاد، خود مختار اور باوقار قوم کے طور پر یہ ہمارا حق ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں ۔ قائداعظم نے خود پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا اعلان کیا تھا اس لئے حکومت کو کسی قسم کا معذرت خواہانہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔نفاذ عدل سے سوات کے پرامن عوام کو سستا انصاف اور پائیدار امن حاصل ہوگا جبکہ حکومت کو ایک بار پھراپنی رٹ قائم کرنے کا موقع ملے گا جو اہم ترین پیش رفت ہے۔ سوات میں معاہدے کی کامیابی کے بعد حکومت دوسری ایجنسیوں اور فاٹا کے علاقوں میں بھی نہ صرف معاہدے کرسکتی ہے بلکہ سستے انصاف کی فراہمی کیلئے موجودہ قوانین تبدیل کئے جاسکتے ہیں کیونکہ اہم ترین چیز عوام کو انصاف فراہم کرنا اور امن قائم کرنا ہے۔ غالبا اسی بنا ء پر امریکہ اور اس کے مقامی گماشتے معاہدہ سوات کے بھی مخالف ہیں اورنفاذ عدل کے بھی کہ اس طرح ان کی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی خواہش پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی۔
لنک
سید احمد علی رضا
قومی اسمبلی سے متفقہ قرارداد کی منظوری کے بعد صدر آصف علی زرداری نے نظام عدل ریگولیشنز 2009 پر دستخط کردیئے ہیں اور نظام عدل ریگولیشنز پر عملدرآمد کا اختیار گورنر کو سونپ دیا ہے۔ نئے عدل ریگولیشنز میں قاضی عدالتیں قرآن و سنت، اجماع اور قیاس کے طے شدہ اسلامی اصولوں کے مطابق فیصلے کریں گی جبکہ فوجداری کیس کا فیصلہ لازما4ماہ میں کرنا ہوگا، تاخیر کی صورت میں قاضی یا جج کی باز پرس ہوگی اور پولیس انچارج ایف آئی آر کے اندراج کے 14 روز کے اندر چالان عدالت میں پیش کرنے کا پابند ہوگا، چالان بروقت پیش نہ کرنے پر متعلقہ قاضی یا جج پولیس افسر کے خلاف کارروائی کیلئے مجاز اتھارٹی کو کہے گا ،سول کیسز کا فیصلہ 6 ماہ میں ہوگا۔نظام عدل ریگولیشن کی منظوری کے بعد طالبان اپنے بڑے ہتھیار حکام کے حوالے کریں گے،ذاتی استعمال کے چھوٹے ہتھیاروں کا لائسنس حاصل کریں گے اورریاستی قوانین کی پابندی قبول کریں گے۔اس متفقہ قرارداد کی منظوری میںسوائے ایم کیو ایم کے باقی تمام جماعتوں نے رائے شماری میں حصہ لیااگر آئین اور قانون کی رو سے دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کی مخالفت درست لگتی ہے کیونکہ ایک ہی ریاست میں دو مختلف طرح کے قوانین کا کوئی جواز نہیں بنتا لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کب آئین کی پاسداری کی ہے؟
قارئین۔۔۔
نظام عدل ریگولیشن کی قومی اسمبلی سے منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد یقینا معاہدہ امن کو نتیجہ خیز بنانے میں مدد ملے گی کیونکہ وفاقی وصوبائی حکومتیں اور فوج اپنے اقدامات سے امن و امان اورلوگوں کے جان ومال کی حفاظت کا جو مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے اس معاہدہ سے وہ یقینا حاصل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں نے تعلیمی اداروں، پولیس تھانوں،نجی و سرکاری املاک، کاروباری ، تجارتی اداروں کو بم دھماکوں سے اڑانے کو معمول بنا لیا تھا۔ خواتین اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لئے بھی گھروں سے باہرنہیں نکل سکتی تھیں۔ ہزاروں بے گناہ افراد جاں بحق ہوئے اور لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے۔ دو سال کی بدامنی اور خانہ جنگی کے بعد اے این پی کی صوبائی حکومت نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے ذریعے معاہدہ امن کیا جس کی اولین شرط نفاذ عدل ریگولیشنز کی منظوری تھی تاکہ عوام کئی عشروں سے سوات میں قاضی کورٹس کے ذریعے سستے انصاف کی فراہمی کا جو جائز مطالبہ کر رہے ہیں اس کی روشنی میں اقدامات کئے جائیں اور عوام کو مطمئن کرکے قیام امن کیلئے کوششوں میں ان کی بھرپور تائید و حمائت حاصل کی جائے، مولانا صوفی محمد کے ساتھ اے این پی نے جو معاہدہ کیا اور فریقین نے اتفاق رائے سے جو نفاذ عدل ریگولیشن تیار کیا ملکی آئین اور مروجہ قوانین میں اس کی گنجائش موجود تھی کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہ تو تشکیل پا سکتا ہے اور نہ نافذ کیا جاسکتا ہے ۔ عوام فوری اور سستے انصاف کا حصول چاہتے ہیںجبکہ موجودہ عدالتی ڈھانچہ مختلف وجوہات کی بناء پر اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہے۔ نظام عدل ریگولیشن کی متفقہ طور پر توثیق کرنے والی تمام جماعتیں مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اس اہم قومی معاملے میں اپنی سیاسی دکان چمکانے کے بجائے ملکی مفاد کو مقدم رکھا اور ملک کو ایک بڑے نقصان سے بچا لیا۔ صدرآصف علی زرداری نظام عدل ریگولیشن پر اگرپہلے ہی دستخط کردیتے تو شائد امریکی دباؤ بھی نہ آتا اور اے این پی کے شکوک و شبہات میں بھی اضافہ نہ ہوتا۔ طالبان کی طرف سے معاہدہ توڑنے کی جو دھمکی ملی اس کی نوبت بھی نہ آتی ۔لیکن اب بھی غنیمت ہے کہ پارلیمنٹ کی قرارداد کے بعد ہی سہی یہ ریگولیشن نفاذ کے مرحلے میں داخل ہوگیا اس طرح صوبائی اور مرکزی حکومت نے گیند مولانا صوفی محمد اور طالبان کی کورٹ میں پھینک دی ہے کہ قاضی عدالتوں کے قیام اور مولانا صوفی محمد کے دیگر مطالبات کی منظوری کے بعد سوات اور مالا کنڈ ڈویژن میں امن قائم کرنا اور ریاستی اداروں کو سازگار ماحول فراہم کرنا حکومت کے ساتھ مولانا صوفی محمد اور تحریک طالبان کی ذمہ داری ہے۔ معاہدہ سوات پر مکمل عملدرآمد میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔امریکہ، بھارت اور ہمارے دیگر مہربان نہ صرف سوات معاہدہ کو ناکام بنانے کی سازش کرسکتے ہیں بلکہ تحریک طالبان کے پردے میں بھارتی ایجنٹ بھی یقینا سرگرم عمل ہوں گے جبکہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے برگشتہ اباحیت پسند عناصر بھی شور و غوغا کریں گے، بیرونی سفارتی دباؤ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود کرنے اور قومی مفادات کے علاوہ عوامی جذبات و احساسات کو اولیت دینے کی پالیسی پرسختی سے عمل پیرا ہوں کہ ایک آزاد، خود مختار اور باوقار قوم کے طور پر یہ ہمارا حق ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں ۔ قائداعظم نے خود پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا اعلان کیا تھا اس لئے حکومت کو کسی قسم کا معذرت خواہانہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔نفاذ عدل سے سوات کے پرامن عوام کو سستا انصاف اور پائیدار امن حاصل ہوگا جبکہ حکومت کو ایک بار پھراپنی رٹ قائم کرنے کا موقع ملے گا جو اہم ترین پیش رفت ہے۔ سوات میں معاہدے کی کامیابی کے بعد حکومت دوسری ایجنسیوں اور فاٹا کے علاقوں میں بھی نہ صرف معاہدے کرسکتی ہے بلکہ سستے انصاف کی فراہمی کیلئے موجودہ قوانین تبدیل کئے جاسکتے ہیں کیونکہ اہم ترین چیز عوام کو انصاف فراہم کرنا اور امن قائم کرنا ہے۔ غالبا اسی بنا ء پر امریکہ اور اس کے مقامی گماشتے معاہدہ سوات کے بھی مخالف ہیں اورنفاذ عدل کے بھی کہ اس طرح ان کی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی خواہش پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی۔
لنک
.............................................................
میرے خیال سے یہ ایک حقیقت پسندانہ کالم لکھا گیا ہے . آپ کی رائے درکار ہے. رائے درکار ہے لڑائی جگھڑا نہیں